سیاست کا اینٹی ہیرو اور بکاؤ صحافت


موسم بدل رہا ہے، اس سادہ جملے سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ سردی ختم ہو چکی اور گرمی کی آمد آمد ہے۔ یہاں موسم کی جس تبدیلی کی طرف اشارہ ہے، وہ قومی تمثیل کے پہلے سے لکھے ہوئے اسکرپٹ کا اگلا ایکٹ ہے۔ کھیل کا ایک حصہ ختم ہوا۔ پردہ گر چکا۔ پردے کے پیچھے کرسیاں گھسیٹے جانے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ نئے منظر کا سازوسامان طے شدہ مقامات پر رکھنے والے اہل کاروں کے قدموں کی دھمک سنائی دے رہی ہے۔ دو مناظر کے درمیانی وقفے میں ناظرین کو اکتاہٹ سے بچانے کے لئے لمبوتری ٹوپیوں، گھنی مونچھوں اور روئی سے بنی داڑھیاں چہروں پر سجائے سستے مسخروں کا طائفہ اسٹیج کے اگلے حصے پر نمودار ہو گیا ہے۔ آپ نے گزشتہ برسوں میں بکاؤ صحافی کی اصطلاح بار بار سنی ہو گی۔ مسخروں کا یہ ٹولہ ہی بکاؤ صحافت کا اصل اثاثہ ہے جو رنگ ماسٹر کے ایک اشارے پر بہروپ بدل لیتا ہے۔ ان میں سے کوئی تماشے کے مرکزی کردار کو بادشاہ سلامت کہا کرتا تھا۔ کوئی گتے سے بنے تخت کے عقب میں کھڑا ہو کر مورچھل ہلایا کرتا تھا۔ کوئی ولایت سے فتوحات کا سندیسہ لاتا تھا اور فرشی سلام کرتے ہوئے پٹے کے ہاتھ دکھاتا تھا۔ دوسروں پر بکاؤ صحافت کی پھبتیاں کسنے والے ان مسخروں کی حروف منڈی کے حصص کبھی نہیں گرتے کیونکہ ان کی ذاتی سرمایہ کاری صفر ہے۔ یہ قوم کے مستقبل کی بے نامی خرید وفروخت میں اپنا حصہ وصول کرنے والے ہیں۔ ایک جنس کا بازار مندا ہو جائے تو چھابڑی پر نیا سودا سجا لیتے ہیں۔

انگریز بہادر کا سورج چمکتا تھا تو یہ سرکار انگلشیہ کی برکات لکھا کرتے تھے۔ انگریز چلا گیا تو یہ تحریک پاکستان کے مخلص مگر گمنام کارکن کہلائے۔ پاکستان کے حروف میں ک کو کشمیر سے تعبیر کرنے والے اب حیدآباد اور جوناگڑھ کا نام نہیں لیتے۔ 1946 میں بہار کے مظلوم مسلمانوں پر آنسو بہانے والے اب ڈھاکہ کی جھونپڑ پٹی میں پڑے بہاریوں کا ذکر کرنے کے بھی روادار نہیں۔ ان قلم فروشوں نے ون یونٹ کے فوائد گنوائے۔ بنیادی جمہوریت کے گن گائے، صدر ایوب کے ہاتھ مضبوط کرنے کی تلقین کی۔ ایوب خان کی صحت اور ساکھ بگڑ گئی تو یہ سوشلسٹ ہو گئے۔ ہوا کا رخ بدلا تو اسلامی سوشلزم کا چولا پہن لیا اور ہمیں بتایا کہ بانیان پاکستان کا نصب العین تو اسلامی سوشلزم ہی تھا۔ ضیاالحق کی رونمائی ہوئی تو ان پرچہ نویسوں نے سوشلزم اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور اسلام کی دست فروشی کرنے لگے۔ سرخی جمائی گئی، “پہلے احتساب، پھر انتخاب”۔ پھر پرچہ لگا “افغان باقی، کوہسار باقی”۔ فرقہ واریت کی ایسی گنجلک تفسیریں بیان کی گئیں جو صدیوں سے اسلام پر عمل پیرا معصوم مسلمانوں کے لئے بھی اجنبی تھیں۔

ضیاالحق کے گیارہ برسوں میں کشمیر کا نام تک نہیں لیا گیا لیکن 1989 میں معلوم ہوا کہ پاکستان میں سیاست، معیشت اور معاشرت کے سب دھارے کشمیر سے متعین ہوں گے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی دس سالہ کشمکش میں جمہوریت کو ڈھال بنا کر مخالفین پر چاند ماری کرنے والوں نے اچانک دریافت کیا کہ قوم تو نصف صدی سے اس سانحہ فاجعہ کی جستجو میں تھی جو کارل مارکس کے برعکس کتاب نہیں بلکہ دو کتے بغل میں لئے نمودار ہوا۔ اکتوبر 1999ء کے اخبارات اٹھا کر بکنے یا جھکنے سے انکار کرنے والوں کی نگارشات دیکھئے۔ جمہوریت اغوا ہو جائے تو قوم کی عفت مشکوک ہو جاتی ہے۔ اس تزلزل کا نشان وہ کالم تھے جو ہمارے اہل نظر نے مشرف آمریت کی حمایت میں سپرد قلم کئے۔ اب کسی کو یارا نہیں کہ دبئی کے ہسپتال میں صاحب فراش مشرف کے حق میں دو بول کہے۔ تھالی کے بینگن کا محاورہ ایسا ٹھیک بیٹھتا ہے کہ بینگن کو ہماری قومی سبزی قرار دینا چاہیے۔

2008 ایک بری خبر لے کر آیا۔ جنہیں سیاست سے ہمیشہ کے لئے بے دخل کرنے کا اعلان کیا تھا، وہ گرتے پڑتے اقتدار میں پہنچ گئے۔ اگلے دس برس ہم نے جمہوریت کی نوحہ گری کی اور جملہ اجتماعی خرابیوں کا مداوا عمراں خان نامی ایک غیر معمولی ہستی میں دریافت کیا۔ قومی المیے کی تمثیل لکھنے والوں نے اپنے ہنر کو صیقل کر کے ہیرو کی بجائے اینٹی ہیرو کا انتخاب کیا۔ عمران خان جبلی طور پر سیاست سے نفور کرتے ہیں مگر سیاست دان ہیں۔ انہیں جمہوری اقدار اور شعائر سے تعلق نہیں مگر انتخاب لڑ کر ایوان اقتدار میں داخل ہوئے ہیں۔ عمران خان کے دہن مبارک سے کبھی آئین کی بالادستی کا کلمہ سنائی نہیں لیکن انہوں نے آئین کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے۔ وہ پرانی سیاست کو یکسر رد کرتے ہیں لیکن پرانی سیاست کے حقیقی نمائندے ان کے یمین و یسار میں جگمگا رہے ہیں۔ اب تو انہیں ایم کیو ایم میں نفاست کے آثار بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔

اینٹی ہیرو کسے کہتے ہیں؟ اینٹی ہیرو داستان کے بیانیے پر حرف بحرف یقین رکھتا ہے لیکن اس سے انکار میں اپنی ذات کا اثبات سمجھتا ہے۔ ہماری روایت میں ملامتی صوفی کا ایک تصور بھی ملتا ہے۔ ملامتی صوفی ظواہر کو رد کرتا ہے اور نیکی کی حقیقت پر کاربند ہوتا ہے۔ اینٹی ہیرو اقدار کی اخلاقی توانائی سے انکار کرتا ہے لیکن ظواہر کی پابندی کرتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی لڑائی اینٹی ہیرو اور ملامتی صوفی میں کشمکش پر آ ٹھہری ہے۔ یہ لمبا جھگڑا ہے۔ دو چار برس میں طے ہونے کا نہیں۔ فی الحال آپ نوٹنکی کے ان مسخروں کا تماشا کیجئے جنہیں آج کل اسد عمر، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری میں عیب نظر آنے لگے ہیں لیکن وہ یہ سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے کہ برسوں تک اینٹی ہیرو کو پہچاننے میں ناکام رہنے پر ان کی اپنی فراست اور بصیرت کو کیا نام دیا جائے۔ عمران خان آج وزیر اعظم ہیں۔ جب عمران خان وزیراعظم نہیں ہوں گے تو تحریک انصاف نام کی جماعت بھی کہیں نظر نہیں آئے گی۔ نوٹنکی کی رونق بڑھانے والے البتہ بہروپ بدل بدل کر نظر آتے رہیں گے۔ یہ وہ جنس ہے جس کے حصص کا بھاؤ کبھی نہیں گرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).