کپتان کی دھمکی اور شاہ محمود کے بارے میں خبریں


”ایسا نظام بن گیا ہے کہ سرکاری ادارے حکومت سے اپنی زمینیں چھپا رہے ہیں“۔ کپتان کا یہ بیان سن کر یہی لگتا ہے کہ بابو لوگوں نے اس حکومت کی فائلیں اب لمبی لمکا دینی ہیں۔ بیان میں تو کچھ نہیں ہے، بس سرکار اور بابو لوگوں میں اختلاف کا پتہ دیتا ہے۔ اسلام آباد میں یہ بیان ایسے بالکل نہیں لیا گیا۔ یہاں گپ یہ شروع ہو گئی کہ اس کا مخاطب بابو لوگ تھے ہی نہیں۔ یہ زمینوں والی بات ”ان کو“ سنائی گئی ہے۔ نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام میں کچھ دن پہلے ذکر کیا تھا، اک دھمکی کا جو کپتان نے دی ہے کہ اگر مجھے میری مرضی نہیں کرنے دینی۔ حکومت ویسے نہیں چلانے دینی جیسے میں چاہتا ہوں، تو پھر چلا لیں آپ خود ہی۔

کپتان کا دل اس وقت تھانیدار ہونا چاہ رہا کہ بس وہ کرپٹوں کو لمبا ڈال لے۔ ان کی چیخیں چیک کرے اربوں ڈالر نکلوائے۔ ان کی ناک سے لکیریں نکلوائے نواں پاکستان بنا ہوا دکھائے۔ یہ بھی بتائے کہ دیکھو ایسی ہوتی ہے جمہوریت۔ پر مرنا یہ ہے کہ اکانومی کی حالت پتلی ہے۔ ہر صورت قرضہ امداد چاہیے، جن کے پاس پیسے ہیں وہ پہلا مطالبہ ہی سیاسی استحکام لانے کا کر رہے۔

نواز شریف حکومت سے جا چکے، انہیں سزا ہو چکی۔ وہ تاحیات نا اہل ہیں۔ موجودہ قوانین کے تحت ان کی واپسی ممکن نہیں۔ اب کسی ادارے کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ انہیں ہیرو بنایا جائے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ ایسا کپتان کو قبول نہیں۔ کرپشن کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر اس نے اپنی ساری سیاست بنائی اٹھائی اور کامیاب کی ہے۔ پرانے سیاستدان اس کی نظر میں کرپٹ ہیں۔ وہ ان سے ہاتھ ملانا تو دور دیکھنے تک کو راضی نہیں۔

نواز شریف اور آصف زرداری تو چلیں پی ٹی آئی یا کپتان کے براہ راست حریف تھے۔ کپتان تو اپنے حمایتیوں کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اک کہانی سنائی جاتی ہے۔ چوہدری شجاعت خود چل کر کپتان سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ کپتان نے ان سے ملنے کی زحمت ہی نہ کی۔ انہیں نعیم الحق سے ملنے کا کہا گیا۔ چوہدری صاحب اک وضعدار سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ملاقات کر لی۔ مونس الہی کو وفاقی وزیر بنانے کا مطالبہ رکھا۔ جو نعیم الحق نے مسترد کر دیا۔ وجہ نیب کے کیسز وغیرہ بتائی۔

چوہدری شجاعت اک بہت مختلف سیاستدان ہیں۔ ان کی ڈیرہ داری مشہور ہے، ان کا مٹی پاؤ ڈائلاگ بھی سب نے سن رکھا۔ اک بات جو لوگوں کو نہیں معلوم وہ چوہدری صاحب کے لیے ہر طرف موجود احترام ہے۔ یہ احترام چوہدری صاحب نے بہت محنت سے کمایا ہے۔ انہوں نے تب آصف زرداری کے خلاف منشیات کا مقدمہ بنانے سے انکار کیا جب پی پی کے ساتھ ان ذاتی مخالفت عروج پر تھی۔ وہ اپنے قریبی ساتھیوں کو پارٹی چھوڑنے پر بھی ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ”دیکھو جہاں مرضی جاؤ تعلق رکھنا۔ سیاست کے لیے ذاتی تعلق خراب مت کرنا۔ اگر مزہ نہ آئے تو واپس آ جانا۔ جہاں بھی رہو گے ہمارے ہی رہو گے۔ ہم بھی تمھارے ہی ہیں۔ “

