منچھر کا نوحہ: جھیل سے جوہڑ تک


جب تک میں منچھر کے کنارے نہیں پہنچ گیا، اس وقت تک اس پانی کے ذخیرے کو ایشیا کی سب سے بڑی جھیل ہی سمجھتا رہا مگر وہاں \"usmanجاکر علم ہوا کہ منچھر تو ایک رومانوی داستان کا نام ہے، یہ تو وہ عشق ہے جو روٹھ گیا مچھیرے اور کسان جب منچھر کا تذکرہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ گویا اپنی کسی بچھڑی محبوبہ کا ذکر کررہے ہوں مجھ سے ملاحوں نے کہا کہ یہاں کا پانی میٹھا تھا، دورملکوں کے پرندے یہاں ہزاروں کی تعداد میں آتے،یورپ اور امریکا سے لوگ یہاں جھیل پر آباد کشتیوں کے انوکھے گاؤں پر ریسرچ کرتے، مچھیرے کہنے لگے کہ یہاں 36اقسام کی مچھلیاں تھیں، سب خوش حال تھے، ذرا سا جال پھینکتے اور ایسی مچھلی لگتی کہ گویا وہ انتظار کررہی ہو کہ کب مچھیرے آئیں اور وہ شکار ہو جائیں کسانوں نے بتایا کہ اس جھیل کی کنالوں سے پانی نکلتا اور دولاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کرتا، اس پانی کی تاثیرتھی یا قدرت کا کرشمہ کے فصلیں لہلا اٹھتیں، جھیل کے چاروں اطراف سبزہ تھا، یہاں پھلوں سے لدے باغات تھے، یہاں کپاس اور گندم کی فراوانی تھی داتا کی نگری کی یہ جھیل سرتاپاعشق تھی مگر پھر آناًفاناً سب ختم ہوگیا یہ 1982کی بات ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین کا منصوبہ شروع کیا گیا، یہ دراصل پنجاب اور بلوچستان کے گندے پانی کی نکاسی کا منصوبہ تھا، یہ گندہ پانی سمندر میں گرایا جانا تھامگر نجانے کیوں اسے منچھر میں گرا دیا گیا

ابتدائی دنوں میں تو منچھر کے باسیوں کو علم ہی نہ ہوا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے مگر پھر رفتہ رفتہ جھیل کا شہد سا میٹھا پانی کڑوا ہونے لگا، مچھلیاں مرنے لگیں، کیرتھر کے کے پہاڑوں سے بہہ کر جھیل میں اترنے والا پانی اتنا شفاف تھا کہ ملاح اس میں اپنا عکس دیکھا کرتے تھےاور آر بی او ڈی کے بعد یہ جھیل سیاہ ہونے لگی یہ صرف مچھیروں ، ملاحوں اور کسانوں کےروزگار کا مسئلہ نہ تھا، یہ جھیل تو ان کا سب سے بڑا غرورتھی اور جب یہ ان کی آنکھوں کے سامنے مرنے لگی تو ان کی آنکھیں جھیل ہوگئیں، یہ رونے لگے، یہ چلائے مگر\"Alexander_Dow\" غریب کی سنتا کون ہے ، یہ آج تک رورہے ہیں، یہ آج تک چلارہے ہیں مگر پاکستان کے بڑے شہروں میں کچرے کے ڈھیر اتنے ہیں کہ داتا کی نگری کے چھوٹے سے شہر کی معمولی سی جھیل کے چکر میں کون پڑے جھیل نے آخری سانسیں کب لیں، مچھیروں کو علم ہی نہ ہوا، وہ تو بس ایک جوہڑ کنارے جھیل کے زندہ ہونے کے معجزے کے انتظار میں بت بنے بیٹھے ہیں جھیل کی بحالی کے لیے مضحکہ خیز اقدامات کیے گئے، یہاں کی مچھلیاں ذائقے میں شان دار تھیں، جو کھاتا، بس کھاتا رہ جاتا، جب مقامی مچھلیاں مرنے لگیں تو انتظامیہ نے سمندری پاپلیٹ کو جھیل میں چھوڑدیا، یہ پاپلیٹ مچھلی جھیل میں بچی کچھی مقامی مچھلیوں کو بھی کھا گئی اور اب جھیل گندے پانی کا ایک جوہڑ بن چکی ہے جس سے مچھیرے پاپلیٹ کو نکالتے ہیں اور یہ مرغیوں کی فیڈ کے طور پر استعمال ہوتی ہے.

1950میں منچھر سے تین ہزارٹن مچھلی پکڑی جاتی تھی، 2003میں یہ تعداد 100ٹن بھی نہ رہی ،یہاں سائبریا سے ہزاروں کی تعداد میں پرندے آیا کرتے تھے، اب کوئی بھولا بھٹکا آجائے تو مچھیرے حیرت سے تکا کرتے ہیں جوہڑ بننے کے بعد جھیل نے اطراف کی دولاکھ ایکڑزرعی زمینوں کوبھی بنجر کردیا، آس پاس جہاں کبھی ہریالی اگا کرتی تھی، اس زمین پر اب گھاس بھی نہیں اگتی، چالیس ہزار گھرانے ہجرت کرگئےتاہم جھیل کے کچھ عشق زادے آج بھی اس کی بحالی کے منتظر ہیں بوبک کے قریب چائے کے ہوٹل پر کچھ ترقی پسند دوستوں سے میں نے پوچھا کہ جھیل میں گندہ پانی کیوں چھوڑا گیا، یہ کیسی غفلت ہے کہ ایک خوب صورت جھیل کو جوہڑ بنا دیا جائے، یہ کیسی قوم \"aacchhkk\"ہے جو اپنی جھیلوں کو تباہ کردیتی ہے بائیں بازو کا ایک جوشیلا ملاح کہنے لگا کہ یہ سب تحریک بحالی جمہوریت کے دوران اہلیان سندھ کی قربانیوں پر لیا جانے والا انتقام ہے دوسرے نے لقمہ دیا کہ اس انتقام کی کہانی منچھر کے قتل پر ختم نہیں ہوئی بلکہ 1992 میں ڈاکوؤں کے خاتمے کے نام پر سندھ کے دس لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات کورفتہ رفتہ کاٹ دیا گیا، دریائے سندھ کے اطراف کچے کا علاقہ جنگلات کے خاتمے کے بعد ہی وجود میں آیا جوش سے بھرے ملاح نے مکا لہراتے ہوئےکہا کہ صوفیوں کی دھرتی میں بھلا ڈاکوؤں کا کیا کام ہے، ڈاکو بہانہ تھے، نشانہ اہلیان سندھ کی خوش حالی تھی تاکہ وہ دوبارہ کسی ایسی تحریک کا حصہ نہ بنیں منچھر کے باسی ایسی زمین کے مکین ہیں، جو معدنیات اگلتی ہے، بھٹ گیس فیلڈ بھی اس دھرتی کا ایک خزانہ ہے مگر یہاں کے مکینوں کے مطابق گیس فیلڈ کی سالانہ دوارب روپے کی رائلٹی اس علاقے کو نہیں ملتی، اگر یہی حق مل جائے تو شاید انہیں فاقے نہ کرنا پڑیں خیر، جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔

جھیل کی پراسرار تباہی اپنی جگہ تاہم اس کی بحالی کے لیے بظاہر نمائشی سہی مگر منصوبوں پر ضرور عمل درآمد ہو رہا ہے، انہی میں ایک آربی اوڈی کے منصوبے کو وسعت دیتے ہوئے جھیل کے بجائے سمندر میں گندے پانی کی نکاسی کرنا بھی شامل ہے  2001 میں آر بی او ڈی کو وسعت دینے کے لیے 14ارب روپے کی لاگت سے منصوبہ شروع کیا گیا،جو چارسال میں مکمل ہونا تھا، چار سال گزرگئے، یہ منصوبہ مکمل نہ ہوا تو 2006میں اسے ایک نئی منصوبہ بندی کے تحت فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے حوالے کردیا گیا، اس منصوبے کو2008 میں سات سالہ منصوبہ کر دیا گیااور گزشتہ برس یہ ڈیڈ لائن بھی گزرگئی، منصوبہ ابھی تک مکمل نہ ہوسکا آربی اوڈی کو وسعت\"AFCHIN\" دینے کے نئے منصوبے کو جو دراصل منچھر کی بحالی کا بھی منصوبہ ہے، ناقدین مزید تباہی کا منصوبہ قراردیتے ہیں، ماہرین کے مطابق آربی اوڈی ٹو کے ذریعے زہریلا پانی سمندر میں گرایا جانا ہے اور جس راستے سے یہ پانی گرایا جاناہے، وہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ واقع ہے، اس طرز کی کنالوں میں شگاف پڑنا معمول کی بات ہے، جس سے دریائے سندھ اور آس پاس کی قیمتی اراضی بھی تباہ ہوجائے گی آربی اوڈی کسی انتقام کا نام ہے یا یہ واقعی کوئی ترقیاتی منصوبہ ہے، سندھ کے باشندے ابھی تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں۔ قلندر کی دھرتی کی اس بدترین صورت حال میں اگر کوئی یہاں کے مکینوں کا والی وارث ہے تو وہ خود قلندر ہیں، جن کی درگاہ پر آنے والے زائرین کی وجہ سے مکینوں کی تھوڑی بہت آمدنی ہوجاتی ہے، اپنی دھرتی کے مکینوں کو قلندر پال رہے ہیں ورنہ بظاہر انتظامیہ نے تو گھروں کے چولہے بجھادینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی

سیہون سندھ کا وہ علاقہ ہے جہاں سیاح یا زائرین کی وجہ سے ہزاروں دکانیں چل رہی ہیں، سینکڑوں گیسٹ ہاؤس موجود ہیں اور ٹرانسپورٹ کا کاروبار بھی کافی چلتا ہےتاہم صفر اور رمضان کے مہینوں میں جب زائرین نہیں آتے تو یہاں کے مکینوں پر ایک ایک دن بہت بھاری گزرتا ہے جھیل کے اطراف کے باسیوں کے دن سنور بھی سکتے ہیں ، اگریہاں سیاحت کو فروغ مل جائے منچھر کے ساتھ ایک علاقہ جھانگا را کا بھی ہے، یہاں وہ نوحانی قبیلہ آباد ہے، جس کے باسیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عرب کے قبیلے بنوتمیم سے ہیں، جب بنوامیہ نے حضرت علی کا ساتھ دینے کے جرم میں ان پر عرصہ حیات تنگ کیا تو وہ عورتوں اور بچوں سمیت راجہ داہر کےپاس پناہ لینے چلے آئے، محمد بن \"ahmadقاسم نے راجہ داہر سے انہی کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور نوحانی قبیلے کے مطابق انکار پر حملہ کردیاگیا یہاں جھانگارا کےپہاڑوں پر سات ہزارسال پرانے ایسے گھر بھی موجود ہیں جو حجری دور میں انسانوں نے اس وقت تعمیرکیے جب وہ غاروں میں رہتے تھے، انسانی ہاتھوں سے تعمیر ان غاروں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ تمام گھروں کا صحن ایک جگہ پر ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ اس دور کے لوگ اشتراکی ہوا کرتے تھے سیہون کے قریب ہی ایک الٹا قلعہ موجود ہے، یہ قلعہ سندھ کے کسی ثقافتی ورثے کا حصہ نہیں اور غفلت کی وجہ سے لوگ اس کی اینٹیں بھی اٹھا کرلے گئے اور اپنے گھر تعمیر کرلیے، بچی کچھی دیواروں کو اگر غور سے دیکھیں تو یہاں کے مینار اور کھڑکیاں زمین کی جانب ہیں، مقامی لوگوں کے مطابق قلندر نے اس دھرتی کو الٹا دیا، اگر ایسا نہیں بھی ہوا ہوگا تو یقینا اس قلعے کےساتھ کوئی انہونی ضرورہوئی ہے، یہ آثار بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں

سیہون سے تھوڑا پہلے شاہ صدرالدین کی درگاہ ہے، یہ سندھ کے وزیراعلیٰ کا گاؤں بھی ہے، اس درگاہ سے آدھا کلومیٹر فاصلے پر گندھک کا چشمہ بہتا ہے ، جلدی امراض والے اگر یہاں نہا لیں تو کہاجاتا ہے کہ فورا بیماری دور ہوجاتی ہے، یہاں ایک غار بھی ہے، جو شاہ صدرالدین سے منسوب ہے، مقامی لوگوں کے مطابق شاہ صدرالدین اس غار میں عبادت کیا کرتے تھے ایک لاکھ سے سوالاکھ آبادی پر مشتمل سیہون شہر میں اسپتال اور ڈگری کالج سے لے کر دنیاکی ہر سہولت ہے، یہاں جمنازیم ہے، لائبریری ، کمیونٹی سینٹراورپلے گراؤنڈ ہے، اس شہر میں اگر کسی کےپاس کام نہیں ہے تو وہ شاید پولیس ہے، یہاں جرائم کا ریٹ زیرو ہے، سیہون میں چار وکیل ہیں، ایک ڈسٹرکٹ کورٹ ہے اور اس شہر کے نوے فیصد مقدمات جائیداد سے متعلق ہیں، فوجداری مقدمات نہ ہونے کے برابر ہیں، سیاحت کے لیے وادی مہران کا یہ \"afzaalایک بہترین مقام ہے سندھ کا 23 واں وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ اسی جھیل کنارے کھیل کر بڑا ہوا تھا،مہران وادی کاموجودہ وزیراعلیٰ اسی عبداللہ شاہ کا بیٹا ہےاور منچھر جھیل مراد علی شاہ کے حلقہ انتخاب میں آتی ہے، اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود آر بی او ڈی تو مستقبل قریب میں بظاہر بنتا نظر نہیں آ رہا، اگر اس علاقے میں سیاحت کو ہی فروغ دے دیا جائے تو شاید منچھر کے باسیوں کے رستے زخموں کا کچھ مداوا ہوسکے سندھ کی نئی کابینہ میں وزیرسیاحت کا قلمدان نوجوان دانش ور سردارشاہ نے سنبھالا ہے، اس کی رومانویت سے بھری اور سندھ کی محبت سے گندھی شاعری سن کر اہل ذوق جھوم جاتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ وزیر بننے والا یہ شاعر سندھ کے Perception کو درست کرکے سیاحت کو حقیقی معنوں میں فروغ دے کیونکہ سندھ کا مسئلہ صرف Corruption نہیں ہے بلکہ مہران وادی کا غلط Perception ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments