اللہ ماہی ۔ شاگردوں کی قطار میں میرا استاد


اس سال چھٹی آیا تو بیوی کو بتایا کہ کیا چاہتا ہے۔ دونوں نے جمع پونجی کا حساب کیا، نیک بخت نے اپنا زیور پیش کر دیا۔ اللہ ماہی نے نوکری سے استعفی دے دیا۔ سالہا سال کے وقفے کے بعد اس نے کتابیں کھولیں اور تیاری شروع کر دی۔ مختلف یونیورسٹیوں میں الیکٹریکل انجیئنرنگ میں داخلے کے لیے ایڈمیشن ٹیسٹ دینے شروع کردیے۔ اگلا مسئلہ یہ تھا کہ اس نے ایف ایس سی نہیں کی تھی۔ ڈپلومے پر داخلے چند یونیورسٹیاں دیتی تھیں۔ ڈپلومہ بھی کئی سال پہلے کیا تھا۔ جب داخلے کا میرٹ بنتا تو جو وقت اس کا پڑھائی سے دور گزرا تھا، اُسکے ہر سال کے پانچ نمبر منفی کیے جاتے اور وہ میرٹ لسٹ پر کہیں نیچے چلا جاتا تھا۔

ملتان، بہاولپور کہیں داخلہ نہ ملا۔ خدا خدا کرکے پنڈی کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ ملا۔ اللہ ماہی نے بیوی بچوں کا اپنے سسرال کے گاؤں چھوڑا۔ وہ انہیں اپنے گاؤں نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اس کے نوکری سے استعفی نے اسے اپنے خاندان میں برا بنادیا تھا۔ اس کا باپ اُسے برملا برا بھلا کہتا تھا، منڈا حرام دا نکل آیا ہے۔ کون ایسا بیوقوف ہے کہ دبئی کی لگی لگائی نوکری کو لات مار کر واپس آجائے۔ کیا پاگلوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟

اللہ ماہی اب پنڈی میں رہتا، اپنے کپڑے دھوتا، اپنا کھانا پکاتا، اپنے سے آدھی عمر کے طالبعلموں کے ساتھ کلاسیں پڑھتا۔ وہ لوگوں کے تمسخر، ہنسی اور اپنی پڑھائی کی سختی سب اٹھائے ایک خواب کے پیچھے چل رہا تھا۔ انگریزی سمجھ میں نہ آتی تھی، پڑھائی کی بنیاد بھی کمزور تھی مگر خواب کی بنیاد طاقتور تھی۔ ہنستے ہوئے مجھے بتانے لگا کہ یونیورسٹی کے طالبعلموں کے ایک گروپ کے ساتھ ایک اور یونیورسٹی میں ایک الیکٹریکل انجینئرنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے گیا تو منتظمین نے اُسے روک کر کہا کہ والدین کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں، ماں باپ کی نشستیں دوسری جانب ہیں۔

جب میں اسے پڑھانے آیا تو یونیورسٹی میں تین سال لگا چکا تھا۔ ایک دو مضامین میں فیل ہوا تھا جو پاس کرنے تھے، مگر مجموعی طور پر ایک اوسط درجے کے رزلٹ کے ساتھ کافی مضامین پاس کرلیے تھے۔ پیسہ کم تھا، چھ ماہ بعد اپنے بیوی بچوں کے پاس جاتا۔ جمع پونجی لگا بیٹھا تھا مگر اب منزل سامنے نظر آرہی تھی۔ ایک اور سال اور اس کے بعد اللہ ماہی الیکٹریشن اللہ ماہی انجینیئر ہوگا۔ اور پھر وہ دبئی جائے گا، ایک خواب کی تعبیر بن کر۔

میں اس شخص کو غور سے دیکھنے لگا۔ وہ عام سا آدمی جسے میں یونیورسٹی کا کلرک سمجھ رہا تھا، کوئی عام آدمی نہ تھا، وہ بہت بڑا آدمی تھا۔ اپنی قسمت آپ بنانے والا، زندگی کو آگے بڑھ کر سینگوں سے پکڑ کر اپنے پسند کی راہ پر موڑنے والا۔ ایک خواب کی تعبیر میں سب کچھ جھونک دینے والا۔ اور اس کے پیچھے ایک دیہاتی عورت کھڑی تھی، جسے میں نے نہیں دیکھا مگر وہ بھی کیا عورت ہو گی، اپنے میاں کے ساتھ زندگی کی پنجوں میں پنجے ڈال کر جیتنے والی۔ وہ دونوں کٹھن سفر کے مسافر تھے، ایک فخر کی منزل کے راہی۔ میں اس سفر کی مشکل نہیں جان سکتا بس ایک ہلکا سا گمان شاید رکھتا ہوں۔

اللہ ماہی میرا بھی ماہی ہے۔ میں خوش قسمت تھا کہ شاگردوں کی قطار سے مجھے ایک استاد مل گیا۔ زندگی جب مجھے گرانے لگتی ہے تو منڈی یزمان کا وہ خاموش سادہ دیہاتی میری مدد کو آتا ہے۔ وہ جس میں حوصلہ تھا زندگی کی ڈگر بدلنے کا، اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر، تمام مشکلات، تمام مزاحمتوں کے باوجود زندگی بدلنے والا۔ وہ میرا استاد ہے، طالبعلموں کی درمیانی قطار میں بیٹھا میرا زندگی کا استاد، مجھ گرے ہوئے کو پھر سے اٹھنے میں مدد دیتا میرا طالبعلم استاد۔ اللہ ماہی میرا بھی ماہی ہے۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor