اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی


پچاس کے پیٹے میں ہوں، بالوں میں چاندی چمک رہی ہے، نجیب الطرفین سید ہوں، معزز پیشے سے تعلق رکھتی ہوں، ہزاروں مریض دیکھ چکی ہوں، ہزاروں ہی شاگرد ہیں کہ ڈاکٹری کے طلبا وطالبات کو پڑھاتی بھی ہوں۔ ادب سے محبت بچپن سے لیکن کوچہ قلم گری میں حال ہی میں قدم رکھا ہے۔

معاشرے کی اندھی حقیقتوں اور برہنہ سچائیاں ہمیشہ سے تکلیف دیتی تھیں۔ لوگ ایک ہی طرح پیدا ہوتے ہیں، ایک ہی قسم کے ماحول میں پرورش پاتے ہیں مگرکوئی فرعون کے گھر سے موسی بن کے نکلتا ہے اور کو ئی نبی کی اولاد ہو کے بھی باپ پہ یقین نہ رکھتے ہوئے کشتی میں سوار نہیں ہوتا۔ کچھ کا مقدر پاتال کیوں ہوتا ہے۔ ہابیل کون بنے گا اور قابیل سی ملامت کس کے حصے میں آئے گی، کون دار پہ چڑھے گا۔ زہر کا پیالہ کون پیے گا۔

ہمیشہ سے سوچتی تھی کہ جو جس جگہ بھی موجود ہے، وہ اس کا چناؤ نہیں۔ سب مسئلہ جبر وقدر کے شکار ہیں۔ جب مسلمان گھر میں پیدا ہونے کا فیصلہ ہی آپ کا نہیں تو اترانا کیسا۔ ہم میں سے کچھ پیدائشی جبر سے مسلمان ہیں۔ اور دوسرے پیدائشی جبر سے ہی عیسائی، ہندو، سکھ اور یہودی۔ پیدائشی مذہب پر رہنے والوں میں سے جب کسی نے بھی پڑھ اور سمجھ کر اپنا مذہب خود منتخب نہیں کیا تو خود کو افضل اور دوسرے کو حقیر سمجھنا، چہ معنی دارد؟ سب اللہ کے بنائے ہوئے انسان، سو پہلا معیار انسانیت ٹھہرا۔ اور انسانیت کے درجے سے جو گر جاتا ہے بھلے مذہب کچھ بھی ہو، جانور کہلاتا ہے۔

اور پھر جنہیں کھوجنا ہے کائنات کی روشن حقیقتوں کو، جنہیں جبر وقدر سے آگے جانا ہے وہ حق کے متلاشی نکلتے ہیں اس راہ کی تلاش میں، جس کا راستہ علم کی منزل سے ہو کے گزرتا ہے۔ علم کے راستے کے مسافر جوں جوں اس پہ چلتے ہیں، حقیقت عالم عیاں ہوتی چلی جاتی ہے اور دل و دماغ مالک حقیقی کی وحدانیت اور حکمت پہ سر جھکاتے چلے جاتے ہیں کہ اب یہ رستہ ان کا اپنا منتخب کردہ ہے جس پہ علم و تحقیق ان کو لے آیا ہے۔

دنیا کے تمام مذاہب کا ایک منشور تھا کہ تمام مخلوق کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے اور پھر پرکھا جائے کہ جبلی رویوں اور فطرت کا تنوع کیا نتیجہ برامد کرتا ہے۔ ورنہ جیسے کائنات اور ملائکہ ایک جنبش کی پیداوار ہیں، ایک مخصوص حکم اور عمل کے تابع ہیں ویسے ہی ایک ہی طرح کی بے شمار مخلوق اور ایک ہی فیڈ کیے ہوئے پروگرام کے ساتھ خلق کرنامالک کل کے لئے کیا مشکل تھا؟ درپردہ وہی مذاہب کا منشور حضرت انسان کا امتحان بھی ٹہرا۔ آپ کوئی بھی ہیں، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کا پہلا مقام آزمائش انسانیت ہے۔

اور امتحان کے لیے منتخب کردہ پل صراط دنیاوی زندگی کے ہر لمحے پہ محیط ہے۔ خلوت ہو یا جلوت، سفر ہو یا حضر، روزی کمانی ہو یا علم حاصل کرنا ہو، مسجد و منبر ہو یا عیش کدہ، کربلا ہو یا بازار شام، دیکھنا تو یہی ہے کہ ہر قسم کی ترغیب، ہر قسم کا جبر، ہر قسم کی آزمائش آپ کو کہاں کھڑا کرتی ہے، دار پہ نعرہ مستانہ لگانے والوں کے ساتھ یا اپنے آپ کو مقام انسانیت سے گرانے والوں کے ساتھ۔ بال برابر لغزش بھی، پل بھر میں راندہ درگاہ ٹہرا سکتی ہے۔

سچ بولنے کی عادت شروع سے تھی اور سچ بولنے کی خوبصورتی یہ نظر آتی تھی کہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں کہ کب، کیا کہا؟ محفل میں ہوں یا گھر میں، دفتر میں یا دوستوں کی ہما ہمی میں، مسجد میں ہوں یا مدرسے میں، فسانہ، فسانہ ہی رہے گا اور حق حق۔ یہ زندگی کے سارے سال یہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں پڑی کہ کس کو کیا بتایا اور کیسے بتایا۔ جو تھا، جیسے تھا، وہی کہا، وہی بتایا۔

دوسری بات جو ہمیشہ زندگی میں ساتھ رہی کہ جو اپنے لئے پسند، وہی دوسرے کے لئے۔ جو اپنا معیار، وہی دوسرے کا۔ اور یہ دوسرا ہر وہ شخص تھا جو ہماری راہ میں آیا۔ جو چیز اپنے بچے کے لئے نہیں پسند، وہ کسی کے بچے کے لئے نہیں پسند۔

ایک میڈیکل کانفرنس میں شرکت تھی، میرے ساتھ بچے اور ایک ہیلپر تھی۔ ہم مختلف سٹالز دیکھ رہے تھے۔ چونکہ میری دونوں بیٹیوں اور ہیلپر کے حلیے میں قطعی کوئی فرق نہ تھا۔ اور تینوں ہی مجھے باری باری لپٹتی تھیں سو ہر شخص نے اس دن ہمیں تین بیٹیوں کی ماں سمجھا اور ہمیں کسی کی تصحیح کروانے کی ضرورت نہ تھی۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ ہماری کم سن بیٹیاں منہ بنائے کھڑی تھیں اور ان کی ہیلپر خوشی سے بے حال۔

سچ بولنے کے نتائج سے بہت اچھی طرح آگاہ ہوں۔ سقراط نے جس شان سے موت کو گلے لگوایا وہ تاریخ میں امر ہو گئا۔ منصور انا الحق کا نعرہ لگا کے سولی چڑھ گیا اور امام حسین کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں، پورا گھر کٹ گیا، بیبیاں اور بچے رل گئے مگر باطل کی بیعت نہیں کی۔

سچ کی راہ سنگلاخ ہوتی ہے۔ اس راہ پہ پتھر بھی کھانے پڑتے ہیں اور پلکوں سے سوئیاں چننی پڑتی ہیں۔ زندگی کے اس سفر میں بہت تجربات تھے اپنے پاس، پروقت نے دکھایا کہ کم تھے۔ سنگ باری کے لئے تو ہم تیار رہتے ہی تھے کہ معلوم تھا ظرف کا پیمانہ کم ہی لوگوں کا وسیع ہوا کرتا ہے اور اختلاف رائے کی صورت میں لوگ اپنے اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

پر ابھی وقت کی جھولی میں ہمارے لئے الفاظ کے تیر تھے، برہنہ تیر، زہر میں بجھے ہوئے، جگر چیر دینے والے۔

پرانے وقتوں میں جب لوگ لکھتے تھے اور چھپتا تھا تو ایک بھلی بات تھی کہ پڑھنے والا کسی بھی قماش کا ہو اور کچھ بھی سوچے، کچھ بھی کرے، اپنے الفاظ سے آپ کو زخمی کرنے کا فوری رابطہ نہیں رکھتا تھا۔

بھلاہو دوڑتی بھاگتی اکیسویں صدی کی کرشمہ سازی کا کہ آپ گھر بیٹھے پتھر اور دوسروں کی ذات کا کوڑا وصول کر سکتے ہیں۔ اختلاف رائے کا ہونا انتہائی قدرتی ہے اور اس کا اظہار بھی، مگر اس جوش میں سنگ باری کر کے زخمی کرنا، نہ جانے کس عمل کا رد عمل ہے جو پتھر پھینکنے والوں کو اتنا زہریلا بنا دیتا ہے کہ پاس سے گزرنے والوں تک کی سانسیں تنگ ہو جاتیں ہیں مگر طاقت ور ہونے کا نشہ کچھ جاننے سمجھنے کی صلاحیت بھی چھین لیتا ہے، اور مرد ہونا طاقت بھی ہے اور نشہ بھی۔

تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ سنگباری اور عورت سے جینے کا حق چھین لیناکوئی نئی بات نہیں۔ سولہویں صدی عیسوی کا منظر ہے۔ معاشرے میں عورت کا مقام کسی جانور سے بھی بدتر۔ کسی سے بھی کوئی رنجش ہو تو مزا چکھانے اور چھٹکارا پانے کا آسان حل، جادوگرنی ہونے کا الزام لگائیں اور ایک ایسے ٹرائل پہ لے جائیں جہاں چت بھی اپنی اور پٹ بھی۔ بیشمار عورتوں کو جادوگر نی ہونے کے الزام میں ہا تھ پاؤں باندھ کے ڈبو دیا جاتا تھا کہ اگر الزام سچ ہے تو بچ جائے گی اور الزام غلط ہوا تو مر ہی جائے گی نا، تو یہ کون سی بڑی بات ہے۔ چشم تصور سے دیکھئے کس قدر مشکل تھا عورت ہونا۔

انارکلی اور شیخو کے درمیان جو کچھ بھی ہوا، نتیجے میں دیوار میں زندہ چنوایا جانا عورت کے حصے میں ہی آیا۔

ایک اور منظر دیکھتے ہیں، جون آف آرک کو نذر آتش کیا جا رہا ہے صرف انیس سال کی عمر میں، کہ مردوں کی دنیا میں طاقت کے ساتھ جینے کا حق عورت کو حاصل کیوں ہو۔

آج اکیسویں صدی میں بھی بات کوئی مختلف تو نہیں۔ عورت ہونا، ایسی رائے اور آدرش رکھنا جو بہت سوں کو پسند نہ ہو، اپنے خیالات کا ببانگ دہل اعلان کرنا قابل گردن زنی ہی تو ہے

اس سے آپ کو کیا فرق پڑ تا ہے اگر آپ مقام انسانیت سے تھوڑا سا گر جائیں، کیا ہوا کہ زبان سے زہریلے پھول جھڑیں، اور اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ اپنی مردانگی کا ثبوت دینا چاہیں بیشک عورت آپ کی ماں کی عمرہی کی ہو۔

ہمارا پچھلا کالم جو سندھ کی دو ہندو بچیوں کے لیے لکھا گیا تھا، پڑھ کر ایک پڑھے لکھے صاحب آپے سے باہر ہو گئے اور خوب بھاری گالیوں سے نوازا۔ ان کے خیال میں ہمارا رینا اور روینا کے حق میں بولنا ہماری جنسی ناآسودگی کا نتیجہ ہے اور ہم رینا اور روینا کی پرکشش جنسی زندگی سے حسد محسوس کرتے ہوئے ان کا راستہ کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ڈاکٹرز تو دوران تعلیم ہی کھل کھیلنے کی عادی ہو جاتی ہیں۔

اتنے برہنہ الفاظ جیسے تیر جگر کے آر پار اشک بار کر گئے۔ اندازہ ہوا کہ مرد حضرات کتنی آسانی سے جنسی ہراسانی کر سکتے ہیں۔ یہ سب برداشت کرنا بہت دل گردے کا کام تھا لیکن اس مشکل وقت میں حوصلہ بڑھانے والے بھی بہت تھے۔

ہم۔ سخت افسردہ بیٹھے تھے کہ ہماری صحافی بیٹی کا امریکہ سے فون آ گیا۔ ماجرا معلوم ہونے پہ خوب ہنسی، بولی

”اماں! اتنی جلدی گھبرا گئیں“

”نہیں تو“

”اماں! یہاں بھی خواتین قلمکاروں کو اس ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گالیاں، ریپ کی دھمکی اور حتی کہ قتل کی دھمکی۔ سچ کا علم اٹھانا آسان نہیں ہے ماں“

”تو یہ خواتین کیا کرتی ہیں“

”کچھ نہیں! ان کمنٹس کے سکرین شاٹس لے کے ایک دوسرے کو بھیجتی ہیں اور خوب ہنستی ہیں۔ جواب نہیں دیتیں کہ ہراساں کرنے والے کے مقام تک خود کو لانا پسند نہیں۔ بس اپنا کام جاری رکھتیں ہیں۔ جادوگرنیاں ہیں اماں جادوگرنیاں“ وہ کھلکھلائی۔
اور میں سوچ رہی تھی کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا، سقراط بھی موجود ہے اور زہر کا پیالہ دینے والے بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).