چڑیا اُڑنے سے طوطے اُڑنے تک


بچپن میں ایک کھیل ہوا کرتا تھا، جس میں ہم اپنی ننھی ننھی شہادت کی انگلیاں زمین پہ ایک ساتھ رکھ کر آواز کا انتظار کرتے تھے اور آواز یہ تھی چڑیا اُڑی، کوا اُڑا، چیل اُڑی اور جس کی انگلی بھینس اُڑی پہ اُٹھ جاتی تھی وہ ہارتا بھی تھا اورسزا بھی پاتا تھا۔ کھیل تو بچپن کے ساتھ ہی ختم ہوگیا لیکن ہم میں سے اکثر کی سزائیں ابھی ختم نہیں ہوئیں، جبکہ شاید اتنی زیادہ بار بھینس نہیں اُڑائی تھی۔ ہم بڑے ہوتے، پڑھتے پڑھاتے عملی زندگی میں آگئے اور فکرِ معاش نے ہاتھوں کے طوطے اُڑا کر رکھ دیے۔

ایک بار سکول میں پیانوکے سیاہ مارکرسے کسی پکے دوست نے ہماری مونچھیں بنا ڈالی تھیں۔ دوست بھی پکا تھا اور مارکر کی سیاہی بھی، مٹانے کی بہت سعی کی لیکن لاحاصل رہی۔ چھٹی کے بعد گھر آئے تو والد صاحب نے پاس بُلایا۔ ہمیں امید تھی کہ کارٹون بننے پہ مار پڑے گی لیکن وہ نہ جانے کِس موڈ میں بیٹھے تھے کہ انہوں نے کہا بیٹا جب یہ مونچھیں آئیں گی تب پتہ چلے گا۔ اور پھر مونچھیں آگئیں اور لگ پتہ گیا۔ سرکاری نوکری کے لئے سفارش جبکہ پرائیویٹ ملازمت کے لئے ریفرنس شرط ٹھہرا، ویسے دونوں ایک ہی بات ہے۔

لڑتے مرتے جاب مل گئی تو بقاءکی جنگ شروع ہوگئی، صاحب کی چاپلوسی، ایکسٹرا محنت جوکہ کام کا حصہ بھی نہیں تھی اور سر سے پاوں تک کی لامحدود کاوشوں سے جنگ ہارے نہیں مگر جیتے بھی نہیں، بس کولہو کے بیل کی طرح لگے رہے۔ میں غور کررہا ہوں کہ اس مضمون میں پرندوں اور چرندوں کا تواتر سے ذکر ہورہا ہے ایسے میں ایک چڑیا کا تذکرہ نہ کرنا انسانی افزائش ِ نسل کے دلچسپ فعل سے روگردانی کے مترادف ہوگا۔

ہم چھوٹے تھے، صبح صبح ہمیں ہار پہنائے گئے، سب کے چہروں پہ خوشی نمایاں تھی، بس ایک ہم ہی تھے جو وی آئی پی ہونے کے باوجود سارے ایونٹ سے بے خبر تھے۔ پھر ایک صاحب کپڑے کا تھیلا اُٹھائے گھر میں داخل ہوئے۔ سب نے یک زبان ہوکر ان کے آنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرائے۔ لیکن ہم جواباً کیوں مسکرائیں؟ وہ ایک اجنبی شخص تھا۔ مگر ہمیں خبر نہ تھی کہ وہ اجنبی چند ہی لمحوں میں اتنا پرسنل ہو جائے گا۔

ہمیں نیم برہنہ صحن کے وسط میں بٹھا دیا گیا، وہ صاحب بھی سامنے آبیٹھے۔ ہم سمجھے کوئی بات کریں گے لیکن وہ عملی اقدامات پہ یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے بغور ہمارے پوشیدہ اعضاءجوکہ اب جہاں دیدہ ہوچکے تھے، کا معائنہ کیا۔ تھیلے سے اُسترا نکالا، ہلکا سا تیز کیا اور ہماری توجہ ہوا میں اُڑتی کسی ورچوئیل چڑیا کی جانب مبذول کروائی۔ ہم چڑیا کیا دیکھتے تب تک ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا چکا تھا۔ یہ چڑیا ہماری زندگیوں کی اہم ترین چڑیوں میں سے ایک رہی ہے اسی لئے اس کا تذکرہ ضروری سمجھا گیا۔ اور ویسے بھی موجودہ نسل کو اس چڑیا کی کہانیاں سنانا ضروری ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحبان سات یوم کے بچوں کو قطعاً تصوراتی چڑیا کا نہیں بتاتے، یوں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پہ پہلی ضرب لگائی جاتی ہے۔

