قربانی کے بکرے اور اناڑی قصّاب


یوں تو نواز شریف کی ضمانت ہو گئی ہے۔ عارضی ہی سہی۔ چھ ہفتے بعد پھر جیل سدھاریں گے۔ دوبارہ ضمانت کے لئے جیل جانا ضروری ہے۔ اس دوران بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے۔ عمران خان چاہیں تو اس وقت نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال کر اپنے نمبر بنا سکتے ہیں مگر انہیں کیا ضرورت ہے نمبر بنانے کی۔ ابھی کون سا الیکشن آرہا ہے جو اس طرح کی حرکتیں کی جائیں۔ بنی گالا میں اللہ ہو کا ورد جاری رہتا ہے۔

جہاں اللہ کا ذکر ہوتا ہو وہاں اللہ کی رحمت بھی ہوتی ہے۔ ادھر رائے ونڈ میں بکروں کا صدقہ دیا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں صدقہ بلا کو ٹالتا ہے۔ بلا نیب کی شکل میں رائے ونڈ آتی جاتی رہتی ہے یا آج کل زیادہ آ جا رہی ہے۔ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکل گیا ہے۔ وہ شکرانے کے نفل پڑھ رہے ہیں۔ ای سی ایل بھی سیاستدانوں کے لئے ایک بلا کا نام ہے۔ اس بلا کو ٹالنے کے لئے علیحدہ علیحدہ بکرے قربان کرنے پڑیں گے۔ قربانیاں رنگ لاتی ہیں۔

مگر قربانی کے لئے بکروں کا ہونا ضروری ہے۔ ہر بار بکروں کی قربانی کے بعد انسانوں کی باری آتی ہے۔ جب بھی حکومت تبدیل ہوتی ہے تبدیلی آتی ہے۔ اس بار بھی تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلی پہلے بھی آتی رہی ہے۔ ہر بار تبدیلی کے نتیجے میں انسانوں کو مہنگائی کی نئی چکی میں پیسا جاتا ہے۔ ہر بار نیا نعرہ لگا کر غریبوں کی قربانی دی جاتی ہے۔ قربان گاہ بھی وہی ہے۔ قربان ہونے والے بھی وہی غریب پاکستانی ہیں۔ قربانی کی چھری بھی وہی آئی ایم ایف ہے۔ بدلا ہے تو صرف قصاب۔ اس بار چھری ایک اناڑی قصاب کے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ اب اس کا چھری چلانے کا شوق تو پورا ہو جائے گا لیکن جس برے طریقے سے پاکستانیوں کی قربانی کی جائے گی، خوفناک ہو گی۔

ادھر بلاول بغیر قربانی کیے گاڑی چڑھ گیا ہے۔ اس کو قربانی کی ضرورت ہی نہیں اس کے ساتھ پیروں کا ٹولہ ہے۔ ان پیروں پر اللہ کا سایہ رہتا ہے۔ پاکستان میں پیر اپنے مریدوں کے لئے شجر سایہ دار کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ مریدوں کے کاروبار کی برکت کا باعث ہوتے ہیں۔ ان کی دعائیں مریدوں کے کاروبار اور اولاد میں برکت لے کر آتی ہے۔ پیر بلاول کے ساتھ ہیں تو بلاول کے کاروبار میں بھی ترقی ہوگی جس طرح ان کی دعاوں سے آصف زرداری اربوں کھربوں کا مالک بن گیا ہے اسی طرح اگر پیروں کا ساتھ رہا تو بلاول بھی ترقی کرے گا۔

نواز شریف کے ٹیسٹ جاری ہیں۔ ان کے دل کی بیماری تھی۔ میڈیکل بورڈ نے گردے کی پتھری نکال دی۔ گردے میں چھوٹی موٹی پتھریاں اکثر لوگوں کو نقصان پہنچائے بغیر کئی کئی سال بلکہ پوری زندگی پڑی رہتی ہیں۔ دوتین میڈیکل بورڈ بنائے گئے تھے۔ شاید میڈیکل بورڈ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ یا وہ کسی نتیجے تک پہنچنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ اکثر اوقات انجائینا کی تشخیص نہیں ہو پاتی۔ مریض کے بیانیے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس مرض میں بعض اوقات صرف بازو میں درد ہوتی ہے۔ اور اگر انجیسڈ کی گولی زبان کے نیچے رکھنے سے وہ درد ٹھیک ہو جائے تو انجائینا کی تشخیص ہو جاتی ہے۔ باقی کے تمام ٹیسٹ انجائینا کی وجوہات کا پتہ چلانے کے لئے کیے جاتے ہیں تاکہ علاج کیا جا سکے۔

شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے پہلے ہی کہ دیا تھا شہباز ڈیل کا ماسٹر ہے۔ اب یہ ڈیل کس کے ساتھ ہے۔ نیب ایک مکمل با اختیار ادارہ ہے۔ عدالتیں اس سے بھی زیادہ آزاد ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارے جج آزاد خیال ہیں تو ڈیل کس سے ہوئی ہے۔ شیخ صاحب ویسے تو ہیں ہی شیخ جو کبھی بیوقوف نہیں ہوتا۔ شیخ رشید نے ساری عمر سیاست کا کاروبار کیا ہے اس لئے سیاسی بیوقوف تو قطعاً نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کبھی نہیں بتائے گا کہ ڈیل کس کے ساتھ ہوئی ہے۔ کیا ڈیل ہوئی ہے۔ ڈیل ہوئی ہے یا ڈھیل ہوئی ہے۔ البتہ اس کے مطابق شریفوں کے رنگ پسٹن بیٹھ چکے ہیں اس لئے شریفوں کی گاڑی نہیں چلے گی۔ شیخ کو نہیں پتا کہ آج کے مستری ہرطرح کے گوڈے اور پسٹن مرمت بھی کر سکتے ہیں اور نئے بھی ڈال سکتے ہیں۔ بس صحیح ورکشاپ تک پہنچنا ضروری ہے۔

مریم نواز خاموش ہے۔ اس کی خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے یا عقل مندی اور مصلحت۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ایک بات طے ہے کہ میاں نواز شریف کی سیاسی جانشین مریم ہی ہے۔ اس کے دونوں چوری کھانے والے بھائی سیاست کی سختیاں برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ اس بات کا نواز شریف کو شاید پہلے سے ہی علم تھا۔ اس لئے شروع سے ہی باقاعدہ طور پر مریم کو سیاسی معاملات میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔ ابھی شریف خاندان زیر عتاب ہے۔ اقتدار کی امید ہوتے ہی حمزہ اور مریم کے درمیان رسہ کشی کا عمل شروع ہوگا۔ پچھلی دھائی میں زیادہ طاقت نواز کے پاس رہی ہے اور یوں بالواسطہ مریم۔ اگلے ماہ و سال اقتدار شہباز اور حمزہ کے ہاتھ آتا دکھائی دے رہا ہے لیکن زمام سیاست کا محور مریم ہی رہے گی۔

اقتدار کے باقی چھوٹے کھلاڑی انہی بڑوں کے گرد منڈلائیں گے اور حسب جسّہ حصہ وصول پائیں گے۔ جو اپنے حصے سے زیادہ مانگے گا شرمندگی کے سوا کچھ نہیں پائے گا۔ اس لئے ان کی نہ کبھی پہلے کسی کو فکر رہی ہے نہ اب رہے گی۔

اقتدار کے سب سے بڑے کھلاڑی نے الیکشن سے پہلے ہی اپنا کھیل کھیل لیا تھا۔ جس کے نتیجے میں بلوچستان کو حسب سابق قربانی کا بکرا بنا کر سینٹ میں ن لیگ کی کمر توڑ دی گئی تھی۔ انعام میں ان کی سندھ حکوت جھٹکا لگنے سے بچ گئی۔ آصف زرداری مگر بڑے انعام کی امید لئے بیٹھا تھا۔ اس کی امیدوں پر پانی پھینکتے ہوئے نیب ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس کیے بیٹھی ہے۔ اس کے احتجاج کا شاید ابھی اسے فائدہ نہ ہو لیکن مستقبل میں ضرور ہو گا۔ بلاول کا ٹرین مارچ شاید نواز شریف کے لئے نیک شگون ثابت ہوا ہے۔

پاکستان کے سیاسی جنگل کا حکمران جسے بنایا گیا ہے وہ اس جنگل کے قوانین سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔ اسی لئے سیاسی لومڑ اور بھیڑئیے اس کے گرد جمع کر دیے گئے ہیں۔ جنگل پر حکومت چلانے کے لئے حکمران کو انہی لومڑوں کے ذریعے عوام سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔ یہی بھیڑئیے پہلے بھی اقتدار کی راہداریوں پر پنجے گاڑے عوام کا خون چوستے رہے ہیں۔ خون ان کے منہ کو لگا ہوا ہے۔ جنگل کے شکاری لیکن جنگل پر پوری نظر جمائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا جنگل ہرا بھرا ہی رہے گا۔ اس پر پھل پھول اور شگوفے کھلتے رہیں گے۔ شکاری سمجھ دار ہیں اسی لئے شیروں کی نسل ختم نہیں کی بس کچھ دیر کو کمزور کردیا ہے۔ تاکہ جنگل کے باقی جانور وروں کی طاقت آزما لی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).