میری بیوی، میری ملکیت۔۔۔ آخر کب تک؟


ہت تیرے کی …

تیری کیا اوقات…

اے پاؤ ں کی جوتی!

مجازی خدا کے حکم سے سرکشی

اعضا کی شاعری سے انکار

گستاخ

تاخ، تڑاخ

لباس تار تار

گیسوئے آبدار، اب گیسوئے بریدہ یعنی تراش تراش

یہ ہے اس دھرتی کے سپوت بلکہ کپوت کا بیانیہ، جن کے نزدیک بیوی زرخرید غلام کے سوا کچھ نہیں۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں شوہر کو پہلی رات یہ درس دیا جاتا ہے کہ ’’گربہ کُشتن روزِ اول‘‘ اور یہ کہ ایک پتنی اپنے پتی دیو کی داسی بن کر ہی زندگی بِتا سکتی ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

یہ داستاں بھی عجب ہے کہ ایک شوہر اس بات کا خواہش مند ہے کہ محفلِ دوستاں میں اس کی زوجہ اعضا کی شاعری سے دوستوں کو لبھائے، جب بیوی لبوں پر حرفِ انکار لاتی ہے تو پائپوں سے مارا جاتا ہے، اُلٹا لٹکا کر، برہنہ کر کے، بال کاٹ کر رقص نہ کرنے کی سزا دی جاتی ہے

تُو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

تجھ کو انکار کی جرأت جو ہوئی کیوں کر

سایۂ ’’شوہر‘‘ میں اس طرح جیا جاتا ہے!

تیرے انجام سے ہر شخص کو عبرت ہو گی

سر اٹھانے کا ’’زوجہ‘‘ کو نہ آئے گا خیال

اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ تصور راسخ ہے کہ عورت خاص طور پر بیوی مرد کی ملکیت ہے وہ جیسا چاہے گا اُسے ویسا ہی کرنا ہو گا کیونکہ وہ اُس کا مالک و مختار ہے۔ شوہر کو نکاح نامہ کی صورت مختارِعام و مختارِ خاص کا پروانہ جو مل جاتا ہے۔ اب وہ اپنی ملکیت کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ حالانکہ شادی ایک ایسا بندھن ہے جو عورت کونہ صرف تحفظ بلکہ اسے آزاد اور خودمختار ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ عورت کی عزت اور تحفظ مرد کی ذمہ داری ہے مگر وہ حقِ ملیکت کی بنا پر اسے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا مردانگی سمجھتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک بیانیہ چلا کہ ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ اس بات کو معاشرے کے لبرل حلقوں میں تو سراہا گیا جبکہ غیر لبرل اور دیگر افراد نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ کہ ہماری مشرقی تہذیب اور معاشرہ کسی ایسی بات کی اجازت بھی نہیں دیتا جبکہ’’میری بیوی، میری ملکیت‘‘ کے بیانیے پر کوئی بات نہیں کرتا، ہر ایک خاموش ہے۔

تشدد کا نشانہ بننے والی اسماء عزیز چاہے کوئی بھی ہو حتیٰ کہ رقص کرنا اس کا پیشہ ہی کیوں نہ ہو اس کے شوہرکو کسی نے حق نہیں دیا کہ وہ انکار پر برہنہ کر کے مار پیٹ کرے اور بال کاٹے۔ اس کے علاوہ گزشتہ تین روز کی خبریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاہور ہی میں ہاجرہ نامی خاتون کو جہیز کم لانے پر شوہر اور جیٹھ نے بیلٹ سے مار مار کر نہ صرف لہولہان کر دیا بلکہ ناک کی ہڈی بھی توڑ دی۔ حافظ آباد میں شوہر نے اپنی بیوی نسرین کی زبان کاٹ دی جبکہ سندھ میں ایک شوہر نے عرصہ دراز سے بیوی کو زنجیروں سے باندھ رکھا ہے۔

اصل میں یہ وہ مائنڈ سیٹ کہ ’’میری بیوی، میری ملکیّت‘‘ ہے جسے معاشرے کے بیشتر شوہروں نے اپنایا ہوا ہے۔ جاہلانہ سوچ کے حامل شوہروں کی خام خیالی یہ ہے کہ ان کی شریکِ حیات ان کے اشاروں ابرو پر ایک کٹھ پتلی کی طرح پرفارم کرے۔ شوہر کا یہی تصورِ ملکیّت نہ صرف بیوی کو لونڈی، کنیز اور خادمہ بنا کر رکھتا ہے بلکہ اسے تشدد پر بھی اُکساتا ہے۔

ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات کا پروردہ ہے مگر اسلامی تعلیمات چھو کر بھی نہیں گزریں۔ اسلام میں عورت برابری کی حقدار ہے بیوی خادند کی عزت ہے جبکہ ان گنت گھروں میں بیوی کی جو آئے روز’’ عزت افزائی‘‘ ہو رہی ہوتی ہے ہر ایک اس سے بخوبی واقف ہے۔ چونکہ یہ دھرتی ہندوستان کا حصہ تھی اور ہندو معاشرے میں شوہرکی وفات پر اس کی پتنی کو ستی کر دیا جاتا تھا یعنی زندہ جلا دیا جاتا تھا گو آج کے دور میں ایسا نہیں ہے مگر اس کے اثرات کچھ یوں پائے جاتے ہیں کہ عورت کی اپنی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہے۔ اس لیے اس دھرتی کے مردوں کے خمیر میں یہ شامل ہے کہ عورت پیر کی جوتی ہے یعنی حقیر ہے۔

گزشتہ ایک عرصے سے گھریلو خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی جگہ کوئی نہ کوئی بیوی اپنے شوہر یا گھر والوں سے نہ صرف پٹ رہی ہے بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھو رہی ہے۔ ہمارے ہاں مار پیٹ کے واقعات تو بہت معمولی بات ہے جسے کوئی رپورٹ بھی نہیں کرتا کیونکہ گھر کی بات گھر میں رہنے کو کہا جاتا ہے۔

بد قسمتی سے آج ہمارے زوال پذیر معاشرے میں اسلامی تعلیمات، اخلاقیات، تہذیب اور تربیت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے اور اسی بنا پر ہم اخلاق، احترام اور بردباری سے دور ہوگئے ہیں اور قعرِ مذلت میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ اعلی تربیت کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ ہمارے بزرگوں اور تعلیم یافتہ ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کی پرورش اقدار اور تہذیب کے مطابق کریں۔ احترام، برابری اور بردباری کا سبق پڑھایا جائے اور سب سے بڑھ کر عورت کی عزت اور احترام کا درس دیا جائے تا کہ عورت کی توقیر اور وقعت میں اضافہ ہو سکے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری حکومت اور قانون کے ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں جس قانون سازی کی ضرورت ہے اس پر ابھی تک خالی خولی باتیں ہی ہوتی رہی ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔ کوئی بھی ادارہ ظالم کا ہاتھ نہیں روک رہا اور مظلوم کا ساتھ نہیں دے رہا۔ مجرم چونکہ اپنوں میں سے ہوتے ہیں لہذا باآسانی چھوٹ جاتے ہیں عدالتیں بھی بے بس ہیں۔ نئی قانون سازی کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں اور اس میں بہتری کے کوئی آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ ایسے میں اہلِ درد کا سوال اپنی جگہ ہے کہ عورت آخر کب تک ظلم کی چکی میں پستی رہے گی اور آخر کب تک ظلم سہتی رہے گی، آخر کب تک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).