پاکستانی معیشت کا عرشہ اور کیبن


ویسے تو مہنگائی کے اعتبار سے ہر رمضان ہی پاکستانی روزہ داروں پر بھاری ہوتا ہے مگر یہ رمضان کچھ زیادہ ہی بھاری ہو سکتا ہے۔ ایک ماہ پہلے ہی پھلوں سبزیوں اور خشک راشن کی قیمت میں اوسطاً تیس سے چالیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ رمضان میں اسے دگنا فرض کر لیں اور پھر دیکھیں کہ صبر و ضبط اور تزکیہِ نفس کے کون کون سے نئے پہلو آزماتے ہیں۔

ہر برس مہنگائی میں اضافے کے لیے نئے حیلے سامنے آتے ہیں۔ اس برس کا بہانہ ہے ڈالر اور پٹرول کی قیمت میں اضافہ۔ مگر بھنڈی اور چقندر بھی منہ مانگے دام ایسے دستیاب ہے گویا ڈالر دے کر درآمد کیے گئے ہوں اور پانی کے بجائے پٹرول سے آبیاری ہوئی ہو۔

مگر یہ آج کی معاشی تصویر کا ایک بہت چھوٹا سا پہلو ہے۔ تصویر کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو یہی لکھنا کافی ہوگا کہ معیشت کے جہاز کو بے یقینی کا سونامی اچھال رہا ہے اور قطب نما ساکن ہے۔ ایسا نہیں کہ سب اچانک سے ہوا ہے۔ سب کو بہت برس سے اندازہ تھا کہ جہاز جس طرف جا رہا ہے ادھر چٹانیں ہی چٹانیں ہیں مگر ہر کسی نے یہی سوچ کر بادبان کا رخ نہیں موڑا کہ اللہ مالک ہے۔

آج اگر کسی کو بس ہرا ہی ہرا سوجھ رہا ہے تو وہ وزیر خزانہ اسد عمر ہیں۔ ان کی معاشی کورئیو گرافی بڑے بڑے اقتصادی پنڈت دانتوں میں انگلیاں دبائے ٹکر ٹکر دیکھ رہے ہیں اور بنا پلکیں جھپکائے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے کہ رقص کا یہ کون سا بھاؤ اور نرت ہے۔ بھارت ناٹئیم، جھاؤ، کتھا کلی، بھنگڑا، مون واک، ٹوئسٹ، ڈسکو کہ سالسا۔ یا پھر ان سب کے ملغوبے سے رقص کی کوئی ایسی قسم وجود میں لائی گئی ہے کہ جو اب تک کسی نے دیکھی نہ سنی۔ آئی ایم ایف کے پاس جاؤں نہ جاؤں دھا دھن دھن دھا، چین سے اسی کی شرائط پر اور قرض اٹھا لوں کہ نہ تگڑڑ تگڑ، دھڑ دھڑ دھا دھم۔ سعودیوں اور اماراتیوں سے تیل۔ ڈھنچک ڈھنچک تڑاڑاڑاتڑ۔ غرض پاؤں گھومتے جاتے ہیں اور زمین نکلتی جاتی ہے۔

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ اس حکومت کی اقتصادی ٹیم میں کون کس پیج پر ہے۔ مگر یہ ضرور پتہ چل گیا ہے کہ جھوٹ، گپ گول مول گفتگو اور آسرے دلاسے ایک پیج پر جب کہ اسٹیٹ بینک ہو کہ ایشیائی ترقیاتی بینک یا ورلڈ بینک دوسرے پیج پر۔ مالیاتی اداروں کا اتفاق ہے کہ چاہے کوئی کچھ بھی قلابے ملا لے پاکستانی معیشت موجودہ اور اگلے برس معاشی نمو کے اعشاریے میں چار فیصد کا ہندسہ پار نہیں کر پائے گی۔ بلکہ ایشیا و بحرالکاہل سے متعلق اقوامِ متحدہ کے اقتصادی کمیشن ( سکیپ ) نے تو کل ہی کہا ہے کہ اگلے دو برس تک پاکستانی معیشت بھارت ( ساڑھے سات فیصد ) اور بنگلہ دیش ( سات اعشاریہ تین فیصد ) تو رہے ایک طرف مالدیپ اور نیپال ( ساڑھے چھ فیصد) سے بھی ڈھائی فیصد نیچے رہے گی۔

