اللہ نصیب اچھے کرے


بیگم نے کہا اچھا ہوا، یہ اسی قابل ہے، بیٹھے بیٹھے میری ٹانگیں بھی سو گئیں تھیں، میں نے ہلا کر چیک کیں اور شکر ادا کیا۔ ڈرامے میں آگے دکھایا گیا کہ چھ مہینے بعد احمد کی ماں اُسے پانی میں روٹی بھگو کر کھلارہی ہے جبکہ مریم کی پروموشن ہوگئی ہے۔ شایدڈراموں کی تاریخ میں پہلی بار دکھایا گیا کہ پی این پی یعنی دو تصاویر ایک ساتھ، ایک جانب مفلوک الحال احمد ہے جبکہ دوسری جانب آسودہ حال مریم اور آخر میں ایک آیت کا ترجمہ بھی لکھا ہوا دکھایا گیا۔

بیگم نے قرآنی دلیل کے بعد مجھے یوں دیکھا کہ میں کہہ دوں کہ میں نہیں مانتا اور وہ مجھے کافر قرار دے دے۔ میں منمنایا کہ اچھا ہوا ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بیگم کو یقین تھا کہ میں دل سے نہیں کہہ رہا ہے، محترمہ نے لمبا ہوکا یعنی سانس بھرا اور کچن میں چلی گئیں اور میں نے سکھ کا سانس لیا۔ آپ یقینا سمجھ رہے ہوں گے کہ ہیرو یعنی وولن کافی ذلیل و خوار ہوا ہے۔ لیکن ابھی تھوڑی کسر رہ گئی۔ مثلاًابھی شاید ہماری مصنفہ کے ذہن میں نہیں رہا یا شاید وقت کی کمی کے باعث ایسا ہوا ہو۔

ورنہ احمد مزید عبرناک انجام کو پہنچتا کہ جیسے ایکسیڈنٹ کے بعد ہسپتال میں ڈاکٹر بتاتا کہ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ اپنی جگہ لیکن ٹیسٹ سے پتہ چلا ہے کہ احمد کو تو آخری اسٹیج کا کینسر بھی ہے اور شوگرسے لاعلمی کے باعث اُسکے دانت بھی گر گئے ہیں۔ دماغ میں چوٹ کی وجہ سے اب احمد کبھی بول نہیں سکے گا اور آہستہ آہستہ بینائی ختم ہو جائے گی۔ جس گاڑی سے ٹکرایا تھا اُسکے دھوئیں کے زیرِ اثر احمد کے سارے پھیپھڑے ناکارہ ہو چکے ہیں اور ایک گردہ پھٹ چکا ہے۔ دل کے سارے والز بند ہوگئے ہیں اور جبکہ دل کی والز یعنی دیواریں گر چکی ہیں۔ آخر احمد نے ایک معصوم دل، نیک صفت ہیروئین پہ مظالم ڈھائے تھے۔ توبہ ہے یار۔

اس ساری اضطرابی کتھا سے میں خود بھی بور ہوگیا ہوں۔ قصہ مختصر یہ کہ جیسے محلے کی کوئی بی بی سی قسم کی عورت کسی اورگھر کے مسائل آپ کے گھر میں آکر سناتی ہے تو بیگم اُنہی بنیادوں پہ اپنے گھر کا جائزہ لینے لگتی ہیں۔ اس عمل کو عرفِ عام میں پھاپھے کٹنی کے عنوان تلے رکھا جاتا ہے۔ خدارا ڈرامے کو ڈرامہ رہنے دیں اتنے مظالم تخلیق نہ کریں کہ صرف نفرتیں باقی رہ جائیں۔ دنیا بھری پڑی ہے نئی کہانیوں سے، پلیزنئے موضوعات دریافت کریں۔

اڑتالیس فیصد ناظرین کے لئے پہلے ہی ڈرامہ نہیں بن رہا، رہی سہی کسر یہ کہ سب کردار بد کردار اورصرف ہیروئین ہی عظیم، یعنی ڈرامہ مزید ویورز بھی کھو دے گا۔ اگر ہم ذمہ دار ڈھونڈنے نکلیں تو وہ بھی نہیں ملے گا، مصنفہ یا مصنف کہے گا کہ ہدایتکار نے کہا ہے، ہدایتکار کہے گا، پروڈیوسر کی ہدایت ہے، پروڈیوسر کہے گا کہ چینل کی ڈیمانڈ ہے، چینل کہے گا لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اور لوگ کہیں گے کہ ہمیں تو جو دکھایا جائے گا۔

خدارا رحم کریں کہانی پہ خواتین مصنف فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین اور بانو قدسیہ جیسی بڑی اور بہترین لکھاریوں کی وارث ہیں، خود کو وارث بھی ثابت کریں۔ لیں جی دو بار وارث کا ذکر آگیا، اس شہرہ آفاق ڈرامے کو ہم نے صرف تقاریر اور میٹنگز تک رکھا ہوا ہے۔ خیر جب تک ذمہ داروں کو ہوش نہیں آتا ڈرامے دیکھنے والوں سے گزارش ہے کہ ٹی وی ڈرامہ کی پہلی قسط میں ہیروئین پہ پہلی نظرپڑتے ہی دعا کریں کہ اللہ
نصیب اچھے کرے، نہ جانے آگے اُسکے ساتھ کیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2