عورت انسانی تہذیب کی معمار ہے


تاریخ کا مطالعہ اگر غور سے کیا جائے ہمیں معاشرہ اشتراکی طرز کا ملے گا۔ کھانا ہو دوسرے دکھ درد ہو سب برابر بانٹتے ہوئے ملے گے، اور ہمیں خوبصورت بات تو یہ ہے کہ مادری طرز کی معاشرت ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ عورت نے مرد سے زیادہ معاشرے کی ترقی کے لئے کام کیا ہے اس سے کم تو بالکل ہی نہیں۔ اگر زرعی انقلاب کو دیکھا جائے تو تاریخی شاہد ہے کہ یہ انقلاب عورت ہی نے برپا کیا تھا۔ پہلے بار انسان نے کاشت کرنا سیکھا۔ اشیائے خوراک کو بڑھایا اور اس انقلاب کے بعد عورت کی شان گر گئی اور وہ صرف بھیڑ بکریوں کیطرح ذاتی املاک بن کر رہ گئی، اور مرد کی مساوی نہیں رہی۔ تو اس سے مرد کے لئے آسان ہوا کہ وہ اپنی ذاتی مفادات کی خاطر عورت کو چاھے تو قربان کردے، بھینٹ چڑھا دے، یہ اس کی ضرورت ختم ہونے پر اس کا گلا گھونٹ دے،

ہمارے معاشرے میں اب بھی ایسا ہوتا ہے۔ اگر دو فریقین کے مابین دشمنی ہوجائے، چاھے وہ کسی بھی بات پر بنی ہو، جائیداد، راستہ، مال وغیرہ تو صلح زیادہ تر عورت کو ہی قربان کرکے کی جاتی ہے۔ چاھے اس میں عورت کی مرضی شامل نا ہو بھی مگر مرد، شوہر، باپ، بھائی کا حکم ماننا پڑتا تھا۔ اسی طرح شادی کا فیصلہ ہو یا کام کرنے کا سب مرد ہی فیصلہ کرتا ہے۔

اس نیک کام میں جب عورت کو قربان کر دیا جاتا ہے تو اس کو بھول جاتے ہیں اور فائدہ صرف مرد حضرات ہی لیتے ہے۔ صبح جلدی اٹھ کر ناشتہ تیار کیا، بھائی، شوہر، باپ کی بوٹ ٹائی کپڑے ریڈی  ک ردیئے سارا دن کاموں میں لگ گیا اوپر سے اگر بیماری آجائے تو کوئی بات نہیں گھر کو سنبھالنا تو ہوگا۔ مرد آ کر کہے گا جا روٹی گرم کردو، چائے لاؤ، میری جرابیں نکال دو، اگر وہ بیماری کا ذکر کرتی ہے تو مار پڑتی ہے

مگر دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو اس سفر میں عورت کے کردار کا اعتراف تک نہیں، عورت کو منفی کردار میں دیکھایا گیا ہے، بلکہ عورت کو انسان ہی تسلیم نہیں کیا گیا ۔ شاعری اٹھا کر ہی دیکھ لیں، کوئی مذہبی داستان دیکھ لیں، اس تاریخ میں ایک طرفہ مردانہ بیانیہ اپنایا گیا ہے۔ اس صدی میں خاص کر مغرب میں عورت نے اپنے کھوئے ہوئے مقام کے لئے جو مشکل اور کٹھن سفر کیا ہے وہ ایک دودھ  پلانے والی ماں جو اپنے پچے خود گود میں لے کر آفس، کارخانہ، یہ کوئی اور جگہ کام کرتی ہو، وہی سمجھ سکتی ہے۔ ایک عورت جو غیرت کے نام پر قتل کر دی گئی ہو اس کے ہمراہ عورت، ایک عورت جس پر جادوگرنی ہونے کا الزام ہو اور دیگر خواتین کے سامنے زندہ جلا دیا گیا ہو وہی، خیر یہ تو ظلم کی ایک اور داستان ہے لیکن یہاں ذکر کرنا اچھا ہے۔

کئی ہزار سالوں میں اس سوچ کے ساتھ کہ عورت مذہبی، اخلاقی، معاشری، اقتصادی اور پھر خاندانی کاموں میں مرد کی احسانوں تلے دبی رہی، نہیں اسے اب اپنی پہچان بنانا ہوگی، خود کو منوانا ہوگا کیونکہ لڑائی لڑ کر کچھ نا کچھ حاصل تو ہوا ہے۔

تاریخی کتابوں میں اگر عورت ابھرتی ہے تو وہ مرد کی تابع نظر آتی ہیں۔ اس لئے ایک سوچ مقبول تھی کہ عورت کچھ ہی نہیں اگر مرد نہ ہوتا تو تاریخ لکھنے کا سلسلہ بھی نا ہوتا۔ بڑے بڑے دانشور، سائنس دان، فلاسفرز، مذہبی پیشوا، سیاست دان، حکمران، وزارء اور مفکر زیادہ تر مرد ہی تھے، بھائی یہ ہماری سوچ بنی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے سوشل میڈا پر ایک سیکولر نامی پیج سے ٹایمز اف انڈیا بڑھنے کا اتفاق ہوا وہاں دیکھا اور جہالت کی انتہا دیکھنے کو ملی۔

ایک نیوز رپورٹ دیکھا کہ دوران مینسز پریڈ لڑکیوں کو سکول جانے نہیں دیا جاتا، ماہورای کے دوران لڑکیوں کو معاشرے میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ معاشرے تو ایسے ہے جہاں حیض ہونے پر عورت کو گھر کے کسے کونے میں رکھا جاتا ہے اور وہ گھر کی مرد بچوں عورتوں کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتی نا روز مرہ کی برتن اور دیگر اشیاء استعمال کرسکتی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ عورت نے کتنی جنگوں کو روکا، کتنی صلح کروائی، امن قائم کیا، لوگوں کو تحفظ دیا، آپس کی تلخیوں کو دور کیا مگر کون دیکھتا ہے۔ یہ سب اب بھی وہی سب کچھ جاری ہے۔ عورت قتل، ملزم کا پتا نہیں، عورت کے منہ پر تیزاب پھینکا گیا، لڑکی کو لڑکے کی گھر والوں نے مار دیا، عورت کی زبان کاٹ دی گئی، گولیوں سے چھید دی گئی، بہیمانہ حملے اور قتل پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کون سوچتا ہے کہ حضرت محمدؐ  پر جب پہلی وحی کا نزول ہوا تو ان کے شانہ بہ شانہ عورت ہی کھڑی تھی۔ ان کو جنم دینی والی عورت ہی تھی۔ اور وہ کتنی ترغیب دیتے تھے عورتوں سے حسن سلوک کی۔ حضرت عیسی علیہ سلام کے لئے حضرت مریم علیہ سلام نے کتنے دکھ درد اٹھائے تھے۔ حضرت موسی کو تو حضرت آسیہ بی بی نے ہی پالا تھا۔ لیکن پھر بھی عورت ظلم، ہر گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).