بھارتی انتخابات 2019


بھارت کا آئین دنیا کے ضخیم ترین دساتیر میں سے ایک ہے۔ اس میں 395 آرٹیکلز، 22 حصے اور 12 شیڈولز ہیں۔ بھارتی دستور کے تحت مرکز میں دو ایوانی قانون ساز سسٹم رائج ہے یہ دو ایوان آرٹیکل 79 کے مطابق راجیہ سبھا (کونسل آف سٹیٹس) اور لوک سبھا (ہاوس آف پیپلز) ہیں۔ الیکشن انڈیا 2019 سات مرحلوں میں 11 اپریل سے شروع ہو کر 19 مئی تک ختم ہو گا۔ اس الیکشن کے ذریعے انڈین عوام سترہویں لوک سبھا کا چناؤ کریں گے۔

ووٹوں کی گنتی 23 مئی کو ہو گی اور اسی دن نتیجے کا اعلان کیا جائے گا۔ کل 543 امیدواران کا انتخاب ہو گا۔ صدر انڈیا اگر یہ سمجھتا ہے کہ اینگلو انڈین کمیونٹی کی نمائندگی کم ہے تو وہ مذکورہ کمیونٹی سے دو مزید ممبر نامزد کرے گا۔ اکثریت کے حصول کے لئے 543 ممبران میں سے 272 ممبران پارلیمنٹ کی حمایت ضروری ہے۔ یہ تمام ممبران ایف پی ٹی پی (فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ) کے انتخابی نظام کے تحت منتخب ہوں گے۔ یہ ایسا انتخابی اصول ہے جس میں ووٹر اپنے پسندیدہ امیدوار کی نشاندہی بیلٹ پیپر پر کرے گا اور جو امیدوار سب سے زیادہ ووٹ لے گا وہ جیت جائے گا۔ اس اصول کو ”جو جیتا وہی سکندر“ یا ”ونر ٹیکس آل“ بھی کہتے ہیں۔ یہ انتخابی نظام بشمول کینیڈا، برطانیہ، امریکا اور انڈیا دنیا کے ایک تہائی ممالک میں رائج ہے۔

انڈیا میں ووٹر کی اہلیت کے لئے کم سے کم عمر 18 سال ہے علاوہ ازیں متعلقہ حلقے کا رہائشی ہونا اور الیکشن کمیشن سے جاری شدہ ووٹر آئی ڈی کارڈ کا ہونا لازمی شرائط میں شامل ہے۔

انڈیا میں دو مین سٹریم پارٹیوں بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس کے درمیان مقابلہ ہے۔ بھاتیہ جنتا پارٹی کنول کے پھول کے نشان پر جبکہ کانگریس ہاتھ کے نشان پر انتخابات لڑ رہی ہے۔ دونوں ہی پارٹیاں دوسری چھوٹی پارٹیوں کی اتحادی ہیں۔ بی جے پی کا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس اور کانگریس کا اتحاد یونائیٹڈ پروگریسو الائنس ہے۔ دونوں اتحادوں میں 20 سے زیادہ پارٹیاں شامل ہیں۔

آئندہ انتخابات میں دونوں پارٹیوں کے لئے اکیلے اپنے طور پر اکثریت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ دونوں کو ہی چند مضبوط علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی از حد ضرورت ہے۔

2014 کے الیکشن پر نظر دوڑائی جائے تو بی جے پی کو اکیلے 282 نشستیں ملیں تھیں جو کہ سادہ اکثریت سے 10 نشستیں زیادہ ہیں۔ فرض کریں اس بار بی جے پی کو زیادہ نقصان نہیں ہوتا اور وہ 50 نشستیں کم جیت پاتی ہے تو اس کی نشستوں کی تعداد 232 ہو گی۔ 2014 میں بی جے پی کے اتحادی 54 نشستیں جیت سکے تھے۔ اس بار بھی مودی کی پارٹی اپنے اتحادیوں کے بل بوتے پر اقتدار کی امید رکھ سکتی ہے۔ اس صورتحال میں ان پارٹیوں کا کردار جو کہ علاقائی طور پر مضبوط پارٹیاں ہیں اور ابھی انہوں نے اتحاد کا فیصلہ نہیں کیا بہت اہم ہے۔ وہ پارٹیاں مودی کو دوبارہ تخت ہند پر براجمان کرا سکتی ہیں یا دوسری صورت میں مودی کی قسمت بگاڑ سکتی ہیں۔

اس وقت نتائج کا اندازہ لگانا نہایت مشکل امر ہے مگر اس صورتحال میں ”دی گریٹ ٹین“ یعنی ایسی دس ریاستیں جن میں ممبران پارلیمنٹ کی تعداد باقی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، کا کردار فیصلہ کن ہو گا۔ ان ریاستوں میں یوپی کی 80 نشستیں، مہاراشٹرا کی 48، مغربی بنگال کی 42، بہار کی 40، تامل ناڈو کی 39، مدھیہ پردیش کی 29، کرناٹکا کی 28، گجرات کی 26، آندھرا پردیش کی 25 اور راجھستان کی 25 نشستیں شامل ہیں۔ یہ دس بڑی ریاستیں 382 ممبران پارلیمنٹ کی تعداد رکھتی ہیں۔ لوک سبھا میں یہ دس ریاستیں بڑی حد تک انڈیا کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی۔ 2014 میں مودی کی پارٹی نے 213 نشستیں ان دس ریاستوں سے جیتی تھیں۔

پچھلے سال ریاستی انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کڑا مقابلہ ہوا۔ کرناٹکا میں کانگریس مشکل سے جنتا دل کی حمایت سے حکومتی نشستوں پر بیٹھ سکی۔ آئندہ نتائج کا اندازہ لگانا یوں بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ بھارت میں عوام ریاستی انتخابات اور مرکزی انتخابات کو مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اتر پردیش نے پچھلی بار بی جے پی کو 71 نشستوں سے نوازا تھا لیکن بظاہر یہ نہیں لگتا کہ یو پی میں بی جے پی اپنی گزشتہ کارکردگی کو دہرا پائے گی۔

کانگریس نے انتخابات 2019 کے لئے اپنا منشور بھی جاری کر دیا ہے جس میں کسانوں کے لئے الگ بجٹ، مارچ 2020 تک 22 لاکھ نوکریاں، تعلیم کے لئے 6 فیصد بجٹ، پہلے تین سال تک بغیر این او سی کے کاروبار کرنے کی سہولت اور 25 کروڑ غریبوں کے لئے امداد کا پروگرام ”نیائے“ شامل ہیں۔

بی جے پی نے ابھی تک باضابطہ طور پر الیکشن 2019 کے لئے اپنا منشور جاری نہیں کیا مگر زراعت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ دلت اور قبائلی کمیونٹیز کی ترقی کے لئے کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دونوں جماعتیں اپنی کامیابی کے لئے پر عزم ہیں لیکن آخری فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).