شکارپور کی ماں کا حمل بار بار کیوں گرتا ہے؟


میرا یہ مضمون میرے پچھلے مضمون کی ہی ایک کڑی ہے۔ کم عمری کی شادی کے نقصانات کے بارے میں لکھتے ہوئے میرے ذہن میں بار بار وہ تمام چہرے آرہے ہیں جن سے ان کے بہت سے بنیادی حق صرف اس لئے چھن گئے کہ ان کی شادی کر دی گئی، ان کے خواب دیکھنے پر پابندی صرف اس لئے لگ گئی کیونکہ ان کی آنکھیں رسم و رواج کی بلی چڑھا دی گئیں۔ انسانی حقوق پر کام کرنے والے جتنے بھی سرکاری اور غیرسرکاری ادارے ہیں وہ سب اقوام متحدہ کے عالی اعلامیہ برائے انسانی حقوق کو بنیادی اور نہایت قابل احترام دستاویز مانتے ہیں۔  اس دستاویز میں بیان کیے گئے بچوں کے تمام بنیادی حقوق جس ایک رسم سے غیر محفوظ ہوتے ہیں وہ ہے کم عمری کی شادی۔ جب ایک بچے یا بچی کی شادی کرائی جاتی ہے تو گویا زبردستی اسے وقت سے پہلے بلوغت والی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یعنی وہ شق جس میں واضح کیا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر ہر انسان کو نابالغ یا بچہ تصور کیا جائے گا اور جیسے ہی ہم ایک بچے کو شادی کے بندھن میں باندھتے ہیں اسی وقت یہ تصور اپنی موت آپ مر جاتا ہے کہ وہ انسان بچہ یا بچی ہے۔

اس حالت میں معاشرہ، ماں باپ، خاندان والے نہ صرف اسے نفسیاتی تشدد کاشکار کرتے ہیں بلکہ ایک بچے کو جنسی تشدد کا شکار بھی ارادتاَ کرتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ یہی معاشرے اپنے بچوں کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ 2014 میں میرا اتفاق شکارپور کے گاؤں میں جانے کا ہوا کہ ایک لمبے عرصے تک وہاں پر مختلف حوالے سے کیے جانے والے فلاحی سرگرمیوں کے بعد وہاں پر آنے والی تبدیلی کا تناسب جانچا جا سکے، یہ وہ گاؤں تھا جہاں سب سے بڑا مسئلہ عورتوں کی تعلیم اور صحت کا تھا۔ وہاں اسکول موجود ہونے کے باوجود ایک بھی لڑکی اسکول میں داخل نہیں تھی۔ خواتین سے ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میرے ساتھ جو 13 سے 14 سال کی بچی بیٹھی تھی وہ غیر معمولی خاموش ہے اور خلاؤں میں گھور رہی ہے، آنکھیں سفید زندگی سے خالی اور چہرے پر ویرانی میں اس کو دیکھ کر تشویش کا شکار ہوچکی تھی۔ وہاں موجود ایک پختہ عمر خاتون سے میں نے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ہے اور اس گھر کے سربراہ کی بیوی کو بھی بلا لیں اس سوال کا جواب میرے لئے دکھ اور حیرت کا مجموعہ ثابت ہوا۔

اس گھر کے سربراہ جو 40 سال کا مرد تھا اس کی بیوی میرے برابر میں بیٹھی ہوئی وہ بچی تھی جس کی عمر مشکل سے 14 سال ہوگی اور بقول ان خاتون کے اس کی شادی کو ڈیڑھ سال سے ہوگیا ہے۔ وہ بچی جو چہرے سے ہی زیادتی اور تشدد کا شکار لگ رہی تھی، ساڑھے بارہ سال کی عمر میں اپنے سے چار گنا بڑے مردسے بیاہی گئی۔ اس کی نفسیات اور تولیدی صحت کے ساتھ وہ ظلم ہوا جس کا خود اسے بھی پتا نہیں تھا۔ ان خاتون نے مزید بتایا کہ اس ڈیڑھ سال میں اس لڑکی کے 3 حمل ضائع جس کی وجہ ان کے فرسودہ اور کٹر ذہنیت کے حساب سے اس لڑکی کی لاپرواہی تھی۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوگی یہ میں بھی سمجھ سکتی تھی۔

