مدد نہیں، مواقع پیدا کریں


یہ بہت خوش کن بات ہے کہ پاکستان میں ہر آنے والے حکمران نے عوام کی فلاح و بہبود کے بڑے بڑے پروگرام دیے لیکن پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی بھی دیا گیا ایسا پروگرام جو ان کی غربت یا مشکلات دور کرنے کے لئے ہو، ان کی نہ تو غربت دور کرسکا اور نہ ہی ان کی مشکلات میں کمی لا سکا۔

منصوبے بنا بھی کرتے ہیں، چلابھی کرتے ہیں، کامیابیوں سے ہمکنار بھی ہوتے ہیں اور ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔ انسان کا کوئی کام بھی ایسا نہیں جس کو کاملیت حاصل ہو۔ انسان کا کام مسلسل آگے کی جانب بڑھتے رہنے کا عمل ہے لیکن منزل تک پہنچانا اللہ کا کام ہوتا ہے۔ بے شک کسی بھی کام کا آغاز اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا دشواراسے انجام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ آغاز کو انجام تک لیجانا دشوار تر ہی سہی لیکن ناکامی صرف اسی وقت ہوتی ہے جب یا تو کسی کام کا آغاز کرنے کے بعد اس کو بھول جایا جائے یا پھر راہوں میں آنے والی رکاوٹوں پر نظر رکھ کر ان کو دور کرنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا جائے۔ ماضی میں بھی غربت مٹاؤ تحریکیں مختلف مختلف ناموں سے چلتی رہی ہیں لیکن پاکستان میں غربت ختم ہونا تو دور کی بات، کم بھی نہ ہو سکی اور ہر آنے والا دن اس میں بے پناہ اضافہ ہی کرتا نظر آیا۔

موجودہ حکومت سے پاکستان کے عوام بہت آس امید لگائے بیٹھے تھے اور اب بھی امید کا دامن چھوڑا نہیں ہے۔ عوام اب بھی توقع رکھتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں ضرور اپنا نام لکھوانے میں کامیاب ہو جائے گا جہاں کے لوگ باہر جانے کی بجائے باہر کے لوگ پاکستان آنے کی تمنا کیا کریں گے۔ ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب پاکستان میں غربت کو بالکل ہی ختم کردیا جائے اور ملازمت کے اتنے مواقع پیدا کیے جائیں کہ کوئی بے روزگار ہی نہ رہے بلکہ ہمارے ہاں سب کے ملازم ہوجانے کے باوجود بھی آسامیاں اتنی بھاری تعداد میں باقی بچ رہیں کہ دنیا کے پسماندہ ممالک ہمارے ملک میں آکر اپنے لئے روزی کے اسباب حاصل کر سکیں۔

ہرایسے حساس حکمران کی طرح جو یہ چاہتا ہو کہ اس کے ملک میں نہ صرف غربت کا خاتمہ ہو بلکہ غریبوں کی مشکلات میں کمی بھی آجائے، وزیراعظم عمران خان نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے غربت مٹاؤ پروگرام کا افتتاح کردیا۔ اس پروگرام کا نام ”احساس اورکفالت“ رکھا گیا ہے، جس کے تحت بیواؤں، یتیموں اور بزرگوں کو مالی مدد دی جائے گی۔ اس پروگرام کی خاص خاص باتیں کچھ یوں ہیں۔

انصاف کارڈ کا اجرا کیا جائے گا اور جن کو انصاف کارڈ نہیں مل سکیں گے ان کو ”تحفظ“ پروگرام کے تحت صحت کی سہولیات دی جائیں گی۔ پسماندہ علاقوں کے بجٹ میں 80 ارب کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ غریبوں کی مددکرنے والے تمام اداروں کوایک پلیٹ فارم پر لایا جائے گا۔ اس حوالے سے ایک نئی وزارت قائم کی جائے گی جو اس پروگرام کے لیے پورے ملک میں کام کرے گی۔ اسی حوالے سے ملک کی تحصیلوں میں 500 ڈیجیٹل حب بنائے جائیں گے۔ 57 لاکھ خواتین کے لیے سیونگ اکاؤنٹس بنائے جائیں گے، ان کو موبائل فون بھی دیے جائیں گے، موبائل فونز کے ذریعے خواتین بینکاری نظام سے منسلک ہوسکیں گی۔

غریبوں کو مفت قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔ مختلف این جی اوز سے پارٹنر شپ کی جائے گی۔ خواجہ سراؤں کی بھی مدد کی جائے گی۔ بیت المال 4 سال میں 10 ہزار یتیم بچوں کے لیے سوئیٹ ہومز بنائے گا۔ اگلے 4 سال میں 33 لاکھ لوگوں کی مدد کی جائے گی۔ بیرون ملک مقیم ہمارے محنت کش لوگوں کو سہولتیات فراہم کی جائیں گی، جو مزدور بیرون ملک جائیں گے، انہیں ایک سال نہیں بلکہ 3 سال کے معاہدے پر بھیجا جائے گا۔

مذکورہ دس بارہ وہ خاص خاص باتیں ہیں جو موجودہ حکومت کے نقطہ نظر سے غربت ختم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔ لیکن اگر ان سب کا جائزہ لیا جائے تو اس سے غریبوں کی مدد تو ضرور ہوجائے گی اور کسی بھی ضرورت مند کی کوئی ایک آدھ ضرورت پوری ہوجائے گی لیکن غربت میں نہ تو کمی آسکے گی اور نہ ہے غریب لوگوں کی مشکلات ختم ہو پائیں گی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم اپنے اڑوس پڑوس میں کچھ ضرورت مندوں کے لئے کبھی کپڑے، کبھی جوتے، کبھی راشن اور کبھی کسی بچے کی اسکول فیس ادا کر دیتے ہیں۔

اس قسم کے صدقہ خیرات سے جہاں ایک جانب کسی کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے وہیں آرام طلبی اور ہڈ حرامی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ غربت ختم کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں کہ حکومت ایسے منصوبے بنائے جس سے روز گار کے مواقعوں میں اضافہ ہو۔ ملیں بنائی جائیں، کارخانے لگائے جائیں، لائیو اسٹاک، جیسے مال مویشی، پرندے، مرغیوں اور مچھلیوں کے فارم بنائے جائیں، غیر آباد زمینوں کو آباد کیا جائے، پیداوار بڑھائی جائے، ترقیاتی کام بڑھائے جائیں، سڑکوں کے جال بچھائے جائیں، بڑے بڑے تجارتی مراکز تعمیر کیے جائیں، ورکشاپ کھولے جائیں، ایجاداتیں کی جائیں، نئے نئے شہر آباد کیے جائیں، شہروں کی تزئین و آرائش کی جائے اور اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی جائیں۔

یہ ہیں وہ کام جو لوگوں کو خیرات کی بجائے محنت مزدوری اور ہنر مندی کی جانب راغب کریں گے۔ جتنے ملازمت کے مواقع بڑھیں گے اتنی ہی خودداری اور خوش حالی میں اضافہ ہوگا ورنہ پاکستان کا ہر غریب ہمیشہ ”بھیک“ لینے کا ہی عادی بن کر رہ جائے گا۔ مذکورہ سارے پروگرام اچھے ہی سہی اور غریب کا بوجھ کم کرنے میں معاون ہی کیوں نہ ہوں لیکن ان میں ذرا بھی پائیداری نہیں اور نہ ہی کھربوں روپے سالانہ نکال کر ان منصوبوں کو ہمیشگی دینا ممکن ہے۔

اس ”احساس اور کفالت“ پروگرام میں چند نقاط قابل تعریف اور نہایت مثبت بھی ہیں جس میں کلین اورگرین پاکستان مہم میں سیوریج کے مسائل دور کرنا، دیہی خواتین کی مدد کے لیے بکریاں اور دیسی مرغیوں کی فراہمی، یوٹیلیٹی اسٹورز میں خصوصی بیج رکھنا تاکہ لوگ ان کو خرید کر گھر میں پودے لگا سکیں، بلاسودی قرضے اور آن لائن سسٹم کے ذریعے لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنا وغیرہ۔

عوام کے مسائل میں فی زمانہ ایک بہت پریشان کن مسئلہ جو خوفناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے وہ سیورج کا نظام بھی ہے جس سے فضا میں تعفن بڑھتا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ یہ چند برسوں میں صحت کے لئے بہت خطرناک صورت اختیار کرلے لیکن یہ صرف پودے لگانے سے ہی حل نہیں ہوگا۔ شہر کچرے کے ڈھیر بنتے جارہے ہیں جس سے حشرات الارض یاجوج ماجوج کی طرح پھیلتے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں جنگی بنیاد پر کام کرنا ہوگا ورنہ آئندہ چند سالوں میں زندگی عذاب بن کر رہ جائے گی۔

دہی خواتین کے لئے بکریاں اور مرغیوں کی فراہی لاکھ اچھا منصوبہ سہی لیکن اس میں غربت کو ختم کرنے کا کوئی بھی حل موجود اس لئے نہیں ہے کہ شاید ہی کوئی دہی علاقے والا ایسا ہو جس کے پاس مال مویشی یا مرغیاں پہلے سے موجود نہ ہوں۔ جب صدیوں سے ان کے موجود مال مویشی اور مرغیاں غربت میں کمی نہ لا سکے تو دوچار کا اضافہ ان کی مشکلات میں کیا کمی لا سکے گا۔ بڑے بڑے فارم ہاؤسز بنائے جائیں تو ایک جانب ہزاروں کی تعداد میں جانور بھی پل سکیں گے اور دہی علاقوں کے افراد کے لئے روزگار کے مواقع بھی نکل سکیں گے۔

بلاسود قرضے دینے کی اسکیم اچھی سہی لیکن قرضے دینے کی بجائے کیبن اور کھوکھے سجا کر، سلائی مشینں لگا کر اور دستکاری کے مراکز قائم کرکے آسان اقساط پر مستحق حضرات و خواتین کے حوالے کر دیے جائیں تو شاید یہ اور بھی مستحسن قدم ہو۔ میرے نزدیک یہ سب باتیں قابل غور اور قابل عمل ہیں اگر اکابرین ان پر بھی کچھ غور کرلیں تو میں اپنے آپ کو خوش نصیبوں میں شمار کرونگا۔ امید ہے کہ اس جانب بھی ایک نظر ضرور ڈالی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).