پشاور میں اُدھڑتا ہوا نیا پاکستان


اگر اندھی عقیدت کے گھوڑوں پر سوار عمران خان کے پیروکار حقائق کی زمین پر قدم رکھ دیں تو نہ صرف ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی بلکہ وہ بہت دیر تک اپنے آپ کو کوستے رہیں گے کہ سیاسی بے بصیرتی اور خوش فہمیوں کا عذاب انہیں کن بے اماں راستوں اور سنگ بار موسموں میں لا کے چھوڑ گیا ہے۔

دگرگوں اقتصادی صورتحال مہنگائی کا عفریت سفارتی سطح پر ناکامیاں اور دنیا بھر میں تنہائی تو وہ بڑے مسائل ہیں جس نے تمام اہل فکر و نظر کو چونکایا بھی اور ڈرایا بھی، لیکن اس کے علاوہ بہت سے ناکام منصوبے اور عقل سے عاری اقدامات اور اس کے بطن سے پھوٹتے مسائل نے ایک خلقت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔

تحریک انصاف گزشتہ چھ سال سے خیبر پختون خواہ میں برسراقتدار ہے اور اس طویل عرصے میں اس بد نصیب صوبے میں صرف ایک ہی بڑا منصوبہ بی آر ٹی شروع کیا گیا جو نہ صرف شدید ناکامی سے دوچار ہے بلکہ پشاور کے شہریوں کی حالت زار قابل دید ہے وہ بھی گزشتہ دو سال سے۔ بی آر ٹی صرف روڈ نہیں بلکہ ایک مکمل پیکج تھا جس میں جدید پلازے، باہر سے آنے والی گاڑیوں کے لئے محفوظ پارکنگ اس سے ملحقہ ٹرمینلز وغیرہ شامل تھے لیکن
اے بسا آرزو کہ خاک شد

یہ منصوبہ کاغذات میں بنا اور عملی طور پر عذاب بنتا گیا۔ افتتاح کے لئے تاریخوں پر تاریخیں توادھڑتے اور ملیا میٹ ہوتے شہر کا مقدر خیر کیا جگاتی البتہ لطائف اور طنز کے روایتی ورثے میں ایک بیش بہا اضافہ ضرور کرچکی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پراسرار کہانیوں اور کرداروں نے اس منصوبے کو وہ ”چار چاند“ لگائے کہ پختونوں کی روایتی کہانیوں کے ایک جانے پہچانے کردار ”تورابان دیو“ کو بھی پسینہ آیا ہوگا۔ صورتحال یہاں تک چلی گئی کہ پشاور ہائی کورٹ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا اور اُنچاس ارب روپے سے سو ارب روپے تک پاؤں پھیلانے والے منصوبے کے بارے میں نیب کو انکوائری کرنے کا حکم جاری کیا۔

معزز عدالت کی طرف سے حکم کا جاری ہونا تھا کہ پراسرار راہداریوں میں ایک تھر تھلی مچ گئی اور پشاور کا ترقیاتی ادارہ ( جسے یار لوگ پشاور بربادی ادارہ کہتے ہیں ) فورًا سپریم کورٹ جا پہنچا اور اگلے دن نیب انکوائری پر سٹے آرڈر اُٹھائے فاتحانہ شان سے لوٹ آئے۔

معزز سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ آن گوئنگ ”جاری“ منصوبے کے بارے میں انکوائری روک دی جائے۔ بعض با خبر دوست تحقیق میں تاخیر کے ان ”فوائد“ سے بھی آگاہ ہیں جو مخصوص لوگوں کی جھولی میں گر رہے ہیں۔

اس وقت صوبائی حکومت واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہے، وزیراعلٰی خیبر پختونخواہ محمود خان کو بی آر ٹی منصوبے کے بعض ”معاملات“ اور تکمیل میں تاخیر پر شدید تحفظات ہیں حتٰی کہ 23 مارچ کو اس نے پراجیکٹ کا برائے نام افتتاح کرنے سے بھی انکار کیا، وزیراعلٰی نے پراونشل انسپیکشن ٹیم کو یہ انکوائری کرنے کا حکم بھی دیا ہے کہ بی آرٹی منصوبہ تاخیر کا شکار کیوں ہوا، جبکہ دوسری طرف صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی ”نا معلوم وجوہات کی بناء پر“ اپنی چرب زبانی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں جس میں ہوائی باتوں اور جھوٹی تسلیوں کی بہتات ہے۔

اگلے دن ایک ٹیلی وژن چینل کے ٹاک شو میں پشاور کے مستعد اور با خبر صحافی طارق آفاق شوکت یوسفزئی کے سامنے منصوبے کے متعلق بہت سارے حقائق رکھتا اور اس کے بخئیے اُدھیڑتا دکھائی دیا۔ ظاہر ہے شوکت یوسفزئی ادھر ادھر کی بونگیاں مارنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا لیکن اس میں حیرت کا پہلو ہر گز نہیں کیونکہ جس جماعت سے اس کی وابستگی ہے وہ اسی ”بیانیے“ پر کھڑی ہے۔

اس وقت پشاور کی صورتحال یہ ہے کہ سب سے بڑے کاروباری مراکز صدر اور یونیورسٹی روڈ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر قائم ایک بڑے ہسپتال اور کئی سکولوں میں سناٹا چھانے لگا ہے کیونکہ اس روڈ کا رخ کرنا اب کسی عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

کاروباری طبقہ بد دُعاؤں کو سہارا بنائے ہوئے ہیں، پشاور قومی جرگہ سڑکوں پر بیھٹا ماریں کا رہا ہے۔ عام لوگ ایک مدت ہوئی کہ اپنی گاڑیاں گھروں سے نہیں نکال پائے ہیں اور پشاور شہر کا رُخ کرنا اب دل گردے والوں کا کام رہ گیا ہے۔

اور یوں نیا پاکستا ن اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا ہے جس کے اُوپر اندھی عقیدتوں کے گھوڑوں پر سوار سفر سے بے بہرا اور منزل سے بے خبر ایک بے بصیرت لشکر بھی محو پرواز ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).