کھیل ختم پیسہ ہضم


جس طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا کھیل پانامہ نے ختم کیا تھا اس طرح تیزی سے تباہ ہوتی معیشت نے عمران خان کا کھیل بھی ختم کر دیا ہے۔ نواز شریف کی فراغت کا عمل پانامہ سے شروع ہو کر واٹس اپ جے آئی ٹی سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا اور اقامہ پر نا اہلی کے فیصلے سے مکمل ہوا۔ تحریک انصاف کی فراغت کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے لیکن یہ عمل نواز شریف کی طرح دو سال نہیں لے گا غالب امکان یہی ہے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی عدم منظوری سے حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت کھو بیٹھے گی اور میاں شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم بن جائیں اور سلسلہ دو ڈھائی ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔

اسلام آباد میں اقتدار کی غلام گردشوں میں اکثر گھومنے والے سیاح یہ کہتے ہیں وزیراعظم سے جوائنٹ چیفس اف سٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کی گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات اصل میں کھیل ختم اور پیسہ ہضم والی ملاقات تھی۔

تبدیلی کا عمل ملکی معیشت کے استحکام اور خطہ میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی خارجہ اور داخلہ پالیسوں پر ملکیت برقرار رکھنے کی ایک کوشش تھی لیکن معاشی ترقی کے ہدف کی ناکامی نے باقی اہداف کی تکمیل کو بھی مشکوک کر دیا ہے اور یہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ میاں شہباز شریف ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول رہے ہیں لیکن اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف سے بے وفائی نہ کرنے پر انہیں وزارت عظمی بھی نہ مل سکی اور آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کی صورت میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی خفگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ حکومت کی تمام محاذوں پر ناکامی اور اس سے زیادہ نا اہلی نے شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا نمائدوں کے درمیان تجدید تعلقات کا موقع فراہم کیا ہے۔

شہباز شریف اگر دونون فریقین میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کوئی قابل عمل تصفیہ کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو میاں نواز شریف واپس جیل میں نہیں جائیں گے۔ سابق وزیراعظم کو جس طرح فارغ کیا گیا ہے اس کی حقیقت سے تمام فریق واقف ہیں۔ میاں نواز شریف اس وقت مضبوط وکٹ پر ہیں اور ان کو مضبوط پوزیشن حکومت کی نا اہلی اور معاشی تباہی کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ معاملہ اب اس بات ختم ہو گا کہ مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کی سربراہی میں اپنے پتے کس طرح کھیلتی ہے۔

میاں نواز شریف سیاست سے دستبردار ہونے کے لئے آمادہ ہو سکتے ہیں لیکن وہ مریم نواز کی سیاست میں موجودگی پر اصرار کریں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی سیاست سے دست برداری پر تیار ہو سکتے ہیں لیکن وہ بھی بلاول بھٹو کی سیاست میں موجودگی پر اصرار کریں گے اور اگر دونوں سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کسی اسے معاملہ پر رضامند ہو گئیں تو مستقبل مریم نواز اور بلاول بھٹو کا ہو گا اور اسٹیبلسمنٹ کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ جہاں تک لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے اور این آر او لینے کا سٹنٹ ہے اس معاملہ پر اسٹیبلشمنٹ کو کچھ نہیں ملے گا نہ میاں نواز شریف سے اور نہ آصف علی زرداری سے۔ پیسے دے کر ڈیل لینے کا عمل دونوں سیاسی جماعتوں کے سیاسی مستقبل کو تباہ کر دے گا اور یہ کام کرنا دونوں سیاسی جماعتوں کے لئے ممکن نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے پاس آپشن محدود ہو چکے ہیں ان کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ جس گھوڑے پر داؤ لگایا تھا وہ ریس ہار چکا ہے وہ ہارا ہی نہیں اس نے جوکی کا مستقبل بھی مشکوک کر دیا ہے اس گھوڑے پر اب داؤ نہیں لگے گا۔ اس گھوڑے کا کھیل ختم ہو چکا ہے اور دوبارہ یہ کبھی بھی کھیل میں شامل نہیں ہو گا۔

عمران خان نے بھی نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے وہ اب اینکرزوں کے ساتھ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی بجائے بیٹ رپورٹر کے ساتھ غم بانٹنے لگے ہیں کہ انہیں پتہ ہے اینکرز کس کی زبان بولتے ہیں۔ وزیراعظم کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ پورا میڈیا ہی ایک مخصوص زبان بول رہا ہے وہ اب وزیراعظم کو بیل آؤٹ بھی نہیں کرے گا اور انہیں اب مسیحا بنا کر بھی پیش نہیں کیا جائے گا کیونکہ کھیل ختم ہو چکا ہے اور پیسہ بھی ہضم ہو چکا ہے۔

جہاں تک این ار او نہیں دوں گا کے دعوی کا تعلق ہے تو ان کی اصلیت کا تبدیلی لانے والوں کا بھی پتہ ہے اور خود حکومت کو بھی خبر ہے وہ کس طرح اقتدار میں آئے۔ وزیراعظم اور ان کے وزرا جو کچھ بھی کہتے رہیں ہوگا وہی جو منظور خدا ہو گا اور خدا کو یہی منظور تھا کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے اور ان پر آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں فرد جرم عائد نہ کی جائے۔ خدا کو یہی منطور تھا میاں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت مل جائے اور چھ ہفتوں کے دوران کوئی مفاہمتی فارمولہ طے پائے جائے۔
یہ اس قدر ظالم اور نا اہل ثابت ہوئے ہیں پوری معیشت کا ناس مار دیا ہے اور حالات اس نہج پر آگئے ہیں مارشل لا بھی نہیں لگ سکتا اس لئے ڈیل ہو گی اور چھ ہفتوں کے اندر ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).