کیا آپ نے جدید سائنس کی کوئی کرامت دیکھی ہے؟


فاطمہ کا کل نیوفن لینڈ سے فون آیا

’ڈاکٹر سہیل! مونا کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ ہم نے اس کا نام‘ نور ’رکھا ہے‘

فاطمہ کی آواز اور لہجے میں مسرت ’انبساط اور شادمانی کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔

’مبارک ہو۔ اب آپ نانی بن گئی ہیں۔ لڈو کب کھلائیں گی؟ ‘

’آپ تو مونا کے سہیل چاچا ہیں۔ جب چاہیں آ جائیں اور لڈو کھا لیں‘

***     ***

جب میں نیا نیا کینیڈا کی میموریل یونیورسٹی میں نفسیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آیا تو شہرِ سینٹ جانز میں صرف دو پاکستانی خاندان تھے۔ میرے آنے کے بعد اڑھائی ہو گئے کیونکہ میں اکیلا تھا۔

ایک ویک اینڈ پر ڈاکٹر نذیر کا فون آیا کہ آپ ہمارے ساتھ شام کا کھانا کھائیں۔ میں نے کہا میں ایک غریب الدیار طالب علم ہوں میرے پاس کار نہیں اس لیے بے کار ہوں۔ ڈاکٹر نذیر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں آپ کو لے بھی جاؤں گا اور چھوڑ بھی جاؤں گا۔

اس شام ڈاکٹر نذیر نے نہ صرف ڈنر کھلایا بلکہ اپنی شریکِ حیات فاطمہ سے تعارف بھی کروایا۔ ڈاکٹر نذیر کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ فاطمہ ایک گجراتی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر نذیر اب کئی برسوں سے ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن ان دنوں وہ نیوفن لینڈ حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔

فاطمہ ایک خوش مزاج خاتون تھیں، ہر وقت ہنستی ’کھیلتی‘ مسکراتی رہتیں لیکن جب میں نے انہیں قریب سے دیکھا تو جانا کہ اس خوشی کے درپردہ ایک دکھ تھا، ایک کرب تھا اور ایک دھیمی دھیمی اداسی تھی۔ تب مجھے اندازہ ہوا

ایک عورت جو مسکراتی ہے

اس کی غمگیں بہت کہانی ہے

اور وہ غمگیں کہانی یہ تھی کہ فاطمہ کئی سال سے کوشش کر رہی تھیں کہ ماں بن جائیں لیکن انہیں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب وہ بالکل مایوس ہو چکی تھیں۔

جب میں ماہرِ نفسیات بن کر شہر چھوڑ کر جا رہا تھا تو میں نے فاطمہ کا شکریہ کرتے ہوئے انہیں ایک ماں اور بچے کی پینٹنگ تحفے کے طور پر دی تھی۔ فاطمہ اسے دیکھ کر آبدیدہ ہو گئی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ وہ پینٹنگ ان کے لیے میری ایک سیکولر دعا ہے۔

ایک سال بعد ڈاکٹر نذیر میرے شہر میں ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے آئے۔ ہم جب ڈنر کھا رہے تھے کہ ڈاکٹر نذیر نے کہا کہ فاطمہ کو الٹیاں ہو رہی تھیں۔ ڈاکٹر نے جب پوچھا کہ آپ حاملہ تو نہیں ہیں تو فاطمہ زور زور سے ہنسیں اور کہا کہ بچے پیدا کرنے کا دور گزر چکا ہے۔ ڈاکٹر نے پھر بھی ٹیسٹ کیا تو فاطمہ حاملہ نکلیں۔ ڈاکڑ نذیر اور فاطمہ بہت خوش تھے۔ میں نے ڈاکٹر نذیر کو مبارکباد دی اور لڈو کھلائے۔

فاطمہ بہت خوش تھیں لیکن یہ خوشی زیادہ عرصہ برقرار نہ رہی جب ڈاکٹر نے چھ ماہ کے وقت الٹرا ساؤنڈ دیکھ کر بتایا کہ بچی ویسے تو صحتمند ہے لیکن اس کے پیٹ کی دیوار غائب ہے۔ اس خبر نے فاطمہ کی آس پر اوس ڈال دی۔

فاطمہ کچھ عرصہ بہت پریشان رہیں پھر ڈاکٹر کینیڈی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بچی کو ڈیلیور کر کے چند ماہ ایک انکیوبیٹر میں رکھا جائے اور سرجری سے بچی کی ABDOMINAL WALL بنائی جائے۔ یہ ایک خطرناک منصوبہ تھا لیکن اس کے سوا بچی کی جان بچانے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

چنانچہ بچی پیدا ہوئی اس کا نام محمودہ رکھا گیا اور اسے ایک INCUBATOR میں زندگی کے پانچ ماہ رہنا پڑا۔

وہ بیس ہفتے فاطمہ کے لیے بہت سخت تھے۔

وہ ایک بڑی آزمائش تھی۔ فاطمہ کی جان بچی میں اور بچی کی جان مشینوں میں اٹکی ہوئی تھی۔

فاطمہ گھنٹوں بیٹی کے پاس بیٹھی رہتیں۔

کبھی بچی کا درجہ حرارت بڑھ جاتا کبھی گھٹ جاتا

کبھی بچی کا فشارِ خون اوپر ہو جاتا کبھی نیچے

کبھی اسے اینیمیا ہو جاتا کبھی یرقان

بچی نے ان چند مہینوں میں کئی دفعہ موت سے سرگوشی کی

ڈاکٹر کینیڈی نے ان گنت آپریشن کیے اور بچی کے پیٹ کی دیوار پلاسٹک سرجری سے بنائی۔

جب بچی صحتمند ہو کر گھر آئی تو فاطمہ نے خدا کا شکر اور میں نے ڈاکٹر کینیڈی کا شکریہ ادا کیا۔

محمودہ بڑی ہوئی تو وہ ایک ہنستی ’کھیلتی‘ چہکتی خوش مزاج بچی تھی۔ اس نے مجھے سہیل چاچا کہنا شروع کیا۔

ایک دن محمودہ رو رہی تھی میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی سب بچوں کے پیٹ میں ’تنی‘ ہے لیکن میرا BELLY BUTTON غائب ہے۔ میں نے اسے گلے لگا کر تسلی دی اور سرخ سیاہی سے ایک بیلی بٹن بنا دیا۔

ایک دن محمودہ کہنے لگی میرا نام مونا ہے۔ اس کے بعد سب نے اسے مونا کہنا شروع کر دیا کیونکہ اس کے لیے محمودہ کہنا مشکل ہو رہا تھا۔

فاطمہ ایک دفعہ پھر حاملہ ہوئیں اور ایک صحتمند بیٹا پیدا کیا جس کا نام عمر ہے۔

ایک شام فاطمہ کا فون آیا۔ بہت پریشان تھیں۔ کہنے لگیں کئی دنوں سے نیند نہیں آئی۔ میں اور نذیر ہوائی جہاز سے پاکستان جا رہے ہیں۔ اگر جہاز کا حادثہ ہو گیا اور ہم دونوں فوت ہو گئے تو بچوں کا کیا ہوگا۔ کہنے لگیں وہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں آپ کو سہیل چاچا کہتے ہیں۔ کیا آپ ان کا خیال رکھیں گے؟ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کیوں نہیں وہ میرے بچوں کی طرح ہیں۔ اگلے ہفتے ڈاکٹر نزیر نے فون ہر بتایا کہ فاطمہ نے بیس لوگوں کی فہرست بنائی تھی اور ہر روز ایک نام کاٹا تھا۔ آخری نام ڈاکٹر سہیل کا تھا۔ مجھے فاطمہ کے مجھ جیسے درویش پر اعتماد پر حیرانی بھی ہوئی اور خوشی بھی۔

وقت گزرتا گیا۔ بچے جوان ہو گئے۔

عمر ایک ڈاکٹر بن گیا ہے اور مونا ایک FINANCIAL ANALYST۔ اب کینیڈین ٹی وی پر اس کے انٹرویو دیکھ کر ہمیں فخر ہوتا ہے۔

دو سال پیشتر مونا کا فون آیا۔ سہیل چاچا آپ میری شادی پر ضرور آئیں۔ اور میں نے اس کی شادی میں شرکت کی جہاں بہت سے بچھڑے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔

میری نگاہ میں مونا جدید طب اور سائنس کی ایک کرامت ہے اور ڈاکٹر نذیر اور فاطمہ کا خاندان ایسا خاندان ہے جسے میں اپنا FAMILY OF THE HEART کہتا ہوں۔

کل فاطمہ کا نیوفن لینڈ سے فون آیا

’ڈاکٹر سہیل مونا کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے ہم نے اس کا نام‘ نور ’رکھا ہے

فاطمہ کی آواز اور لہجے میں مسرت ’انبساط اور شادمانی کی گھنٹیاں بج رہی تھیں

مبارک ہو اب تو آپ نانی بن گئی ہیں لڈو کب کھلائیں گی؟

’آپ تو مونا کے سہیل چاچا ہیں۔ جب چاہیں آ جائیں اور لڈو کھا لیں۔ ‘

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail