ففتھ جنریشن وار فئیر اور میڈیا کی آزادی


ہم زیادہ دور نہیں جاتے قریب کی مثال لے لیتے ہیں۔ حال ہی میں ہندوستان نے پلوامہ حملے کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی۔ اس سلسلے میں غازی عبدالرشید کی تصویر چھاپ کے ان کو ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ غازی عبدالرشید کون تھا اور اس کو جاں بحق ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا۔ لوگ سمجھتے رہے کہ شاید ہندوستانی اخبار نے غلطی سے شائع کر دیا۔ لیکن یہ ایک پراپیگنڈا تھا جس کے ذریعے مغربی ممالک کو یہ باور کرانا تھا کہ اس حملے کا ذمے دار بھی پاکستان ہے۔

یہ فیک نیوز کا دور ہے۔ فیک نیوز کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ یہ سچ ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ فلاں خبر غلط ہے، پراپیگنڈا ہے۔ ابھی تک لوگوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن زندہ ہے۔ اسی ففتھ جنریشن وار کے ذریعے امریکہ کے گذشتہ انتخابات کو ہیک کیا گیا۔ ہیلری کلنٹن کو بھی فیک نیوز پراپیگنڈے کا سامنا رہا۔ اس سلسلے میں کیمبرج اینیلیٹیکا نے اہم کردار ادا کیا۔ کروڑوں صارفین کا ڈیٹا بیچا گیا لیکن لوگ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر پائے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ہر کلک پر ہماری شناخت دوسرے تک پہنچ رہی ہوتی ہے۔ ہم کہاں ہیں کیا کر رہے ہیں، کس سے مل رہے ہیں، ہماری پسند نا پسند کیا ہے؟ ہمارے رحجانات کیا ہیں یہ سب بھاری قیمت میں بکتے ہیں۔ اور پھر ان معلومات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں ہمارے اداروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ سی پیک کو گزند پہنچانے کے لئے بھی ایسے ہی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں کبھی چائینہ کو پاکستان سے متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ریاست مخالف بیانیہ ترتیب دے کر پاکستان کا نام بلیک لسٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ستم طریفی یہ ہے کہ یہ بیانیہ ترتیب دینے کے لئے لوگوں کو ورغلایا جاتا ہے تو کبھی بھاری معاوضے پر ادارے یا شخصیات بک جاتی ہیں۔ پاکستان کے اندر فرقہ واریت نے سر اٹھایا تو ففتھ جنریشن وار نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ گروہوں کے بیچ باہمی اختلافات، اور شدت پسندی کو ہوا دی گئی۔ ہر ملک کسی نہ کسی نظریے پر قائم ہوتا ہے اور اس کی بقا بھی اسی نظریے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ دشمن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بقا کی اس جنگ میں شکست دی جائے اور اس کا بہترین طریقہ سافٹ پاور کو ملک کے خلاف استعمال کر کے چوٹ پہنچانا ہوتا ہے۔

پاکستان وہ ملک ہے جس کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان ہی اس قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں۔ نوجواں جہاں کسی ملک کی طاقت ہوتے ہیں وہیں اگر دشمن انھیں برین واش کر کے ملک کے خلاف استعمال کر لے تو اس سے بڑی تباہی کوئی نہیں۔ کامیاب یا ناکام لابنگ بھی ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے۔ بین الاقوامی اداروں میں اہم عہدوں پر اپنے من پسند لوگ لگا کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرائی جاتی ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن کا کیس اس کی واضح مثال ہے۔

پاکستان کو براہ راست ہائبرڈ وار کا سامنا ہے پچیس لاکھ سے زائد افغانی گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک میں بس رہے ہیں۔ اس ملک میں ہمارے برادر افغانیوں کی نئی نسل پروان چڑھ گئی۔ اس کے باوجود بارڈر پار سے شر انگیزیاں جاری رہتی ہیں۔ یہاں پر ایسے گروہوں کو منظم کیا جاتا ہے جو بارڈر پار سے ڈکٹیٹ کیے ہوئے خاص مقاصد کے تحت کمپئن کا آغاز کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں ملک تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ہم پہلے ہی آدھا ملک گنوا چکے ہیں۔

کیونکہ اس لڑائی میں حریف توپ ٹینک یا میزائل کا استعمال نہیں کرتا بککہ کسی مہرے کے منہ میں ٹھونسے جانے والے الفاظ اور دماغوں میں گھسیڑے جانے والے خیالات ہی لیتھل ویپن بن کر کسی معاشرے کی جڑوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ داعش کے منظم گروپ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو بہکاتے ہیں اور ترقی یافتہ مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمان لڑکے لڑکیاں بھی ان کے چنگل میں پھنس کر اپنا گھر بار چھوڑ کر ان کے پاس چلے جاتے ہیں۔

آپ اس سے انادازہ کر سکتے ہیں کہ ہائبرڈ وار کا جال کیسے پھیلایا جاتا ہے کہ پہلے ایک وقوعہ ہوتا ہے پھر اس کا ملبہ کسی پر ڈالنے کے لئے باقاعدہ چالیں چلی جاتی ہیں اور میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ممبئی حملے ہوں نائن الیون یا پلوامہ اٹیک۔ حملہ ہوتے ہی بغیر کسی تحقیق کے الزام پاکستان پر لگایا گیا پھر فیک نیوز کا سہارا لیا گیا۔ سوشل میڈیا، ٹی وی، اخبارات میں اپنے حواریوں کے ذریعے دشمن نے طرح طرح کے پینترے بدلے، جال بنے، سازشیں چلیں۔

لیکن اب میڈیا اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی بات کی جا رہی ہے جو خوش آئند نہیں۔ اب ذمے داری ہمارے نشریاتی اداروں پر ہے کہ وہ کیسے اس صورتحال میں اپنی آزادی کو برقرار رکھ پاتے ہیں۔ اس نازک موقعے پر ہمارے نشریاتی اداروں نے ذمے داری کا ثبوت دیا تو جیت ہماری ہے۔ ہمیں اپنی لکھنے اور بولنے کی آزادی کو صحیح طور استعمال کر نا ہے۔ آگے تو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا دور ہے۔ اگلا دور وہ ہے جب انسان کے جسموں میں چپ لگائی جائے گی۔

اقوام تو اس حد تک اپنے شہریوں کی آزادی سلب کرنے کے ارادے باندھ رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں بولنے اور لکھنے کی جتنی آزادی ہے بڑی بڑی جمہوریتوں میں اتنی آزادی نہیں لیکن ہمیں اس آزادی کو سنبھالنا ہے۔ پاکستان کے نشریاتی اداروں، اخبارات، سکالرز، دانشمندوں، صحافیوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کو وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر اپنی آزادی کا استعمال کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ آزادی آپ سے چھین لی جائے گی اور آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah