در مدح نصیر احمد ناصر


یکم اپریل کو جنم لینے والوں کی مسکراہٹ کے کیا کہنے، دنیا کو الو بنا کر خوب مسکراتے ہیں۔ ہمارے ممدوح بھی خود پر لکھی گئی نظمیں پڑھ پڑھ کے مسکراتے اور مسکرا مسکرا کر فیس بک وال پر شئیر کرتے پائے جاتے ہیں! دنیا کی ہر زبان میں لکھنے والی ناری نے ان پر ایک نہ ایک نظم ضرور لکھ رکھی ہے۔ مگر بھرم رکھ لیا اردو زبان کا، ہماری قراہ العین شعیب نے کہ ان کی نظم ”سفید بالوں والا بدھا“ سب سے دلکش ہے۔ ہم ہوتے تو ”د“ کی بجائے ”ڈال“ لکھ کر حقیقت حال بیان کر دیتے! پر یہ امر مانع ہوا کہ یہ حضرت کہیں ”بوڑھوں کا گیت“ سنانے نہ بیٹھ جائیں!

لگے ہاتھوں بتاتے چلیں کنجوسی تو ان پر ختم ہے جب لاہور آتے ہیں ہمارے ہی پلے سے دعوت کھاتے ہیں اوراپنا پلہ جھاڑ کر دکھاتے ہیں کہ خالی ہے! مجال ہے جو اپنے پیسوں کو کبھی ہوا لگوائیں۔ ”زرد پتوں کی شال“ اڑ جانے کا خدشہ ہے شاید۔ حضرت ہائیکو کا مجموعہ ہے کائے کو (کیوں ) اڑے گا! حد تو یہ ہے ”ملبے سے ملی چیزیں“ سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں تو دعوتوں کا گلہ کیا کریں!

چین تو انھیں ایک پل نہیں کبھی کہیں نکل جاتے تو کبھی کہیں۔ فرماتے ہیں اسفار ضروری ہیں۔ ایک دن اسی شوق میں پاوں کی ہڈی تڑوا بیٹھے مگر جڑتے ہی پھر رواں ہیں، تپاں ہیں۔ یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے۔ حد تو یہ ہے نہ خود چین لیتے ہیں نہ کسی کو لینے دیتے ہیں۔ ایک بار ایک عرابچی سے ملے۔ بے چارہ ان کی نظموں سے تھک کر دم بھر سانس لینے کو جو رکا تو آنکھ لگ گئی۔ انھوں نے واویلہ مچا دیا۔ ”عرابچی سو گیا ہے“، ”عرابچی سو گیا ہے“۔ ارے اعلی حضرت! اس نظموں کے شوروغوغے میں عرابچی کیا خاک سویا ہو گا۔ دیکھیے تو بیچارا عرابچی ہق دق بیٹھا ہے کس کے ہتھے چڑھا ہوں۔ ایسی نظمیں لکھی ہیں کہ پڑھنے والوں کو چین نہیں، عرابچی بے چارا کس کھیت کی مولی ہے!

بھلکڑ اور بے پروا ایسے ہیں کہ خواب تک پانی میں گم کر بیٹھے ہیں۔ اب پکارے چلے جاتے ہیں۔ ”پانی میں گم خواب“۔ ہم نے کہا حضرت جانے دیجیے اب جو ہوا سو ہوا۔ اٹھے۔ آگے چل پڑے۔ قدم دو قدم ہی چلے تھے تیسرے قدم پر وہ جا پڑے اور لگے پکارنے یہ ہے۔ ”تیسرے قدم کا خمیازہ“۔ اجی حضرت ہم تو بہت تنگ ہیں ان کے اس وتیرے سے اب دیکھیے آگے کیا گل کھلاتے ہیں!

گل کھلانے سے یاد آیا۔ اپنے باغ اور ٹیرس پر کھلے پھولوں کی تصویریں فیس بک وال پر اکثر پوسٹ کرتے ہیں اور عجیب عجیب نام بتاتے ہیں پٹونیا۔ چٹونیا۔ حالانکہ خود بلا کے چٹورے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے کوئی ایک سوایک ہوٹلوں میں کھاتے پیتے ہوئے ان کی ان گنت تصویروں کی تو پوری فیس بک چشم دید گواہ ہے اور شاعروں اور ادیبوں کے جمگھٹے میں ان کی سیلفیوں کی تعداد اس پر مستزاد! سیلفیوں میں زیر مونچھ مسکراتے ہوئے سوچتے ہیں کہ ”میں جواں۔ میں حسیں۔ “ حالانکہ اپنے دراز قد کے سبب دیودار درخت سے کم نہیں لگتے اور ساتھ کھڑے لوگ یوں سہمے سمٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے ابھی ان کے منہ سے نکلا کہ نکلا۔ ”آدم بو۔ آدم بو“

ان کے گرد جو انوار فطرت اور فرخ یار ہروقت دکھائی دیتے ہیں نا مجھے یقین واثق ہے کہ اتنی اچھی نظمیں یہ انھی سے لکھواتے ہیں ورنہ ایسے ہی تو لوگ ان کے گن نہیں گاتے! انھیں تو نظم کی الف۔ بے بھی نہیں آتی ورنہ یوں نظم لکھنے کے لیے مطالعہ بڑھاتے پھرتے۔ اس طرح فلسفہ اور سائینس بگھارتے نظم میں؟ اجی حضرت! بتائیے انھیں سیدھے سیدھے نظم لکھیں۔ ن۔ ظ۔ م! جیسا کہ ہمارا شیوہ ہے!

حضرت نے ایک دقیق سے نام والا رسالہ بھی نکال رکھا ہے ”تسطیر“ بر وزن شمشیر۔ زنجیر۔ ہم شیر۔ دل گیر وغیرہم۔ سمجھتے ہیں اس میں یہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہم سب نئے لکھنے والوں نے ان کی حوصلہ افزائی بلکہ عزت افزائی کی ہے تو یہ رسالہ چل نکلا ہے ورنہ ایسے عجیب و غریب نام کے رسالے بھی کوئی پڑھتا ہے؟ ”جواب عرض“، ”آداب عرض“ پڑھ کے بھی انھیں سلیقہ نہ آیا رسالے کا نام رکھنے کا!

اوروہ تو بھلا ہو امر شاہد اور گگن شاہد کا جن کے دم قدم سے برے بھلے یہ رسالہ چلتا چلا آ رہا ہے اور آپس کی بات بتائیں؟ کان ادھر لائیں۔ یہ رسالہ دراصل اب تک ہماری نظموں کی اشاعت کے سبب چل رہا تھا۔ تو اے ” ہم سب“ والو! اگر کہیں نصیر احمد ناصر نظر آئیں تو انھیں میری طرف سے سالگرہ کی مبارک دینا کہ آج اپریل فول ہے اور کہنا اب کی بار ”تسطیر“ میں کیڑے پڑیں گے کیوں کہ اس میں میری نظمیں جو شامل نہیں اور ہاں ان سے کہنا مجھے رسالہ بھجوانا بھی نا بھولیں کہ اس بار بھیا میں تو اسے خریدنے والی نہیں اپنی نظموں کے بغیر! نہیں بھیجتے تو اپنی سالگرہ کا کیک سمجھ کر ہی بھیج دیں کی حق بہ حق دار رسید!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).