وہاں سے جو معلومات مجھے ملیں وہ انسانی حقوق کی پامالی کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ ان خاتون کے جو خود پیشے کے حساب سے دائی تھیں نے مجھے بتایا کہ ان کے گاؤں میں بہت عرصے سے یہ رواج یا خودساختہ قانون ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے یا پہلی ماہواری کے بعد اسی مہینے اس کی شادی کردی جاتی ہے چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہو یعنی عورت کی شادی کا تعین عمر سے نہیں ماہواری کے آنے سے مشروط تھا جس کی وجہ یہ گھٹیا اندیشہ تھا کہ کہیں وہ لڑکی بالغ ہونے کے بعد جنسی زیادتی کا شکار ہوکر یا کسی سے تعلق بنا کر ان کی نام نہاد عزت پر بٹہ نہ لگا دے۔

اس گاؤں میں زچہ و بچہ میں شرح اموات بہت زیادہ تھی کیونکہ اکثر ماں کی عمر بہت کم ہوتی تھی جس کی وجہ سے دورانِ زچگی وہ مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوکر آخر دم توڑ جاتی ہیں۔ یہاں عورتوں کو زچگی کے لئے ہسپتال لے جانے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا، گھر پر دائی ہی یہ خدمات انجام دیتی تھیں بقول ان کے ہسپتال کی ڈاکٹر یہ خطرناک کیس ہاتھ میں نہیں لیتیں اور وہ کیس خطرناک ہونے کی وجہ ایک ہی تھی ماں کی کم عمری۔ اس گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم گناہ تھی وجہ کہ اس کی جلد سے جلد شادی کرنا ضروری ہے تو وہ پڑھ کر کیا کرے گی۔

یہ ایک مثال تھی بچوں کے حقوق کی پامالی کی جو صرف ایک فرسودہ رسم کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کم عمری میں شادی کے بندھن میں باندھے جانے والے بچوں سے بیک وقت ان کی انفرادی شناخت بحیثیت ایک بچے کے چھینی جاتی ہے وہیں اس سے اظہار رائے کی آزادی، تعلیم کا حق بھی چھن جاتا ہے اوروہ ایک ہی وقت میں نفسیاتی تشدد، جنسی تشدد، جذباتی تشدد اور اقتصادی تشدد کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر لڑکا ہے کم عمری میں شادی کردی گئی تو ذمہ داری آ گئی وہ بچہ جو پہلے شاید پڑھتا تھا، خواب دیکھتا تھا کچھ بننے کا اب اس کو جتا دیا گیا کہ گھر بار بس گیا ہے تمہارا اب ذمہ داری خود اٹھانی ہوگی اب وی کم عمری میں مشقت مزدوری کا بھی پابند ہوگیا اس کو اگر اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالنا ہے تو کمانا پڑیگا جیسے میں نے اپنے پچھلے مضمون میں بیان کیا تھا کہ ایک دیہات میں ایک بچے کی شادی جب وہ چوتھی جماعت کا طالب علم تھا اسکول سے نکال کر کرا دی گئی وجہ یہ تھی کہ شادی کے بعد فصل میں کام کرنے والے ایک اور مزدور (جو اس کی بیوی تھی) کا اضافہ ہوجائے گا اور وہ لڑکا بھی ذمہ داری سے کام کرے گا، دو زندگیاں صرف اس لئے خراب کی گئیں کہ فصل کے موسم میں دو مزدوروں کی اجرت بچائی جا سکے۔

ایک اور گاؤں میں تھوڑا مختلف مسئلہ سامنے آیا جب ایک بچی جو کہ پیدائش کے وقت ہی اپنے چچازاد سے منسوب کردی گئی تھی کی شادی 12 سال کی عمر میں اس کی تعلیم ختم کروا کر اس لئے کروادی گئی کیونکہ اس کی ساس بیمار تھی اور اسے گھر میں کام کاج میں مدد کے لئے کوئی چاہیے تھا اس وجہ سے اس لڑکی پڑھائی روک دی گئی۔ اس طرح کی کئی وجوہات ہیں جو کم عمری کی شادی سے ہونے والے نقصانات کو واضح کرتی ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے حقوق عدم تحفظ کا شکار ہیں بلکہ بہت سے انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بھی ہیں۔ امید ہے کہ عالمی ترقی کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ اس سنگین مسئلے پر بھی غور و فکر کر کے اس کے حل کے لئے کوشش کی جائے گی اور اس کی روک تھام کے قانون کو مزید بہتر بنا کر اس پر عمل کو یقینی بنایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).