مودی کو یہ بات سمجھ جانی چاہیے!


تاریخ شاہد ہے کہ دنیا پیں دو بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور ان دونوں بڑی جنگوں نے دنیا کو لاشوں کے انبار دیے۔ پہلی جنگ عظیم کا آغاز 28 جولائی 1914 ء کو شروع ہوئی جو 11 نومبر 1918 ء تک جاری رہی اور اس جنگ میں انسان کے بنائے اسلحہ و بارود نے ایک کروڑ انسانوں کو نگل لیا دوسری جنگ عظیم کا آغازیکم ستمبر 1939 ء کو ہوا اور یہ جنگ 1945 ء تک جاری رہی اس جنگ میں کروڑوں انسان موت کی نیند سو گئے اس جنگ کا اختتام اس وقت ہوا جب امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم سے حملہ کیا آج بھی ان شہروں پر ایٹمی حملے کے اثرات پائے جاتے ہیں۔

مؤرخ ان دو بڑی جنگوں کی ہولناکیوں کو بہت بھیانک قرار دیتا ہے۔ ان دو بڑی جنگوں سے عبرت حاصل کرنے والے ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ پر نظر دوڑا لیں جن کے نزدیک دنیا میں لڑی جانیوالی جنگوں میں آج تک نقصان اور تباہی کے علاؤہ کسی کو فائدہ نہیں ہوا یہ فلسفہ ازلی جنگجو ممالک نے جان لیا ہے اور یہ ممالک اپنے ملک و قوم کی خاطر جنگوں سے ہمیشہ کے لئے دور ہوگئے۔

صرف ایک صدی قبل کی بات ہے یورپ اور فرانس برطانوی راج کو دل سے تسلیم نہیں کرتا تھا پرتگال کا اطالوی راج کے ساتھ ٹکراؤ تھا جرمن دو جنگوں میں شکست و ریخت سمیٹتے ہوئے تباہی سے دو چار ہوا پھر ان ممالک نے سر جوڑ کر فیصلہ کیا کہ جنگ نہیں بلکہ اپنے ممالک کو امن کی گرہ سے باندھ کر ملک و ملت کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہے دنیا نے دیکھا کہ ان ممالک نکے درمیان طویل سرحدی خلیج ختم ہوگئی اور یہ ممالک اپنی اپنی کرنسی ختم کر کے باہمی تجارت کے لئے ایک ہو گئے۔

آج ان کے نزدیک جنگیں نہیں بلکہ نئی نئی ایجادات ان کے روشن مستقبل کی ضامن ہیں آج شکست سے دوچار ہونیوالے جرمنی کی معشیت ماضی کی زمینی سپر پاور روس کو پیچھے چھوڑ چکی ہے ہارا ہوا جاپان موجودہ زمینی سپر پاور امریکہ کی سب سے بڑی انڈسٹری کو خاموشی کے ساتھ چت کر چکا ہے کوریا کو ہی لے لیں جنگ ہارنے کے باوجود اس نے پاکستان کا پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام اپنایا اور اس کو بڑھاتے ہوئے چار دہائیوں میں انرجی پیدا کر کے چین اور جاپان کے مقابلے پر اتر آیا

آپ چین کو دیکھ لیں ایک سو سال بعد ہانگ کانگ کو واپس لے کر برطانیہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ابھرتے چین نے نہ صرف اقتصادی ترقی کے بل بوتے پر امریکہ جیسی بڑی زمینی طاقت کو زیر کرتے ہوئے کاغذی سپر پاور بنا دیا بلکہ اس کی مارکیٹ میں فروخت ہونیوالی مصنوعات پر بھی میڈ ان چائنا کی چھاپ لگا دی آج امریکہ چین کی مصنوعات خریدتے ہوئے اس کا سب سے بڑا مقروض بن چکا ہے۔

یہ وہ زمینی حقائق ہیں جو جنگ و جدل سے سیکھ کر یہ ممالک اس نتجہ پر پہنچ چکے کہ اگر دنیا کے بدلتے حالات اور تقاضوں کے پیش نظر ذہن و قلب میں پرورش پانے والی نفرت اور تعصب کو مات دے کر امن بسیرے کو ممکن نہ بنایا گیا تو وقت اور حالات انہیں دنیا کے لئے نوشتہ دیوار بنا دیں گے۔ پاک بھارت کشیدگی سے جڑے معاملات ایسے نہیں کہ جو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل نہ ہو سکیں اگر دنیا کے جنگجو ممالک یہ جان چکے ہیں کہ جنگیں کسی مسئلہ کا حل نہیں تو پھر یہ دونوں ممالک تین جنگیں لڑنے کے باوجود اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچ سکے کہ متنازع مسائل گفت و شنید سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

اناؤں اور ہٹ دھرمی کی پالیسی کبھی دونوں ممالک کے درمیان امن کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ پلوامہ حملہ کے واقعے کے بعد پاک بھارت کشیدگی میں کمی واقع نہیں ہوئی بھارت میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں حالات کے اشارے بتا رہے ہیں کہ نریندر مودی سیاسی سبقت کے لئے خطے میں جنگ و جدل کی کیفیت برقرار رکھنے پر مصر دکھائی دیتے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت یہ کہ بھارتی بحریہ کے سابق ایڈمرل رام داس تو اس حقیقت سے پردہ اٹھا چکے ہیں کہ مودی سرکار کی جانب سے جو بالا کوٹ میں جارحیت کا ارتکاب کیا گیا اس کا اصل مقصد ووٹرز کی حمایت حاصل کر کے انتخابات میں سیاسی سبقت کے ثمرات سے فیض یاب ہونا تھا۔

سابق ایڈ مرل رام داس نے الیکشن کمیشن کو ایک خط بھی لکھا جس میں نریندر مودی کے جارحانہ رویے پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ ایسے حالات میں جب بھارت میں چوبیس کروڑ مسلمانوں کا سیاسی استحصال کیا جارہا ہے ’مقبوضہ کشمیرمیں سات لاکھ بھارتی فوج ظلم و استبدار کی تاریخ رقم کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا ارتکاب کر رہی ہے‘ سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے پانی پر شب خون مار کر ارض پاک کو بنجر بنانے کوشش کی جا رہی ہے ’اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان کی دھرتی پر دہشت گردی کا بیج بو یا جا رہاہے‘ مودی بھارت کے اندر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ دیتے ہوئے وہاں پر بسنے والے مسلم گھرانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے ’خطے میں ایک نگران کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے صیہونی قوتوں کی شہ پر خطے کے امن کو غارت کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ایسے میں جب مودی کی فوج تواتر کے ساتھ سرحدی دراندازی کی مرتکب ہورہی ہو تو یوم پاکستان کے  وزیراعظم عمران خان کو تہنیتی پیغام بھجوا کر اس خواہش کا اعادہ کرے کہ وہ خطے میں جمہوریت ’امن اور ترقی و خوشحالی چاہتا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ”بغل میں چھری منہ میں رام رام“ مودی کو ادراک بھی ہے کہ ان متنازع مسائل کو حل کیے بغیر ایسے پیغامات بھجوانابے معنی ہیں۔

اس وقت جنوبی ایشیاء کے ان دو حریف ایٹمی ممالک کو اپنے اپنے ہاں غربت و بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے ایک مشکل اور صبر آزما ہدف کا سامنا ہے دونوں ممالک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور وسائل میں کمی کے باعث غربت و بے روزگاری میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر نریندر مودی خطے میں جمہوریت ’امن‘ ترقی و خوشحالی کا خواہاں ہے تو جنگوں کی تاریخ کا سبق ہی تقلید کے لئے کافی ہے پاکستان او بھارت کے درمیان جو متنازع مسائل بات چیت کے ذریعے حل طلب ہیں ان کو حل کیے بغیر امن اور ترقی و خوشحالی کا خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

مودی کو چاہیے کہ اپنے سیاسی فوائد کے پیش نظر عوام اور اپنی فوج کو داؤ پر نہ لگائے۔ پاکستان آزاد اور خود مختار ملک ہے حکومت ’ریاستی ادارے‘ پاک افواج اور عوام اس کی سلامتی اور بقاء کو قائم رکھنے کے لئے ایک صفحہ پر متحد ہے جس کا اندازہ بھارت کو جارحیت کے ارتکاب کی صورت میں پاکستان کے بھر پور جواب پر بخوبی ہو گیا ہے لیکن بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلط کی جانیوالی جنگوں اور جارحیت کے باوجود پاکستان امن کا داعی ہے لیکن امن کی خواہش پاکستان کی کمزوری نہیں یہ بات اب مودی کو سمجھ جانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).