بالکل ویسے ہی جیسے تیز دور کے والدین کی مصروفیات کے باعث چاند کی بُڑھیا وفات پا چکی ہے۔ خیر ہم کس طرف چل پڑے اس موضوع پہ بات پھر کبھی سہی۔ فی الحال ہم پروفیشل لائف کے سانحات پہ توجہ دیتے ہیں۔

خدا خدا کرکے جاب ملتی ہے تو ضروریات کے مقابلے تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر یا اونٹ کے منہ میں زیرہ یا گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا یا سر مونڈواتے ہی اولے پڑے وغیرہ وغیرہ جیسی کئی مثالیں فِٹ بیٹھتی ہیں لیکن بیچارا محدود آمدن والا طبقہ صحیح سے بیٹھ نہیں پاتا۔ روٹی کپڑا مکان، تعلیم وصحت اور بلبلادینے والے بلوں غرضیکہ تمام ضروریاتِ زندگی دیو صفت وحشی بلاوں کی طرح کمزوراور نحیف آمدن کو انگارہ نگاہوں سے گھورتی ہیں اور معصوم سہمی آمدن لرزنے لگتی ہے اور اگلے ہی لمحے اُسے چیر بھاڑ دیا جاتا ہے۔

پریزنٹ ان ڈفینٹ یا پاسٹ ان ڈیفینٹ جو بھی ہو لیکن دو نوں زمانوں کے حکمران ڈیفینیٹلی اس کے ذمہ دار ہیں۔ حکمرانوں کے بعد رہی سہی کسر دنیا کے ہر کرسی والے نے نکال دی ہے۔ سیٹھ آپ کو اتنی تنخواہ دیتا ہے کہ آپ بس مر نہ سکیں، زندہ رہیں اور اس کے کام آتے رہیں، اگر نہیں تو آپ کا متبادل موجود ہے۔ ویسے ہم سب کی زندگیوں میں ایک عدد امام الحق ضرور ہوتا ہے، جس کا کوئی ماما چاچا تایا اوپری پوسٹ پہ موجود ہوتا ہے اورآپ کو اس کے حصے کا بھی کام کرنا پڑتا ہے۔

وہ غلطی بھی کرے تو چہرے کا اعتماد کم نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی تو ڈھٹائی سے ہنسنے بھی لگتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے میدان میں کیچ گرنے پہ موصوف مسکراتے رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں کوئی ڈر نہیں، ڈر سارے آپ کی ہی قسمت میں لکھے ہیں۔ ان کی تو ظاہری بات ہے کہ جب سیاں کوتوال۔ لو جی ہم زندگی کے میدانِ کارزار بلکہ خارزار سے کرکٹ کے میدان میں کیسے چلے گئے؟ شاید ہمارے دیس میں ایک جیسی مثالیں بھیس بدل کر ہر جگہ موجود ہیں یا پھر اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔

میں مزید ننگے لفظ بھی لکھ سکتا ہوں، مگر ابھی نہیں۔ ابھی مجھے حالات سے لڑنا ہے جب تھکن سے بالکل چور اور قسمت سے مجبور ہوجاونگا تب دل کی بھڑاس نازیبا الفاظ کی صورت نکالی جائے گی۔ میری درخواست ہے دنیا اور خاص طور پرپاکستان کے ہراختیار رکھنے والے شخص سے کہ ہم بچپن سے چڑیا اُڑاتے کھیلتے کودتے پروفیشل لائف میں آگئے ہیں، خدارا ہمارے ہاتھوں کے طوطے نہ اُڑائیں۔ آپ سے بھی زیادہ اختیار والا ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہ نہ ہو کہ کسی میدان میں ایسا حشر اُٹھے کہ آپ کے ہاتھوں کے بھی طوطے اُڑ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).