چوہدری صاحب کے ساتھ اس سلوک اس ملاقات کی خبر پھیلی تو کہیں پر بھی اس کا اچھا تاثر نہیں لیا گیا۔ کہتے ہیں کہ کپتان کو پیغام پہنچایا گیا کہ جیسے تمھیں لایا گیا ویسے ہی انہیں لایا گیا۔ ہمارے لیے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس دوران ہی کہیں ایکسٹینشن والے سوال کی کہانی بھی چلی اور رکی۔

یہ کہانیاں ٹھیک ہیں یا غلط۔ اسلام آباد کی بیٹھکوں میں افواہوں کی آندھی چل پڑی۔ اک وفاقی وزیر اپنی پارٹی میں اپنے دھڑے کے آئندہ عزائم کا ذکر چھپا نہیں رہے۔ کابینہ کے اجلاس میں اسد عمر کے ساتھ فواد چوہدری کی تلخی کی خبریں آئیں۔ فواد چوہدری نے تردید بھی کر دی کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ حکومت کی کوئی کارکردگی ہوتی تو ان کی قیادت میں میڈیا ٹیم بھی کوئی تاثر قائم کر پاتی۔

بتایا جا رہا کہ شاہ محمود قریشی کی کارکردگی اطمینان بخش ہے۔ وہ اسی اسمبلی سے اگلے وزیراعظم کے سنجیدہ امیدوار ہیں۔ بجٹ اجلاس میں جب حکومت بجٹ منظور نہیں کرا سکے گی تو ٹوٹ جائے گی۔ نئے وزیر اعظم شاہ محمود قریشی ہوں گے ۔ اس منصوبے کو شہباز شریف کی حمایت حاصل ہے۔ شہباز شریف کا اس منصوبے میں نام آنا ہی کافی ہے۔ مسلم لیگ نون پہ ان کی بے اختیاری کا یہ عالم ہے کہ وہ کوئی نوٹیفیکیشن تک جاری نہیں کر سکتے۔ فیصلہ نواز شریف کا ہی آخری ہونا ہے۔ اس فیصلے کا اندازہ جنہوں نے نہیں لگایا وہ بس یہ کہانیاں ہی سنا رہے ہیں۔ اس کے نتائج سے واقف نہیں ہیں۔

یہ ساری کہانیاں ہر پاکستانی سیاسی حکومت کے ساتھ لگی رہتی ہیں۔ افواہوں کی آندھی چلتی ہے رکتی ہے تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس حکومت کا سروائیول صرف اک سوال کے جواب میں ہے۔ کیا یہ اکانومی کے مسائل حل کر سکیں گے؟ اگر نہیں تو یہ ساری افواہیں جھوٹی بھی ہیں تو سچ ثابت ہو جائیں گی۔ اکانومی کا کوئی انڈیکٹر مثبت نہیں ہے۔ اسی اکانومی کے حالات اور وزیرخزانہ کی حالت زار دیکھتے ہوئے اہم ملکوں کے سفارتکاروں نے دو ہزار بیس میں الیکشن کے امکانات پر کھل کے سوالات کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اسد عمر جب آصف زرداری کو اپنے بیانات میں ٹارگٹ کریں گے۔ سفارتکاروں کو بس ایک ہی پیغام جائے گا کہ بندے سے اپنا کام نہیں ہو رہا۔ اپنے باس کا دھیان بٹا رہا۔ اسے راضی کر رہا وہ باتیں سنا رہا جن پہ وہ خوش ہوتا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi