سوچ کے خلاف جنگ، صنف کے نہیں


آج ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں پرانے رسم ورواج کو آؤٹ ڈیٹٹ، آؤٹ آف فیشن کہا جارہا ہے کئی باتوں پر کہا جاتا ہے کہ یہ پرانے لوگوں کی باتیں ہیں آج نیا دور ہے نئی ایجادات جنم لے رہی ہیں، سائنس نئے کارنامے کر رہی ہے اور آپ اسی پرانے دور میں جی رہے ہیں۔

مگر پھر بھی صنف نازک کو آج بھی مسائل کا سامنا ہے۔ آ ج بھی صنف نازک کے حقوق کی جنگ اور ان کی معاشرتی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ایک طرف لڑکیوں کا عالمی دن اور دوسری طرف خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ان دنوں پر دنیا بھر میں مختلف سمیناروں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی خواتین گلا پھاڑ پھاڑ کر خواتین پر مسلسل ہونی والے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتی ہے قراردادیں پیش کرتی ہیں انھیں حکومت سے شرف قبولیت بخشوانے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

سمیناروں کی تقریروں میں کہا جاتا ہے مرد عورتوں پر ظلم کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، شادی سے انکار پر تیزاب گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ریپ کے واقعات ڈر کے مارے رپورٹ نہیں کیے جاتے، عورتیں مجبوری میں کمانے نکلے تب بھی اور اپنے خواب پورے کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلے تب بھی ان کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، ان پر زبردستی کی شادی مسلط کردی جاتی ہے اور یہ لسٹ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔

مردوں پر لگائے ان تمام الزامات کو تقویت بخشنے کے لیے تحریک (feminism) شروع ہوتی ہے اگرفیمن ازم کی تعریف بیان کی جائے تو وہ کچھ یوں ہے کہ خواتین کو مردوں کے مقابلے کے حقوق دلوانا اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف جنگ لڑنا۔ ایسے دیکھا جائے تو فیمن ازم جیسی تحریک ایک مثبت سوچ کو پروان چڑھاتی ہے۔

مگر آج کے دور میں اس کو غلط رنگ میں رنگا جارہا ہے یوں محسوس ہوتا ہے آج جو تحریکیں لبرل خواتین فیمن ازم کی آڑمیں چلا رہی ہیں وہ اس میں خواتین کے جائز حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف جنگ لڑنے کے بجائے مردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں وہ مردوں کے بغیر رہنے کی سوچ کو ترویج دے رہی ہیں اور مرد کو برا کہہ رہی ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے مرد کیسے برا ہوسکتا ہے؟ ہم اسی معاشرہ میں رہتے ہیں جہاں باپ، بھائی، شوہر، بیٹا گھنی چھاؤں بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں مردوں کے خلاف آواز کب اٹھانی ہیں؟ ہمیں تو مرد کی اس سوچ کے خلاف آواز اٹھانی ہے جو یہ سوچتی ہے کہ اگر عورت پڑھ لکھ گئی تو باغی ہوجائے گی، اگر کمانے لگی تو ہمیں کمتر سمجھے گی، اگر اسے طلاق کا حق دیا توبغیر وجہ کے گھر برباد کردیگی۔

آج ہمیں ان خواتین کے خلاف آواز اٹھانی ہے جو مردوں کے بغیر والے معاشرہ کو فروغت دینا چاہتی ہیں کیونکہ آج اگر ہم عورتیں کامیاب ہوتی ہیں تو اس میں ہمارے باپ، بھائی، شوہر، بیٹا کا بھی ہاتھ ہوتا ہے ہمیں اچھا لگتا ہے اپنے شوہر اور گھر والوں کے ساتھ زندگی گزارنا ہاں! مگر اگر کوئی عورت کہتی ہیں کہ میرا شوہر مجھے مارتا ہے مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا یہ اس کا حق ہے اسے دیا جانا چاہیے، اگر وہ شادی سے انکار کرتی ہیں اور تم اسے جلاتے ہو تو تمھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑانا اس کا حق ہے اسے دیا جائے۔

ہمیں آج فیمن ازم کی تعریف کو فروغ دینا ہے ناکہ ایک ایسی خواتین کے طبقہ کو جو آج فیمن ازم کی تعریف سے نابلند ہوکر اینٹی مین کی تحریک چلا کر پوری دنیا میں پاکستانی خواتین کا وہ چہرہ پیش کررہی ہیں جو یہاں موجود ہی نہیں اور جو اگلی کئی صدیوں تک نہ پیدا ہونے والا ہے اور نا ہم پیدا ہونے دیں گے کیونکہ ہم مردوں کے نہیں مردوں کی منفی سوچ کے خلاف ہیں اور جنگ ہمیشہ سوچ سے کی جاتی ہے صنف سے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).