ملک کے ایک سرکردہ ماہرِ معیشت اور سرکاری کمروں میں فیصلہ سازی کے شاہد ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنی تازہ تحقیقی رپورٹ میں پچھلے پچیس برس کی معاشی سیاست پر سیر حاصل تحقیق کی ہے۔ اس کے مطابق انیس سو نوے سے دو ہزار پندرہ کے درمیان صرف دو ہزار پانچ ایسا سال تھا جب معاشی شرحِ نمو نے نو فیصد کا ہندسہ چھوا۔ ان پچیس برسوں میں صرف دو برس ( انیس سو بانوے، دو ہزار چار ) ایسے تھے جب معیشت نے سات فیصد سالانہ نمو کا آنکڑا پار کیا۔ ورنہ تو معیشت دھکا اسٹارٹ گاڑی کی طرح ہی چلی جو ہر چند قدم پر کبھی تیز، کبھی سست اور کبھی جامد ہو جاتی ہے۔

جیسے انیس سو بانوے میں معاشی ترقی کی شرح سات اعشاریہ سات فیصد تک پہنچی تو اگلے ہی برس یہ شرح گر کے دو اعشاریہ ایک تک آ پڑی، سن چھیانوے میں معاشی بڑھوتری چھ اعشاریہ چھ فیصد مگر اگلے ہی برس صرف ایک اعشاریہ سات فیصد، دو ہزار چھ میں پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تو دو ہزار آٹھ میں صرف اعشاریہ چار فیصد۔ اس اعتبار سے پچھلے پچیس برس میں پاکستانی معیشت نے اوسطاً چار فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کی لیکن آبادی میں سالانہ ڈھائی فیصد اضافے سے چار فیصد ترقی کو مائنس کر دیا جائے تو پاکستانی معیشت عملاً پچیس برس کے دورانیے میں محض ڈیڑھ فیصد سالانہ کے حساب سے ہی آگے بڑھ پائی۔ یہ رہی سہی ترقی بھی قرضوں کے سود، دفاعی بجٹ، انتظامی اخراجات اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات نے برابر کر دی۔ عوام کے لیے کیا بچا؟ کدو۔

پاکستان پچھلے ستر برس سے جن سوالوں کے جواب تلاش کر رہا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کیا ہم ترقی پذیر ملک ہیں یا سیکیورٹی اسٹیٹ؟ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ انیس سو ستتر تک پاکستان ایک ترقی پذیر ریاست کہی جاسکتی تھی۔ ایوب خان کے صنعتی انقلاب کی دہائی گزرنے کے بعد بھٹو کی سوشلسٹ حکومت میں بھی ترقیاتی اخراجات کی شرح اکیس فیصد سالانہ تھی۔ مگر انیس سو ستتر سے اٹھاسی تک کے دس سالہ ضیا دور میں ترقیاتی اخراجات کی شرح گرتے گرتے دو اعشاریہ سات فیصد تک آ گئی اور بعد کے برسوں میں بھی جانبر نہ ہو سکی۔

ستتر کے بعد سے پاکستان کے پاس جیسا کیسا جو بھی صنعتی و زرعی ڈھانچہ تھا اسے رفتہ رفتہ خودکفالت اور بچت کا ہدف حاصل کرنے کے بجائے کنزیومر ازم کے سامنے پسپا ہونا پڑا۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ اب سے چالیس برس پہلے ( انیس سو اناسی تک ) بجلی کی آدھی پیداوار صنعتی شعبے میں کھپ جاتی تھی جب کہ گھریلو صارفین و بازار سترہ فیصد بجلی استعمال کرتے تھے۔ آج صنعت محض اٹھائیس فیصد بجلی استعمال کر پا رہی ہے اور گھریلو صارفین و بازار سینتالیس فیصد بجلی استعمال کر رہے ہیں۔

لیکن اگر صنعت و زراعت جیسے بنیادی شعبے دولت پیدا نہیں کر رہے تو پھر پیسہ کہاں سے آ رہا ہے، ہر قصبے میں بڑے بڑے مال کیوں بن رہے ہیں، اپ اسکیل ہوٹل اور ریستوراں کیوں بھرے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے گھر مسلسل کیسے اٹھ رہے ہیں، نئی نئی کاریں کون خرید رہا ہے؟ بین الاقوامی پروازوں پر کون آ جا رہا ہے، اتنے سارے بینک کیسے نمودار ہو گئے اگر کاروبار ہی نہیں؟

اس بارے میں ڈاکٹر بنگالی کہتے ہیں کہ پچھلے پچیس برس کے دوران پاکستان کی معاشی قوت روایتی جاگیر دار اور صنعت کار کے ہاتھ سے پھسل کر اسٹاک ایکسچینج کے دلال، اجناس کے آڑھتی، ریاستی پشت پناہ یافتہ لینڈ ڈویلپرز اور زمین کے سٹے بازوں کے ہاتھوں میں آ چکی ہے۔ دولت زراعتی و صنعتی سرمایہ کاری سے نہیں پلاٹ، حصص پر سٹے اور اجناس کی آڑھت پیدا ہو رہی ہے۔ جدید اشرافیہ میں اسٹیبلشمنٹ سے جڑے ٹھیکیدار، نوکر شاہ، جی حضور زمیندار و تاجر و صنعت کار ہیں۔ کچھ ادارے اور ان کے طفیلی نجکار و ٹھیکیدار معاشی پالیسوں پر پوری طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے ثمرات نیچے تک پہنچنے سے پہلے ہی بٹ بٹا جاتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو بیرونی امداد سے جنم لینے والی پروجیکٹ بیسڈ این جی او معیشت کے دروازے سے اشرافیہ کے کلب میں داخل ہوا ہے۔ فوج کے ذیلی ادارے خود کفیل، بارسوخ اور اقتصادی بے یقینی سے فی الحال محفوظ ہیں۔

بالائی متوسط گیٹڈ کمیونٹی کے اندر کا پاکستان ایک فلاحی مملکت ہے اور گیٹ سے باہر کا پاکستان ایک خود رو متوازی معاشی مملکت ہے جو ”جہاں رہو جیسے رہو خوش رہو“ کی بنیاد پر آسمانی مدد کی امید کے سہارے چل رہا ہے۔

مگر ڈاکٹر بنگالی کے بقول اشرافیہ ہو کہ عام لوگ، دونوں ایک ہی جہاز پر سوار ہیں۔ عام لوگ عرشے پر گذارہ کر رہے ہیں اور اشرافیہ کیبنوں میں استراحت فرما اور نظارہ گیر ہے اور اپنے کیبنوں کو مضبوط بنانے کے لیے اسی جہاز کے کل پرزے جگاڑ لگا کے کام میں لا رہی ہے جن کا بے موقع استعمال پورے جہاز کی سلامتی بگاڑ سکتا ہے۔

ایک نہ ایک دن جہاز ڈوبا تو سب ہی جائیں گے۔ مگر نہیں۔ اشرافیہ کے پاس دہری شہریت اور بیرونِ ملک اثاثے و اکاؤنٹس ہیں۔ انھیں بس اتنی مہلت چاہیے ہو گی کہ وہ ایئرپورٹ پہنچ کر فلائٹ پکڑ سکیں۔ وما علینا الا البلاغ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).