گلگت بلتستان کے حلقہ نمبر 1 کی محرومیاں


شہری اور دیہی آبادی پہ محیط گلگت بلتستان کا یہ حلقہ انتہائی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی پسماندہ بھی ہے۔ اس حلقے کی اہمیت اس لیے ہے کہ گلگت شہر کا ایک قابل ذکر رقبہ اس حلقے میں شامل ہے اور پسماندہ اس لیے کہ یہاں کی شہری اور دیہی آبادی دور جدید میں بھی بنیادی اور لازمی حقوق سے محروم ہے۔  اس حلقے کے نالوں سے پائپ لائنز کے ذریعے دوسرے حلقوں کے لیے پانی تو جاتا ہے مگر حلقے کے عوام صاف پانی کو ترستے ہیں۔

یہاں کی آبادی کا شمار قدیم آبادی میں ہوتا ہے مگر زمینوں کے سرکاری ریٹس دوسرے حلقوں کی بنجر زمینوں سے بھی بہت کم ہیں۔ ایجوکیشن کے میدان میں کوئی ایک بھی قابل ذکر سکول اور کالج اس حلقے میں موجود نہیں ہیلتھ سیکٹر اور پبلک ٹرانسپورٹ کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اپنے ووٹوں کے ذریعے جس نمائندے کو اسمبلی بیجتے ہیں اسی سے ہی ملنے کو ترستے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پانی، بجلی، تعلیم، ٹرانسپوراٹ اور زمینوں کے سرکاری ریٹس کا نہ ہونے کے برابر ہونا زیادہ ناموافق نہیں لگتا۔

یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے گلگت بلتستان اسمبلی میں جانے کے خواہش مند امیدوارکو لوگوں کے گھروں میں نہیں مسجدوں میں جانا پڑتا ہے۔ بات صرف مسجد تک بھی محدود نہیں ہوتی، مسجدوں میں جانے کے بعد بھی جو امیدوار جس قدر مخالف مسلک کو زیادہ تنقید کا نشانہ بناتا ہے اسی نسبت سے اس کا ووٹ بنک بڑھتا ہے اور یہی سلسلہ سارے فساد اور پسماندگی کی جڑ بھی ہے جس نے نہ صرف اس حلقے کو پسماندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ ماضی میں ہونے والے خون ریز واقعات بھی اسی حلقے کے مرہون منت رہے ہیں۔

دونوں بڑے مسالک کی مرکزی جامع مساجد بھی اسی حلقے میں ہیں اور یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے مساجد میں جانے میں عار محسوس کرتے ہیں مگر دونوں مساجد کے بیچ موجود پولو گراونڈ میں بلا تفریق اکٹھے ہوکر ثابت کرتے ہیں کہ خدا کا گھر تو نفرتیں پھیلانے کے لئے تقسیم کیے رکھا ہے مگر محبتوں کا درس تو دونوں مساجد کے بیچ میں موجود شاہی پولو گراونڈ سے ملتا ہے جہاں پہ آنے کے ساتھ ہی دل بھی شاہی ہوجاتا یے اور بلا کسی مسلکی تفریق کے ایک دوسرے کے کاندھوں سے کاندھے ملاکر پولو گیم دیکھتے ہوئے نفرتوں کو بھلا دیتے ہیں

اس حلقے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے عوامی نمائندوں کے ساتھ عوام سیاست کرتے ہیں، الیکشن کے دنوں دن رات ساتھ رہنے والا کارکن بھی عین وقت پہ ووٹ اپنی پارٹی کی ہی مخالفت میں دے کر اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ جناب کا ووٹ مخالف پارٹی کے نام ہوا مگر مخالف مسلک کو نہیں گیا، یہ ایک قسم کی انتہائی منافقانہ اپروچ ہے جس کی وجہ سے اچھا خاصا سیاسی وژن رکھنے والا امیدوار بھی جاجاکے مسلکی انتہا ہسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے پہ مجبور ہوتا ہے یا پھر اسے اپنے ہی مسلک کے بھائیوں کو بے وقوف ببانے والی سیاست کرنا پڑتی ہے۔

تین تین بار عوامی و فلاحی نعرے لگانے والے امیدوار کو 1000 ہزار سے بھی کم ووٹ پڑتے ہیں مگر وہی امیدوار جب حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مخالف مسلک کے خلاف ایک نعرہ لگاتاہے تو اس کے ووٹ بنک میں نہ صرف آٹھ گنا اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس مخصوص ٹرک کو سمجھتے ہوئے صحیح وقت پہ استعمال کرنے کے بعد امیدوار سیدھے اسمبلی بھی پہنچ جاتا ہے جس کے بعد متعلقہ امیدوار بھی سمجھ جاتا ہے کہ لوگوں کو صاف پانی کے بدلے گندی ذہنیت، روزگار کے بدلے قتل و گارت اور بھوک و ننگ کے بدلے دوچار تکفیری نعروں کی ضرورت ہے تو بجائے میرٹ میرٹ کھیل کر ہار جانے سے بہتر ہے کہ کافر کافر ہی کھیل کر با آسانی ہدف تک پہنچا جائے، ویسے بھی کفر و نفاق پھیلانے والوں کے آگے عوام کے ساتھ ساتھ ادارے بھی گٹھنے ٹیکنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ اس سب میں صرف ہمارے ممبران کا ہی قصور نہیں بلکہ حلقہ کا ایک ایک ووٹر قصوار وار ہے۔ جب ہمارے ممبران اس طرح کے ماحول سے گزر کر اسمبلی میں جاتے ہیں تو ایک خاص گروپ انہیں پانچ سال یرغمال بنائے رکھتا ہے اور تمام تر ترقیاتی سکیموں سے بھی فرقہ واریت کی بو آنے لگتی ہے۔

زیادہ نہیں کوئی اس حلقے میں بنے لنک روڈز کا ہی معائنہ کرے تو انجینرز کی انجینیرنگ دیکھ کر عقل چکر کھانے لگتی ہے کہ کیسے غیر مسلکی افراد کی اراضی کے بالکل قریب سے روڈ کو یوں گھمایا جاتا ہے کہ کوئی عام انجینئر ایسی کاریگری دکھانے کا سوچ بھی نہ سکے۔ بات یہاں پہ ختم ہوتی تو بھی کسی حد تک قابل برداشت تھی مگر فرقہ کے نام پہ ملنے والے 8 سے دس ہزار ووٹرز میں سے بھی چند مفاد پرست ٹولے ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں باقی دن رات ایک کرکے جھنڈیاں اٹھا اٹھا کر نعرے لگانے والے چھوٹے موٹے کارکن تو اپنے ہی ممبر کی شکل تک دیکھ نہیں پاتے۔

2005 اور 2006 کے دوران اس حلقے میں سب سے بڑی واٹر سکیم منظور ہوئی اور جب ٹھیکہ دار نے ناقص پائپ لائنز کا استعمال اور غیر معیاری کام شروع کیا تو عوام نے شور مچایا مگر جناب نے یک دم فرقہ واریت کی چھتری تلے پناہ لیتے ہوئے با آسانی دیگر فرقوں کے ساتھ ساتھ چھتری فراہم کرنے والوں کو بھی چکمہ دینے میں کامیابی حاصل کی اور تب سے اب تک بغیر کسی مسلکی تفریق کے یہاں کا ہر گھرانہ صاف پانی کو نہ صرف ترستا ہے بلکہ اپنے کیے پہ شرمندہ بھی ہے۔

مگر شرمندگی سے کچھ سیکھنے کے بجائے الیکشن والے دن پھر وہی تعصب زدہ عینک کو الماری سے نکال کر گندے پانی سے دھونے کے بعد ووٹ کا حق استعمال کرنے نکل پڑتا ہے۔ حلقے کے ووٹرز کو الیکشنز کے دنوں پروان چڑھتی ہوئی مسلکی انتہا پسند متاثر تو کرتی ہے مگر باقی ماندہ پانچ سالوں میں گلی گلی اٹھتے غربتوں کے جنازے، بے روزگار چہرے اور الیکشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرتیں نظر نہیں آتی۔

اس سارے معاملے میں اصل قصور وار کون ہے یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے مگر اس حلقے سے پیدا ہونے والی انتہا پسندی کا بار بار پورے گلگت کو لپیٹ میں لیتے ہوئے دیکھنے کے باوجود ریاستی اداروں کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں مگر صرف سوالات اٹھانے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا اب کی بار یہاں کی پڑھی لکھی نوجوان نسل اور ان ووٹرز کو کردار ادا کرنا ہوگا جن کا تعلق کسی مذہبی و سیاسی پارٹی سے نہیں ہے اور اب کی بار وہ نیوٹرل ووٹرز جو اس ڈرامے بازی اور فرقہ پرستی سے تنگ ہیں، کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور بغیر کسی مسلکی و سیاسی تفریق کے کسی ایسے امیدوار کو سپورٹ اور ووٹ کرنا ہوگا جو اس علاقے میں ترقیاتی سکیموں کو مسلکی جنونیت کو ترقی دینے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے مسلکی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے استعمال کرے۔ امیدوار خواہ کسی بھی مسلک و پارٹی سے ہو مگر ووٹرز کو اس کی قابلیت اور علاقے کی ترقی کے لئے اس کی نیک نیتی کو معیار و پیمانہ بنانا ہوگا ورنہ وقت نے سبق تو بہت سکھایا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اب کی بار بھی وہ مفاد پرست ٹولہ ہمیں استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائے اور ہمارا ووٹ ہی ہماری جانوں کا دشمن بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).