دیپ جلتے رہے (چھٹا حصہ )


اس کرائے کے نئے فلیٹ میں منتقل ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا۔ شہر سے کافی دور ہم نے یہ فلیٹ بغیر سوچے سمجھے لے لیا تھا۔  ادھر تنہائی اور امی سے دوری نے احمد کے اعصابی تناؤ میں اضافہ کر دیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی ذہنی رو ایک بار پھر بہکنے لگی ہے۔ رشی آٹھ ماہ کا تھا، اور لیڈی ڈاکٹر ہمیں دوسرے بچے کی آمد کی اپنے تئیں خوش خبری سنا چکی تھی۔ ہم اس افتاد کے لیے نہ تو تیار تھے۔ نہ اس سے نکلنے کی تدبیر کا سامان کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی موقع تھا ۔

پاپا خیر پور سے کراچی اپنے علاج کے لیے آئے تھے۔ میرے لیے ایک ٹیپ ریکارڈر لائے تھے۔

انہیں معلوم تھا کہ مجھے گانے سننے کا کتنا شوق ہے۔ ہم سب بہنوں کی عادت تھی کہ کھانا کھاتے ہوئے فل والیوم میں ٹیپ ریکارڈ ضرور آن کرتے اور عالمگیر، محمد علی شہکی یا ناہید اختر کے شوخ گانے سنا کرتے۔ تب پاپا ہماری اس عادت سے چڑھ جاتے تھے۔ پر اب پتہ نہیں کیا سوچ کر ہمارے لیے ہمارا من پسند تحفہ لے کر آگئے، مگر موسیقی کے ساتھ، کھانے میں لطف کا عنصر شاید میکے ہی میں رہ گیا تھا۔ چھوٹے بچے کے ساتھ ماں چین سے کھانا کھا لے ایسا شاذ ہی ہوتا ہے۔ بچے کو بھوک، پیاس کسی قسم کی چوٹ اور پوٹی کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب ماں کھا نا کھا رہی ہو۔ گھر رکھے برتن، اخبار، کتابیں اور اب ٹیپ ریکارڈ رشی کے من پسند کھلونے تھے۔

چھوٹے سے فلیٹ میں تھوڑا سا ہی سامان تھا جو جلد ہی سمٹ گیا تھا، مگراحمد کی بکھری کیفیات کو سمیٹنا مشکل ہو رہا تھا۔ سسرال میں تو ہم رشی کو ساس کے پاس چھوڑ کر جا تے تھے۔ لیکن اب ٹیوشن پڑھانے جاتے تو رشی بھی ساتھ ہوتا۔ کچھ دنوں بعد صاف کہہ دیا گیا کہ رشی کی موجودگی میں بچے ٹھیک طرح نہیں پڑھ پا رہے ہیں۔ اور مشورہ بھی دیا کہ ان کے محلے سے دو سڑکیں کراس کر کے کریم آباد میں جو اپارٹمنٹ ہیں ان میں کئی خواتین نے بے بی ڈے کئیر گھر میں کھول رکھا ہے۔

سو روپے مہینہ پر ایک خاتون، تین گھنٹے کے لیے رشی کو رکھنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ اجنبی خاتون کے پاس رشی کو چھوڑ کر جا تے ہوئے دل ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا۔ پتہ نہیں وہ منا سا بچہ کیا سوچ رہا ہو گا۔ ماں اسے اس اجنبی گھر میں کیوں چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اس نے زور زور سے رونا شروع کر دیا اور ہم تیزی سے گھر سے باہر نکل گئے۔ اس کی آواز دور تک سنائی دیتی رہی۔

