شعبہ تعلیم پر توجہ لازم ہے !


ہمارے ہاں شعبہ تعلیم سے متعلق معاملات اکثر زیر بحث آتے رہتے ہیں۔ مگر اس بار سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد نے اس جانب توجہ دلائی ہے۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران جج صاحب کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں بے تحاشا جامعات کھل چکی ہیں۔ جہاں ڈگریاں بیچی جا تی ہیں۔ شعبہ تعلیم تباہ اور نئی نسل برباد ہو رہی ہے، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جسٹس گلزار نے ان معاملات میں حکومتی عدم توجہی پر اظہار خفگی کرتے ہوئے، اٹارنی جنرل اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے جواب طلب کر لیا ہے۔

جسٹس گلزار نے بالکل د رست فرمایا۔ ہمارا شعبہ تعلیم واقعتاً زوال پذیر ہے۔ مگرارباب اختیار اس جانب اپنی توجہ مبذول کرنے اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم تو رہی ایک طرف، اسکول ایجوکیشن کا حال بھی انتہائی ابتر ہے۔ قیام پاکستان کو ستر برس بیت چکے ہیں، مگر تاحال ہم پرائمری تعلیم کا سو فیصد ہدف حاصل نہیں کر سکے۔ ہر چند سال بعد حکومتی سطح پر نئے نئے منصوبے متعارف ہوتے ہیں، کروڑوں اربوں روپے کا بجٹ مختص ہو تا ہے۔ اس بجٹ کا بیشتر حصہ خرچ بھی ہو جاتا ہے مگر نتیجہ صفر۔ نہایت روایتی سی بات ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ تعلیم کبھی بھی ہماری اولیں ترجیح نہیں رہی۔ کہنے کی حد تک ہر حکومت اور سیاسی جماعت شعبہ تعلیم کی اصلاح احوال کو اپنی ترجیح اول قرار دیتی ہے۔ اس ضمن میں بلند بانگ وعدے کیے جاتے ہیں۔ مگرجب عملی اقدامات کرنے کا وقت آتا ہے تو ترجیحات بدل جاتی ہیں۔

اب ایسا بھی نہیں ہے کہ شعبہ تعلیم میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہت سے معاملات میں ہم آگے بڑھے ہیں۔ ہم نہایت فخر سے بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں صرف دو یونیورسٹیاں تھیں۔ اب ان کی تعداد بڑھ کر 195 ہو چکی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 2002 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام سے پہلے محض چند سو تحقیقی مقالے شائع ہوسکے تھے۔ اب یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے اور مزید بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

ہماری جامعات دھڑا دھڑ ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز پیدا کر رہی ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کہنے کی حد تک شرح خواندگی میں بھی بہتری آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مسئلہ تعداد نہیں بلکہ معیار کا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہم نے اپنی تمام تر توجہ تعلیمی اداروں، ڈگریوں اور مقالاجات کی تعداد بڑھانے کی جانب مبذول رکھی، مگر معیار کا پہلو نظرانداز کیا۔

اگرچہ اس ضمن میں تعداد کا بڑھنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ مگر اس تعلیم کا کیا فائدہ جو طالب علموں کی قابلیت اور استعداد کار میں اضافہ نہ کر سکے۔ ایسی ڈگری کی اہمیت محض کاغذ کے ایک پرزے جیسی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ہزاروں (اور شاید لاکھوں) ایسے ڈگری یافتہ نوجوان موجود ہیں۔ مسلسل کئی برس سے سی۔ ایس۔ ایس کے امتحانی نتائج ہماری توجہ اس افسوسناک صورتحال کی جانب مبذول کرواتے ہیں۔ ہر سال کم و بیش دس ہزار امیدوار امتحان دیتے ہیں مگر کامیاب صرف تین چار سو امیدوار ہوتے ہیں۔ کئی سال سے یہی معاملہ دیکھنے میں آتا ہے۔ سابق چیئرمین ایچ۔ ای۔ سی ڈاکٹر مختار احمد نے اس صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ مگر اس کی رپورٹ سامنے نہیں آسکی۔ موجودہ چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے بھی سی۔ ایس۔ ایس 2018 کے ناقص نتائج کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی قائم کر نے کا اعلان کیا تھا۔ عام طور پر ایسی کمیٹیوں کی رپورٹیں اور تجاویز کاغذی کارروائی تک محدود رہتی ہیں۔

ا سی طرح اپریل 2018 میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین نے بھی گورنر پنجاب (صوبے کی جامعات کے چانسلر) کو خط لکھ کر جامعات کے ناقص معیار تعلیم پر اپنی انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کہنا ان کا یہ تھا کہ لیکچرار اور اسسٹنٹ پروفیسرز کے عہدے کے لئے آنے والے بیشتر امیدوار، جو ایم فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی ڈگری کے حامل ہوتے ہیں، اپنے مضمون سے متعلق بنیادی معلومات تک نہیں رکھتے۔ بہت سے امیدوار اپنے مقالہ جات کے موضوعات سے بھی مکمل لاعلم ہوتے ہیں۔ چیئرمین پبلک سروس کمیشن نے واضح طور پر لکھا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ ایم فل اور پی۔ ایچ۔ ڈیز کے مقالاجات مختلف اکیڈمیوں میں بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔

اس خط کے بعد اس وقت کے گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے پنجاب کی تمام جامعات کے وائس چانسلرز کو ہدایت کی تھی کہ معیار تعلیم کی بہتری کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ مگراس حوالے سے کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ آج بھی ہماری یونیورسٹیوں کے معاملات ویسے ہی ہیں جیسا کہ خط میں نشاندہی کی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ناقص معیار تعلیم کے ساتھ ہم چاہتے یہ ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے، جامعات کی عالمی درجہ بندی میں جگہ پائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ دیگر ممالک میں ہماری ڈگریوں کو تسلیم کیا جائے اور اہمیت دی جائے۔

تحریک انصاف کے جماعتی اور انتخابی منشور میں تعلیمی اصلاحات کا ذکر خاص طور پر موجود ہے۔ عمران خان بر سر اقتدار آئے تو امید بندھی تھی کہ تعلیمی معاملات میں بہتری آئے گی۔ اس حکومت کے قیام کو ایک سال ہونے والا ہے، تاہم ابھی تک اچھی خبریں سننے کو نہیں ملیں۔ اگر صرف گزشتہ دو ہفتوں کے اخبارات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تعلیمی معاملات مشکلات کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر کئی ماہ سے اسلام آباد میں سات سو سے زائد بے روزگار پی۔ایچ۔ ڈی ڈگری ہولڈرز سراپا احتجاج ہیں۔ مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ لاہور میں صوبے بھر کے کالج اساتذہ دھرنا دیے بیٹھے ہیں، مگر ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ کراچی میں سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں اور جیلوں کی ہوا کھا رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں سرکاری ایجنسی نے 21000 گھوسٹ طالب علموں اور درجنوں گھوسٹ اسکولوں کا انکشاف کیا ہے۔ یاد رہے کہ ان اسکولوں اور طالب علموں پر سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو بیرون ملک کانفرنسوں میں شرکت کے لئے دی جانے والی گرانٹ بند کر دی ہے۔ صوبائی حکومت نے پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کو دیے جانے والے فنڈز روک دیے ہیں۔ یہ صرف چند تازہ خبریں ہیں۔ ایسی خبروں اور حالات کے ساتھ شعبہ تعلیم میں بہتری کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے؟

یہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ تعلیم کے شعبہ پر فوری توجہ مرکوز کی جائے اور اس میں بہتری لائی جائے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم کی سربراہی شفقت محمود جیسے پڑھے لکھے شخص کے ہاتھ میں ہے۔ پنجاب میں تعلیم کی دونوں وزارتیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے پاس ہیں۔ وفاقی سطح پر ایک ٹاسک فورس بھی قائم کر دی گئی ہے جو ملک بھر میں تعلیمی اصلاحات کے لئے کام کرئے گی۔ ا ب جبکہ جسٹس گلزار احمد نے ہمیں تعلیم کی ابتر صورتحال کی جانب توجہ دلائی ہے اور حکومت سے جواب طلب کیا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ شعبہ تعلیم میں بہتری لانے کے لئے فوری اقدامات ہوتے نظر آئیں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنا چاہتے ہیں، تو شعبہ تعلیم پر توجہ دینا ہو گی۔ نظام تعلیم کو بہتر بنانا ہو گا اور خاص طور پر معیار تعلیم کی بہتری کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

(بشکریہ روزنامہ نئی بات)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).