ستر پوشیاں گھر کو جنت بنا سکتی ہیں


میرے نبی (ص) نے فرمایا کہ ”جس نے ایک مسلمان کے عیب چھپائے اللہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا“۔ ہمارے معاشرے کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے ایسے سارے قول نہ صرف پڑھنے چھوڑ دیے ہیں بلکہ ہم عیب جوئی میں اس درجہ آگے بڑھ چکے ہیں جہاں سے ہمارا پلٹنا بھی نا ممکنات میں نظر آنے لگا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی بشر ایسا ہو جس میں کوئی نہ کوئی ”شر“ موجود نہ ہو۔ ایک بشر اور ابلیس میں کوئی فرق ہے تو فقط اتنا ہے کہ بشر، شر کرنے کے بعد شرمسار ہوتا ہے اور سراپا معافی کا خواستگاربن جاتا ہے جبکہ ابلیس شیطانیت کا مظاہرہ کرنے کے بعد اور بھی زیادہ اکڑ جاتا ہے۔

گناہ کے بعد گناہ پر، اور وہ بھی بر بنائے شک، اتنا آپے سے باہر ہوجانا کہ قتل و غارت گری پر اتر آنے سے بھی گریز نہ کرنا سراسر ظلم ہے اور اس ظلم کی اسلام کسی صورت اجازت ہی نہیں دیتا۔ اگر کسی کی ذات پر کوئی شک گزرے تو اس کا حل قانون کو ہاتھ میں لینا ہرگز نہیں بلکہ مروجہ قوانین کے تحت مجرم کو اس کے انجام تک پہنچانے میں ہی فلاح ہے۔

ہمارے اخبارات ایسے ایسے واقعات سے بھرے نظر آتے ہیں جن کو پڑھ کر یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہم کسی مہذب معاشرے کی بجائے درندوں کی بستی یا جنگل میں رہ رہے ہیں۔ کسی محلے سے خبر آتی ہے کہ کہ شوہر نے نہ صرف اپنی بیوی کا گلا کاٹ دیا بلکہ چار پانچ معصوم بچوں کو بھی موت کی وادی میں پہنچا دیا ہے۔ خواتین کے چہروں کو نہایت خطرناک تیزاب سے جھلسا دیا ہے، کپڑوں پر مٹی کا تیل یا پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی ہے۔ ایسا بھی سننے میں آیا ہے رات دن تہمتیں سہنے والی کسی خاتون نے یا تو اپنے شوہر کو بچوں سمیت زہر پلادیا ہے یا معصوم بچوں کے ساتھ کسی نہر میں چھلانگ لگادی ہے۔ ایسی ساری کہانیوں میں زیادہ تر تہمتوں، الزام تراشیوں، غیبتوں، عیب جوئیوں اور چغلخوریوں کی کارفرمائیاں نظر آئیں گی۔ ان ہی ساری مذکورہ شیطانیت کا تسلسل ایک دن اتنا لاوہ پکا کر رکھ دیتا ہے کہ انجام کار کسی بہت ہی بھیانک روپ دھار کر گھر کے گھر اور بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دیتا ہے۔

میں جو واقعہ قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ ہم سب کے لئے ایک سبق ہے۔ اگر ہم بر بنائے شک انتہائی قدم از خود اٹھانے کی بجائے کچھ معاملات کو قانونی انداز میں حل کرنے کے عادی ہوجائیں تو ایسے بہت سارے حادثات جس میں فلاح کا کوئی بھی پہلو پوشیدہ نہیں ہوتا اور سوائے تباہی و بربادی کچھ حاصل نہیں ہوتا، ان سے بچ جائیں اور وہ زہر جو ہمارے غلط قدم اٹھانے کے سبب نسل در نسل پھیلتا چلا جاتا ہے، اس سے محفوظ رہیں۔

اگرکسی نے کسی بھی بشری کمزوری کی وجہ سے کوئی غلط قدم اٹھا ہی لیا ہے تب بھی دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے تئیں وکیل بھی بن جائیں، مدعی بھی بن جائیں اور منصف بھی بن جائیں بلکہ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس معاشرے کی وضع کیے گئے قوانین کے مطابق قدم اٹھائیں تاکہ مزید فتنہ و فساد برپا نہ ہو سکے۔

جو واقعہ اس حوالے سے پیش خدمت ہے وہ فیس بک سے لیا گیا ہے اور حرف بہ حرف تحریرہے۔ بے شک یہ کوئی تحقیق شدہ نہیں پھر بھی اس میں ایک سبق ہے جو ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ اگر نظم وضبط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور کسی بھی معاملے پر اس کی سچائی جانے بغیر چراغ پا ہونے کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کیا جائے تو حالات بہتری کی جانب بھی پلٹ سکتے ہیں اور گھر اور بستیاں اجڑنے کی بجائے جنت نظیر بھی بن سکتی ہیں۔

ایک بادشاہ محل کی چھت پر ٹہلنے چلا گیا۔ ٹہلتے ٹہلتے اس کی نظر محل کے نزدیک گھر کی چھت پر پڑی جس پر ایک بہت خوبصورت عورت کپڑے سکھا رہی تھی۔

بادشاہ نے اپنی ایک باندی کو بلا کر پوچھا: کس کی بیوی ہے یہ؟

باندی نے کہا: بادشاہ سلامت یہ آپ کے غلام فیروز کی بیوی ہے۔

بادشاہ نیچے اترا، بادشاہ پر اس عورت کے حسن وجمال کا سحر سا چھا گیا تھا۔

اس نے فیروز کو بلایا۔

فیروز حاضر ہوا تو بادشاہ نے کہا: فیروز ہمارا ایک کام ہے۔ ہمارا یہ خط فلاں ملک کے بادشاہ کو دے آؤ اور اس کا جواب بھی ان سے لے آنا۔

فیروز: اس خط کو لے کر گھر واپس آ گیا خط کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا، سفر کا سامان تیار کیا، رات گھر میں گزاری اور صبح منزل مقصود پر روانہ ہو گیا اس بات سے لاعلم کہ بادشاہ نے اس کے ساتھ کیا چال چلی ہے۔

ادھر فیروز جیسے ہی نظروں سے اوجھل ہوا بادشاہ چپکے سے فیروز کے گھر پہنچا اور آہستہ سے فیروز کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

فیروز کی بیوی نے پوچھا کون ہے؟

بادشاہ نے کہا: میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک۔

اس نے دروازہ کھولا۔ بادشاہ اندر آ کر بیٹھ گیا۔

فیروز کی بیوی نے حیران ہو کر کہا: آج بادشاہ سلامت یہاں ہمارے غریب خانے میں۔

بادشاہ نے کہا : میں یہاں مہمان بن کر آیا ہوں۔

فیروز کی بیوی نے بادشاہ کا مطلب سمجھ کر کہا: میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں آپ کے اس طرح آنے سے جس میں مجھے کوئی خیر نظر نہیں آ رہی۔

بادشاہ نے غصے میں کہا: اے لڑکی کیا کہہ رہی ہو تم؟ شاید تم نے مجھے پہچانا نہیں میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک۔

فیروز کی بیوی نے کہا: بادشاہ سلامت میں جانتی ہوں کہ آپ ہی بادشاہ ہیں لیکن بزرگ کہہ گئے ہیں ”شیر کو اگرچہ جتنی بھی تیز بھوک لگی ہو لیکن وہ مردار تو نہیں کھانا شروع کر دیتا۔ بادشاہ سلامت تم اس کٹورے میں پانی پینے آ گئے ہو جس میں تمہارے کتے نے پانی پیا ہے“۔

بادشاہ اس عورت کی باتوں سے بڑا شرمسار ہوا اور اس کو چھوڑ کر واپس چلا گیا لیکن اپنے چپل وہیں پر بھول گیا۔

یہ سب تو بادشاہ کی طرف سے ہوا۔

اب فیروز کو آدھے راستے میں یاد آیا کہ جو خط بادشاہ نے اسے دیا تھا وہ تو گھر پر ہی چھوڑ آیا ہے اس نے گھوڑے کو تیزی سے واپس موڑا اور اپنے گھر کی طرف لپکا۔ فیروز اپنے گھر پہنچا تو تکیے کے نیچے سے خط نکالتے وقت اس کی نظر پلنگ کے نیچے پڑے بادشاہ کے چپل پر پڑی جو وہ جلدی میں بھول گیا تھا۔ فیروز کا سر چکرا کر رہے گیا اور وہ سمجھ گیا کہ بادشاہ نے اس کو سفر پر صرف اس لئے بیھجا تھا تاکہ وہ اپنا مطلب پورا کر سکے۔

فیروز کسی کو کچھ بتائے بغیر چپ چاپ گھر سے نکلا۔ خط لے کر وہ چل پڑا اور کام ختم کرنے کے بعد بادشاہ کے پاس واپس آیا تو بادشاہ نے انعام کے طور پر اسے سو دینار دیے۔ فیروز دینار لے کر بازار گیا اور عورتوں کے استعمال کے قیمتی کپڑے اور کچھ تحائف بھی خریدے۔ گھر پہنچ کر بیوی کو سلام کیا اور کہا چلو تمہارے میکے چلتے ہیں۔

بیوی نے پوچھا: یہ کیا ہے؟

کہا: بادشاہ نے انعام دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ پہن کر اپنے گھر والوں کو بھی دکھاؤ۔

بیوی: جیسے آپ چاہئیں، بیوی تیار ہوئی اور اپنے والدین کے گھر اپنے شوہر کے ساتھ روانہ ہوئی داماد اور بیٹی اور ان کے لائے تحائف کو دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔

فیروز بیوی کو چھوڑ کر واپس آ گیا اور ایک مہینہ گزرنے کے باوجود نہ بیوی کا پوچھا اور نہ اس کو واپس بلایا۔

کچھ دن بعد اس کے سالے اس سے ملنے آئے اور اس سے پوچھا: فیروز آپ ہمیں ہماری بہن سے غصے اور ناراضگی کی وجہ بتائیں یا پھر ہم آپ کو قاضی کے سامنے پیش کریں گئے۔

فیروز نے کہا: اگر تم چاہو تو کر لو لیکن میرے ذمے اس کا ایسا کوئی حق باقی نہیں جو میں نے ادا نہ کیا ہو۔

وہ لوگ اپنا کیس قاضی کے پاس لے گئے تو قاضی نے فیروز کو بلایا۔

قاضی اس وقت بادشاہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ لڑکی کے بھائیوں نے کہا: اللہ بادشاہ سلامت اور قاضی القضا کو قائم و دائم رکھے۔ قاضی صاحب ہم نے ایک سر سبز باغ، درخت پھلوں سے بھرے ہوئے اور ساتھ میں میٹھے پانی کا کنواں اس شخص کے حوالے کیا تو اس شخص نے ہمارا باغ اجاڑ دیا سارے پھل کھا لئے، درخت کاٹ لئے اور کنویں کو خراب کر کے بند کردیا۔

قاضی نے فیروز کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: ہاں تو لڑکے تم کیا کہتے ہو اس بارے میں؟

فیروز نے کہا: قاضی صاحب جو باغ مجھے دیا گیا تھا وہ اس سے بہتر حالت میں نے انہیں واپس کیا ہے۔

قاضی نے پوچھا: کیا اس نے باغ تمھارے حوالے ویسی ہی حالت واپس کیا ہے جیسے پہلے تھا؟

انہوں نے کہا: ہاں ویسے ہی حالت میں واپس کیا ہے لیکن ہم اس سے باغ واپس کرنے کی وجہ پوچھنا چاہتے ہیں۔

قاضی: ہاں فیروز تم کیا کہنا چاہتے ہو اس بارے؟

فیروز نے کہا: قاضی صاحب میں باغ کسی بغض یا نفرت کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ اس لیے چھوڑا کہ ایک دن میں باغ میں آیا تو اس میں، میں نے شیر کے پنجوں کے نشان دیکھے تو مجھے خوف ہوا کہ شیر مجھے کھا جائے گا اس لئے شیر کے اکرام کی وجہ سے میں نے باغ میں جانا بند کردیا۔

بادشاہ جو ٹیک لگائے یہ سب کچھ سن رہا تھا، اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا۔ فیروز اپنے باغ کی طرف امن اور مطمئن ہو کر جاؤ۔ واللہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر تمھارے باغ آیا تھا لیکن وہ وہاں پر نہ تو کوئی اثر چھوڑ سکا، نہ کوئی پتا توڑ سکا اور نہ ہی کوئی پھل کھا سکا وہ وہاں پر تھوڑی دیر رہا اور مایوس ہو کر لوٹ گیا اور خدا کی قسم شیر نے کبھی تمھارے جیسے باغ کے گرد لگی مضبوط دیواریں نہیں دیکھیں۔

فیروز اپنے گھر لوٹ آیا اور اپنی بیوی کو بھی واپس لے لیا۔ نہ تو قاضی کو پتہ چلا اور نہ ہی کسی اور کو کہ ماجرا کیا تھا

کیا خوب بہتر ہے اپنے اہل وعیال کے راز چھپانا تا کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے

اپنے گھروں کے بھید کسی پر ظاہر نہ ہونے دو

اللہ آپ لوگوں کو خوشیوں سے بھر دے آپ کو، آپ کے اہل وعیال کو اور آپ کے مال کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).