دو ٹیوشنز کیں اور تین گھنٹے بعد لمبی چوڑی سڑکوں کو تیزی سے کراس کرتے ہوئے کریم آباد کے اپارٹمنٹ میں پہنچے تو بھول گئے کہ کس فلیٹ میں رشی کو چھوڑا تھا۔ اوسان بری طرح خطا ہو گئے۔ عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ پھر خود کو سنبھالا اور لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ کس کس فلیٹ میں خواتین بچوں کو رکھتی ہیں۔ دس منٹ بعد ہی ہم مطلوبہ فلیٹ میں پہنچ گئے مگر دس منٹ کی اس افتاد نے دماغ کی ساری رگوں کو منجمد کر دیا تھا۔ رشی کے گال آنسوؤں سے تر تھے۔ خاتون کا شکریہ ادا کیا اور تیزی سے ان کے اندھیرے فلیٹ سے نکل آئے۔ گلی اور فلیٹ کی نشانیوں کو آنکھوں میں جذب کیا۔ اور سڑک پر بس کے انتظار میں آ کھڑے ہوئے۔

اتوار کو باجی کے گھر گئے تو سب کو کچھ بے چین پایا۔ صاف لگتا تھا ہم سے کو ئی بات چھپائی جا رہی ہے۔ کافی کریدنے پر معلوم ہوا پاپا کو کینسر ہے اور اب لاسٹ اسٹیج ہے۔ ڈاکٹر نے یہ، ان کی زندگی کا آخری ہفتہ بتایا ہے۔ بہت جھگڑا کیا کہ بتایا کیوں نہیں، توجیہ پیش کی گئی کہ کیونکہ ہم امید سے ہیں اس لیے یہ بات ہم سے چھپائی گئی۔ گھر پہنچے رشی کو سلایا۔ اور اپنے تکیے کو جی بھر بھگویا۔

صبح سویرے ہاسپٹل پہنچ گئے۔ پاپا ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہو ئے۔ رشی کو گود میں اٹھایا۔ اس سے باتیں کیں۔ اور کہا کہ جیسے ہی وہ ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوں گے سب سے پہلے میرے گھر آئیں گے۔ لگتا تھا انہیں ان کی بیماری کے متعلق علم نہیں ہے۔ چلیں انہیں تو علم نہیں تھا۔ لیکن ہماری امی کو بھی اپنے وظیفوں اور دعائیں پر کامل یقین تھا۔ کہنے لگیں میں نے اب جو وظیفہ شروع کیا ہے اس کی وجہ سے تمہارے پاپا کی حالت پہلے سے بہتر لگ رہی ہے۔ ہم نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور گھر آگئے اور پھر تکیے کو ساری کہانی سنائی وہ بھی ہماری آنکھوں کے ساتھ خوب بھیگا۔

انسان بڑا خود غرض ہو تا ہے۔ پاپا سے ہونے والی عنقریب جدائی کے دکھ نے مجھے احمد کی کیفیات سے بے خبر کر دیا تھا۔ صبح ان کو چائے دیتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ وہ حسنین بھائی کی کسی بات سے بے حد آزردہ ہیں۔ ہم نے ان سے جاننے کی کوشش کی تو کہنے لگے کہ بھا ئی صاحب نے سب کو یہ تاثر دے رکھا ہے کہ وہ میری اصلاح کرتے ہیں۔

ہم نے کہا تو کیا ہوا۔ کہنے لگے اول تو میں ان سے اصلاح نہیں لیتا اور دوسرے یہ کہ ذکر اصلاح کے پسِ پشت یہی تاثر ابھارنا مقصود ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہی لکھ کر دیتے ہیں۔ ہم نے کہا ایک دن تو سچ سامنے آ ہی جائے گا۔ کہنے لگے لیکن میرے مخالفین کو موقع مل گیا ہے وہ مجھ پر طنز کرتے ہیں، میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کی کمائی کھاتا ہوں۔ میں جب بھی کسی دوست کے پاس جاتا ہوں ان کا پہلا سوال یہ ہو تا ہے کہاں جاب کر رہے ہو۔ اور کل جب میں نے کہا کہ ڈھونڈ رہا ہوں تو حسنین بھائی نے ہنس کر طنز کیا کہ اسے بیٹھ کر کھانے کی عادت ہو چکی ہے۔ اور جب میں کل امی سے ملنے گیا تو کہلا بھیجا کہ امی رضویہ گئی ہیں اور جب میں رضویہ پہنچا تو وہاں نہیں تھیں۔

ہم نے ان سے کہا کہ ابھی آپ ہمارے ساتھ چلیے گا۔ انہیں آپ کا، اپنے گھر آنا ویسے بھی پسند نہیں۔

ایک دم غصہ ہو گئے میں امی سے ملنے بھی نہ جاؤں کیا۔ امی پر میرا بھی حق ہے۔

مجھے ان کی ذہنی کیفیت سے ڈر لگ رہا تھا۔ اسی لیے انہیں پاپا کی طبیعت کے بارے میں نہیں بتایا، میں نہیں چاہتی تھی کہ گھر والے ان کی کیفیت نوٹس کریں۔ حسنین بھا ئی کے گھر جاتے ہوئے راستے میں بھابھی کے بھائی ملے انہوں نے اپنی بچی کی سالگرہ میں آنے کی دعوت دی ہم نے وعدہ کر لیا۔

احمد امی سے ملے، اور کسی دوست سے ملنے کے بعد گھر آنے کا کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ ہم نے پی سی او سے ڈاکٹر ایاز کو فون کر کے ان کی ذہنی کیفیت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ انہیں مقرہ تاریخ سے پہلے بھی فوری ایک انجکشن لگوا دیا جائے۔ ہم نے انجکشن خرید کر بیگ میں رکھ لیا۔ اور پاپا سے ملنے ہاسپٹل چلے گئے۔ آج بھی امی کو پاپا کی حالت پہلے سے بہتر لگ رہی تھی اور پاپا ہمیں بھی پہلے کی نسبت زیادہ بشاش لگ رہے تھے۔ پاپا نے رشی کے گالوں کو ہاتھ لگایا اور ہمیں سرزنش کی کہ اتنے ننھے بچے کو ہاسپٹل میں لانا مناسب نہیں اور ہمیں روزانہ کے بجائے ہفتے میں ایک بار آنا چاہیے۔

میں انہیں کیا بتاتی کہ ہفتے میں ایک بار کا ذمہ تو موت نے لے لیا تھا۔ اور پھر گھر آکر میرے اسی مہربان تکیے نے آنکھوں کے ساتھ خوب دوستی نبھا ئی۔ رات کے کسی پہر آنکھ کھلی تو احمد کو جاگتے پایا سگریٹ کے ٹکڑوں سے چائے کا کپ بھر چکا تھا۔ اُف انجکشن بیگ میں رکھا رہ گیا تھا۔

دوسرے دن انجکشن کا نام لیا تو بھڑک اٹھے۔ کہنے لگے انجکشن سے کچھ نہیں ہو گا مجھے ہاسپٹل میں داخل کر دو۔

نہیں ڈاکٹر ایاز نے صرف انجکشن کے لیے کہا ہے۔ اگر وہ کہیں گے تو داخل ہو جا ئیے گا۔

اپنی چلاتی ہو، تمہیں معلوم ہے بھائی صاحب اسی لیے تم سے چڑھے ہوئے ہیں تم نے پہلے بھی مجھے داخل نہیں کیا تھا۔

مگر دیکھ لیں نا آپ، ضرورت کہاں پڑی۔ آپ پہلے سے کتنے اچھے ہیں۔

مگر بھا ئی صاحب اسی لیے خفا ہیں مجھ سے۔

لیکن ان پر کتنا خرچ بڑھ جا تا ہم کیوں کسی کا احسان لیں۔

سارا خرچ، میرے اور ان کے دوست اٹھاتے ہیں۔ ان کا کوئی خرچ نہیں ہو تا۔ بلکہ کچھ پیسے انہیں بچ ہی جاتے ہیں۔

کیا ؟ ہم بہت حیران ہوئے لیکن ان کے راتوں کی نیند پوری نہ ہو نے کے سبب اسے ہم نے ہذیان سمجھا۔

ہمارے سامنے والے فلیٹ میں ایک خاتون نرس تھیں صبح ہم نے ان سے درخواست کی۔ انجکشن دیکھتے ہی انہوں نے ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر انجکشن لگانے سے انکار کر دیا۔ دماغ یکسو نہیں تھا جانے ڈاکٹر کا نسخہ کہاں رکھا تھا۔ ایک ایک دن اہم تھا۔ نروس بریک ڈاؤن کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔

ہم نے انہیں، دھیان بٹا نے کے لیے کہا کہ بھابی کی بھتیجی کی سالگرہ میں چلیں گے، وہاں امی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔ خوش ہو گئے۔ لیکن ہم نے شرط رکھی کہ انچولی کے ڈاکٹر سے انجکشن لگوائیں گے۔ پھر چلیں گے۔ شکر ہے خدا کا خوشی خوشی مان گئے۔ گو کہ سارا دن کبھی رونا، کبھی ہنسنا اور کبھی خفا ہونا جاری رہا لیکن دن بیت گیا۔ شام کو انجکشن لگوانے کے بعد ہم انچولی کے ایک پارک میں سالگرہ میں پہنچے۔ احمد امی اور اپنے بھتیجوں سے مل کر بہت خوش ہوئے ہمیں بھی ان کے انجکشن لگنے کے سبب اطمینان تھا۔ بھابھی ہمیں کچھ پریشان لگیں۔ وہ ہم سے کچھ کہنا چا ہتی تھیں۔ ان کی کیفیت دیکھ کر ہم نے پوچھا تو کہنے لگیں حسنین تقریب میں آنے کو تیار نہیں۔ ہم نے وجہ پوچھی۔ تو اٹک اٹک کر کہا کہ انہیں غصہ ہے کہ تم لو گوں کا اس سالگرہ میں کیا کام۔ ہم حیران تھے کیوں کہ بھابی کے بھائی، احمد کے بھی گہرے دوست تھے۔

تھوڑی دیر بعد بھابھی کی والدہ ہمارے پاس آئیں اور کہنے لگیں تم لوگ چلے جاؤ۔ ہمیں اپنی بیٹی کا گھر بچانا ہے۔

ہم نے بھابھی کی طرف دیکھا، بھابھی نے نظریں چرا لیں۔ ہم نے احمد کو اشارہ کیا اور تقریب سے باہر نکلے۔ گیٹ پر حسنین بھائی نے مسکراتے ہو ئے فتح مند نظروں سے ہمیں دیکھا۔ اور اندر چلے گئے۔

ہمارے لیے اس تقریب کی شرکت کی یہ ہی برکت بہت تھی کہ احمد کو انجکشن لگ گیا تھا۔ خطرہ ٹل گیا تھا۔

گھر جا کر کافی دیر حسنین بھائی کے ہتک آمیز سلوک پر خفگی کا اظہار کرتے اور سگریٹیں پھونکتے رہے اور پھر تکیے پر سر رکھ کر گہری نیند سو گئے۔ رشی کو سلانے کے بعد خیال آیا کہ آج کے دن کا سورج تو بہت کچھ نگل گیا۔ ہماری ٹیوشن، رشی کے ہمارے انتظار میں آنسو، بھابی کے بھائی کی تقریب میں ہماری زلت اور پاپا کی زندگی کا ایک دن۔

اور پھر مہربان تکیے نے اپنی نمی میں سب کچھ جذب کر لیا۔

جنوں کو اذنِ بیانِ جنوں ملے تو سہی

سوال ہم بھی اٹھائیں گے حشر اٹھے تو سہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).