میں نے اس کا نام مون کیوں رکھا تھا؟


میں بھی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور مون بھی۔ میں ایک پرائمری اسکول میں ٹاپ کرتا آیا تھا اور وہ دوسرے اسکول میں۔ گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہم ایک ہی جماعت میں اکٹھے ہوگئے۔ میں سہہ ماہی امتحان میں اول آیا اور مون ششماہی امتحان میں۔ سالانہ امتحان میں ہم دونوں نے سخت محنت کی۔ نتیجے کا اعلان 31 مارچ 1985 کو ہونا تھا۔ میں وہ دن کبھی نہیں بھلا سکتا۔

میں اس سے پہلے قائداعظم پبلک اسکول میں پڑھتا تھا جو خانیوال کا پہلا انگلش میڈیم اسکول تھا۔ شہر میں کوئی انگلش میڈیم ہائی اسکول نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں داخلے کے لیے صرف تین آپشن تھے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول، اسلامیہ ہائی اسکول اور کمیٹی اسکول جو صرف مڈل تک تھا۔ میرے بیشتر کلاس فیلوز نے گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔

مون کا اصل نام وقار امین تھا۔ وہ ڈاکٹر امین کا چھوٹا بیٹا تھا۔ ڈاکٹر امین میرے بڑے ماموں کے کلاس فیلو اور گہرے دوست تھے۔ ان کے بڑے بیٹے فہیم میرے ماموں زاد تہور بھائی کے کلاس فیلو تھے۔ مون نے پانچویں سرسید پبلک اسکول سے پاس کی تھی۔

قائداعظم پبلک اسکول میں ہر کلاس کے چار سیکشن ہوتے تھے اور ہر سیکشن میں صرف پندرہ سترہ بچے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہر جماعت کے چھ سیکشن تھے اور ہر سیکشن میں سو سوا سو بچے۔ کلاس کیا تھی، مجمع عام ہوتا تھا۔ اسکول کا احاطہ بہت بڑا تھا۔ کرکٹ ہاکی اور فٹبال کے بڑے بڑے میدان تھے۔ ان کے علاوہ بھی کافی خالی جگہ تھی۔ لیکن عمارت چھوٹی تھی اور چھٹی جماعت کے کسی سیکشن کے لیے کمرے دستیاب نہیں تھے۔ گرمی سردی ہر موسم میں ہم درختوں کے نیچے زمین پر بیٹھتے۔

گورنمنٹ ہائی اسکول ہمارے گھر سے دو کلومیٹر دور تھا۔ میں کچھ دن پیدل گیا، پھر بابا نے سائیکل خرید دی۔ سیکڑوں طالب علم اور تمام اساتذہ سائیکلوں پر ہی اسکول آتے تھے۔

کلاچی صاحب ہیڈماسٹر تھے۔ ان کا ایسا رعب قائم تھا کہ بچے نام سن کر کانپ جاتے۔ کسی کی ہمت نہ تھی کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لے۔ وہ اسکول کے دورے پر نکلتے تو سناٹا چھا جاتا۔ درختوں پر بیٹھے پرندے تک سہم جاتے۔

میں نے کبھی کلاچی صاحب کو کسی پر ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا لیکن گورنمنٹ ہائی اسکول کے اساتذہ بچوں کی دھنائی کرنے کے لیے بدنام تھے۔ بدنام کا لفظ میں نے استعمال کیا، خانیوال میں اسے نیک نامی سمجھا جاتا تھا۔ لوگ تعریفاً کہتے کہ گورنمنٹ ہائی اسکول اچھا ہے کیونکہ اس کے ٹیچرز سخت ہیں۔

بچوں کی چمڑی ادھیڑنے میں جو اساتذہ پیش پیش تھے ان میں ایک ڈے ماسٹر اور دو پی ٹی ماسٹر پیش پیش تھے۔ جو لڑکا کلاس کے باہر دکھائی دیتا، اس سے سوال بعد میں کرتے، پہلے حکم دیتے، ”چل کن پھڑ لے۔ “ کھڑے کھڑے کان پکڑنے کو کان پکڑنا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مرغا بننا پڑتا تھا۔ جھکے جھکے بتانا پڑتا کہ کلاس ٹیچر کی اجازت سے نلکے سے پانی پینے کے لیے نکلا تھا۔ جواب پسند آتا تو کولہے پر ایک دو بید رسید کرکے جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ جواب پسند نہ آتا تو ایک دو بید مار کے دس پندرہ منٹ اسی پوزیشن میں رہنے کی سزا دی جاتی۔ ٹانگیں شل ہوجاتی تھیں۔ کمر دکھ جاتی۔ پندرہ منٹ بعد مرغا دوبارہ انسان بننے کی اجازت طلب کرتا تو پتا چلتا کہ حکم دینے والا کسی اور مقام پر چھاپا مارنے کے لیے رخصت ہوچکا ہے۔

ہمارا سیکشن اے تھا اور کلاس ٹیچر ماسٹر عبدالشکور تھے۔ سر پر بال کم، داڑھی لمبی اور دبلے پتلے۔ اکثر ملیشیا رنگ کا قمیص شلوار پہنتے تھے۔ وہ انگریزی اسکولوں سے آنے والوں کا مذاق اڑاتے تھے کہ عورتوں سے پڑھ پڑھ کر یہ لڑکے نازک ہوگئے ہیں۔ لیکن ہم سب پڑھائی میں اچھے تھے اس لیے انفرادی سزائیں شاذونادر ہی ملتی تھیں۔ اجتماعی سزا البتہ سب کو بھگتنا پڑتی تھی۔ یعنی اتنا شور کیوں ہورہا ہے؟ سب کن پھڑ لو۔

اس زمانے میں سرکاری اسکولوں میں انگریزی چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی۔ ہم جو اے بی سی ڈی کلاس ون میں یاد کرکے آئے تھے، وہ نوے پچانوے بچوں کے ساتھ چھٹی جماعت میں دوبارہ سیکھنا پڑی۔ البتہ کئی مضامین ایسے تھے جو پہلی بار گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھے۔ عربی ایک سال پڑھی اور میں نے ہر ٹیسٹ میں نوے سے زیادہ نمبر لیے۔ ڈرائنگ سے کوئی دلچسپی نہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ نمبر لیتا رہا۔ فارسی نہیں پڑھ سکا کیونکہ ڈرائنگ، فارسی اور زراعت میں سے ایک مضمون لیا جاسکتا تھا۔

میں چھٹی پڑھ رہا تھا کہ بابا نے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کا تبادلہ کئی ماہ بعد ہوا اس لیے چھوٹے ماموں کراچی سے ہمیں لینے آئے۔ خانیوال سے ٹرین کی برتھیں نہیں مل رہی تھیں چنانچہ ملتان سے بکنگ کروائی۔ خانیوال سے ملتان جانے کے لیے گاڑی کا انتظام کیا۔

میں نے ماموں سے پوچھا، کس تاریخ کی بکنگ کروائی ہے؟ انھوں نے بتایا، 31 مارچ کی۔ میں نے کہا کہ اس دن میرا نتیجہ ہے۔ بابا نے کہا، نتیجہ میں اسکول سے لے کر بھیج دوں گا۔ میں نے ضد کی کہ اس دن اسکول جاؤں گا اور رزلٹ خود سنوں گا۔ لیکن وہ دن آیا تو مجھے امی نے اسکول نہیں جانے دیا کہ گاڑی آنے والی ہے۔ اسکول جاؤ گے تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔

میں اسکول نہیں جاسکا اور مجھے معلوم نہیں ہوا کہ سالانہ امتحان میں کون اول آیا۔ بہت انتظار کے بعد بابا نے اسکول سے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ بھیجا لیکن اس کے ساتھ رزلٹ کارڈ منسلک نہیں تھا۔ آٹھ سال بعد میں خانیوال گیا اور اسکول جاکر ریکارڈ دیکھنا چاہا۔ وہاں کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔

کراچی جاکر میں نے ڈاکٹر بننے کی خواہش ترک کی اور کالج کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کرلیا۔ نوے کی دہائی میں خانیوال کے کئی چکر لگائے لیکن مون سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ ڈاکٹر امین سے ان کے اسپتال جاکر ضرور ملتا رہا۔ 2009 میں خانیوال گیا تو حسب سابق قدم امین اسپتال کی طرف اٹھ گئے۔ اندر داخل ہوا تو ڈاکٹر امین گلے میں اسٹیتھ اسکوپ ڈالے کسی مریض کے لیے نسخہ لکھ رہے تھے۔ میں سلام کرکے بینچ پر بیٹھ گیا۔ ایک لمحے کو سوچا کہ کراچی میں بڑے ماموں کس قدر ضعیف ہوگئے ہیں لیکن ڈاکٹر امین ویسے ہی جوان ہیں۔ پھر حیرت کا جھٹکا لگا کہ جسے میں ڈاکٹر امین سمجھ رہا ہوں، وہ ڈاکٹر وقار امین ہے۔

مون بہت محبت سے ملا اور فہیم بھائی سے ملاقات کروائی جو اب ڈاکٹر فہیم ہیں اور آنکھوں کے اسپیشلسٹ۔ میرے دل میں کئی بار خیال آیا کہ مون سے چھٹی جماعت کے سالانہ نتیجے کے بارے میں پوچھوں لیکن پھر باز رہا۔ یہ تھوڑا سا تجسس باقی زندگی بھی برقرار رہے تو اچھا ہے۔

نہ میں نے ڈاکٹر وقار سے وہ سوال پوچھا اور نہ یہ بتایا کہ کراچی جانے کے ڈیڑھ سال بعد میرا بھائی پیدا ہوا تو میں نے اسے اپنے دوست، کلاس فیلو اور امتحانات میں رائیول کی طرح مون کہنا شروع کردیا۔ نہ یہ بات خاندان میں کسی کو معلوم ہے اور نہ آج تک چھوٹے بھائی کو پتا ہے کہ میں نے اس کا نام مون کیوں رکھا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi