یوں تو ہے خدا کا شکر واجب۔۔۔۔ مگر کسے ناخدا پکارے


ابا کے انتقال نے ہر طرف سناٹا بکھیر دیا۔ ان کے انتقال کو ابھی کچھ ہی روز گزرے تھے کہ چہلم کے بعد داد رسی کرنے والے سارے عزیز اوقارب ایک ایک کرکے اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔ زندگی کے پچھلے سب باب بند ہوئے اور ایک نئے باب کا آغازہو گیا۔ آئے روز دروازے پر دستک ہوتی تو کسی اجنبی کی آواز سنائی دیتی جو ابا کے انتقال پر افسوس کے بعد مودب انداز سے کسی قرضے یا بقایا جات کی مانگ کر رہا ہوتا۔ اتنا بڑا صدمہ تھا اور اس سے قبل کسی سختی اور دنیاوی زندگی سے لاعلم کہ کسی چیز کا اندازہ نہیں ہو پایا۔

پھر اچانک سے محلے دار اور کچھ عزیز بھی ناگواری سے ملتے۔ ہمارے گھرانے کا شمارکھاتے پیتے گھرانے میں ہوتا تھا آج بھی یاد ہے ابا بینک سے لوٹتے تو پھلوں سے بھرے شاپرز ان کے ہاتھ میں ہوتے ہم گھر کے باہر ان کی آمد کے منتظر رہتے تھے جیسے ہی وہ گلی کے دوسرے کونے پر دکھائی دیتے خوشی سے بھاگتے آوازیں لگاتے ان کی طرف لپکتے اور ہمارے ساتھ تقریبا محلے کے سبھی بچے ان کی طرف بھاگتے کیونکہ ابا نے ہمیشہ سے سب بچوں کو اپنے بچوں کی طرح رکھا شاپر سے پھل نکال کر سب کو بانٹتے جیب سے ایک ایک روپے کے نئے نوٹ نکالتے سب کو دیتے تو سب ہنسی خوشی ہمارے گھر پہنچ جاتے۔

سب سے پہلے پکا گھر اور فریج ٹی وی سمیت دیگر تمام سہولتیں ہمارے گھر پر تھیں۔ مگر اب خاموشی ایسے ہوکے بھرتی کہ جیسے کبھی کسی کا گزر ہی نہ ہوا ہو۔ آہستہ آہستہ گھر کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تو آس پاس سے ماں کی دوسری شادی کی آوازیں آنے لگیں۔ ابا کے بعد ویسے ہی دنیا ویران ہوگی تھی پھر محلے اور رشتے داروں نے سوتیلے باپ کا زائچہ ہی ایسا کھینچا کہ سب کے دل ڈرے ہوئے تھے آخر کار وہ دن بھی آن پہنچا جب اماں کی دوسری شادی ہوگئی اور ابا ان کے گھر رہنے لگے۔

بیٹوں نے ماں کے رشتے کو کہیں نہ کہیں قبول کر لیا مگر دنیا کی باتیں اور خوف ہر روز موت دیتے۔ یتیم گھرانہ اور پھر اب تو شادی بھی دوسری ہو گئی۔ طرح طرح کی باتیں سن کر سب بچوں کے ذہن انتیشار کا شکار ہوگے۔ لو جی دوسری شادی کے بعد گھر کا ماحول عجیب وغریب ہو گیا بڑا بیٹا سوتیلے باپ کو ایک آنکھ برادشت نہ کرتا اور ویسے بھی جو چیزیں اس کے ذہن میں گھر کر گئیں تھیں ان کو نکالنا مشکل تھا۔ آئے روز گھر میں فساد رہتا ہر وقت کی لڑائی سے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوئی۔ قیامت تو اس دن بیتی جب لاڈلا بیٹا نشے کا عادی ہو کر گھر میں عذاب برپا رکھتا۔

بیٹیاں جواں ہوتیں گئیں اماں سے جب بھی کسی نے دوسری شادی کا پوچھا تو اماں کا جواب ملا بچوں کو بھوکا نہیں مار سکتی تھی کسی سہارے کی ضرورت تھی اور کچھ نہیں تو اب بچے دو ٹائم کا کھانا تو کھاتے ہیں۔ اماں بیٹے اور دوسرے شوہر کی لڑائی میں پس کر رہ گئی المناک صورتحال تو تب بنی جب بچوں کو روٹی کھلانے والا بیٹیوں پر بری نظر رکھنے لگا۔ بس اس دن سے ایک ہولناک کہانی کا آغاز ہوا۔ بیٹا پہلے ہی بری دوستیوں میں تھا اب بیٹیوں کو نوچنے گھر کا رکھوالا بھی تیار تھا بے بسی اور خوف نے زندگی میں نفرت بھر دی۔

سارا سارا دن خوف کے مارے کبھی کسی کے گھر تو کبھی کسی کے گھر۔ روٹی کا نوالہ حلق سے نیچے نہ اترتا پڑھائی تو ویسے ہی کھٹائی میں پڑ چکی تھی معاشرتی تعلق ختم تھا۔ بے بسی کی زندگی تھی مگر کہنے سننے والا کوئی نہ تھا اماں شوہر کے خلاف بات سننے کو تیار نہ تھی ہوتی بھی کیسے اب تو ان کے اپنے اور بچے بھی ہو چکے تھے سب سے زیادہ تو ان کی فکر تھی۔ وقت گزرتا گیا محرومیاں سختیاں نفرتیں سب زندگی کا حصہ بنیں لوگ اپنے بچوں کو ہمارے ساتھ کھیل کود سے بھی منع کرتے تھے آس پڑوس میں کسی کی شادی ہوتی تو سارا محلہ جمع ہوتا ہم چھت پر چوری چوری ان کے گھر میں انے والی دلہن یا دولہے کو دیکھ کر خوش ہوتے بچے تھے مگر ناسمجھ نہیں۔

ہر چیز دل میں چبھتی تھی۔ پھر زندگی میں کچھ کر دکھانے کی ہمت ہوئی اور کامیابیوں کا سفر بھی۔ آہستہ آہستہ پھر سے لوگوں کی نظر میں معتبر بنے۔ دوسرے شہر منتقل ہوئے تو پرانے محلے دار اور عزیز کسی نہ کسی کام کے لیے دعاوں کے ساتھ تشریف لاتے۔ بڑی بہادرانہ انداز میں بیٹیوں کو رشک کی نظر سے دیکھتے اور ابا کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع ہو جاتے مگرماضی میں ان کے روایوں نے کیا ستم کیے وہ یاد اتے تو ان کا پیار دھوکا اور پھیکا پڑ جاتا۔ مگر باپ کی تربیت تھی کہ سب سہہ کر خاموشی سے مسکراتے رہے اج اللہ نے زندگی میں وہ سب کچھ دیا، جس کے طعنے ملتے تھے اور لوگوں نے جس بنیاد پر کنارہ کشی کی تھی اپنے آس پاس بسنے والوں کو انسان جانیے ورنہ وقت گزرنے کے بعد اللہ تعالی سب کچھ آپ کے منہ پر دے مارتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).