بیٹی شرافت کی زندگی گزار رہی ہے


پچھلے دنوں اپنی بھانجی کو نئے نمبر سے فون کرنے کی غلطی کر بیٹھی۔ وہ نمبر بھانجی کے موبائل میں محفوظ نہ تھا۔ کافی بار نمبر کال ملائی لیکن دوسری طرف کسی نے ریسیو نہ کی۔ معاملہ ارجنٹ تھا سو میں لگاتار فون کرتی گئی لیکن جواب ندارد۔ سخت جھنجھلاہٹ اور کوفت ہوئی لیکن خود کو تسلی دے کر بہلالیا کہ بھانجی یا تو کہیں مصروف ہوگی یا اس کا موبائل سائلنٹ ہوگا۔ خیر جناب اگلے دن بہن سے رابطہ ہوا تو پوچھنے پر وہ لمبی سی ہائے کر کے کہنے لگی کہ اچھا تم کال کر رہی تھیں، اصل میں میری بچی کسی نئے نمبر سے آنے والی کال وصول ہی نہیں کرتی۔

یہ بودی وضاحت دیتے وقت بہن کے لہجے میں بیٹی کی طرف سے ایسا فخر اور مان تھا، گویا وہ جتا رہی ہوں کہ بھلا آج کے دور میں ایسی شرافت بھی کہیں دیکھی ہے؟ لیکن شرافت کے اس بے تکے معیار سے نہ تو میں متاثر ہوئی اور نہ مجھے اس بے تکے عمل کا نسوانی وقار سے دور دور تک کوئی ربط محسوس ہوا، بلکہ اس انتہائی ”شریفانہ“ سوچ نے میری کوفت مزید بڑھادی۔

یوں تو یہ واقعہ بہت معمولی سا ہے لیکن اس نے میری اس سوچ کو تقویت دینے کے سوا کچھ نہ کیا کہ ہم جس معاشرے کو بھگت رہے ہیں وہاں ہر بات جا کے عورتوں کی پارسائی اور شرافت پہ ہی ختم ہوتی ہے۔ میں اپنے اطراف رائج زنانہ شرافت کے ان معیارات پر جیسے جیسے غور کرتی گئی ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی۔ سچ پوچھیے تو غصہ زیادہ آیا اور بہت سارے چہرے نظروں میں گھوم گئے جو خاندانی شرافت کے بوجھ تلے ایسے دبے ہوئے ہیں کہ ان کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں نہ چیخیں۔

میری ایک جاننے والی اٹھائیس سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں۔ دس سال کے ایک بیٹے کا ساتھ ہے۔ جوان اور خوش شکل ہیں۔ ان کی دوسری شادی کا ذکر آتے ہی والدہ ہتھے سے اکھڑ جاتی ہیں اور مشورہ دینے والے کو یہ کہہ کر گھر کا راستہ دکھاتی ہیں کہ ان کی بیٹی کا دماغ ایسی کسی بھی خرافات سے پاک ہے، جس نے ”عالمِ بیوگی“ کے پانچ سال میں کبھی ایسی ”نا زیبا“ خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ یہ سن کر مشورہ دینے والا شرمندہ ہوکر بغلیں جھانکنے لگتا ہے۔

ادھر حال یہ ہے کہ وہ لڑکی جسے تقدیر نے پورے گھرانے کی شرافت کا بوجھ اٹھانے کی بھاری ذمہ ساری سونپ دی، گھبرا کر ساری فکریں لیے اکثر میرے پاس چلی آتی ہے۔ اپنی ساٹھ سالہ ”سہاگن“ ماں کو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ عمر کے اس دور میں اسے ماں سے زیادہ کسی ہم راز اور ہم سفر کی ضرورت۔ زندگی کے پیچیدہ اور کٹھن سفر میں کسی کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا چاہتی ہے لیکن اظہار کرے تو کیسے اور کس سے؟ معاشرے کا مقرر کردہ معیارِ شرافت تو اس کی خوشی کو حرام قرار دے چکا ہے۔

اس کے والدین کے نزدیک مجرد زندگی گزارنے والی بیٹی سے زیادہ شریف کوئی عورت نہیں۔ رہ گئی وہ لڑکی، تو جناب! خاندانی شرافت کا جو بھاری تاج اس کے سر پر پہنایا گیا وہ سرک کے گردن پر آچکا ہے اور اب اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ وقت کے بے رحم آئینے میں وہ خود کو ماضی بنتا دیکھ رہی ہے اور کڑھ رہی ہے۔ اس کی باتیں اور ارادے سن کر میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے، وہ سارے بند توڑ کرکر اس حبس سے باہر آجائے گی، لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ جس دن وہ آزاد ہو گئی اس دن اسے یہ معاشرہ ”غیر شریف عورت“ کی سند تھمانے میں ذرا تامل نہ کرے گا۔

شرافت کی نسوانی دلدل میں دھنسا ایک اور نسوانی وجود ہے، جواس وقت میری توجہ کھینچ رہا ہے۔ یہاں معاملہ اوپر بیان کردہ واقعے کے بالکل برعکس ہے۔ پچھلے دنوں مجھے واٹس اپ پر کسی نے ایک فتوے کا اسکرین شاٹ بھیجا۔ بھیجنے والی میرے لیے اجنبی نہیں۔ ازدواجی زندگی کے بدترین اتار چڑھاؤ میں کئی بار اس کے شوہر نے اس کو نکاح کے بندھن سے باہر کرنے کے بول کہہ ڈالے۔ کبھی مشروط تو کبھی غیرمشروط طلاق کی دھمکیاں دیں تو کبھی اس کو طلاق کا حق تفویض کر دیا۔

وہ ہمیشہ اس شک میں رہی کہ ہر اعتبار سے طلاق واقع ہوچکی ہے، لیکن اس کے خدشات کو شوہر سمیت کسی نے بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ حتٰی کہ اس کی والدہ نے بھی دماغی فتور کہہ کر اس کی کوئی بھی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ دل کی بے چینی بڑھنے پر اس نے خود کراچی کے ایک نام ور اور بڑے دینی مرکز سے رابطہ کیا تو جواب آیا کہ فراہم کردہ معلومات کے تحت تو طلاق واقع ہوچکی ہے۔ اپنے بدترین خدشات کی تصدیق ہونے پر اس نے گھر والوں کو بتایا تو، وہاں سے آنے والا ردِعمل اس کی توقعات کے یکسر خلاف تھا۔

ان کی خاندانی شرافت کا معیار چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ خاموش رہو، جو ہوا بھول جاؤ، فتویٰ پھاڑ کر پھینک دو۔ شریف عورتوں کے ساتھ طلاق یافتہ کا لفظ نہیں لگتا۔ اب وہ آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے اور والدین کی خواہش پر ”بدترین شرافت“ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس کو ساتھ رہنے والے مرد سے نفرت ہوچکی ہے۔ وہ روز جیتی اور مرتی ہے، لیکن اس کے سب اپنے خوش ہیں کہ بیٹی شرافت کی زندگی گزار رہی ہے۔

نسوانی وقار اور شرافت کے خاندانی چولے میں بے شک کتنے ہی سوراخ کیوں نہ ہوں، اس میں سے بدبودار بھبھکے ہی کیوں نہ اٹھ رہے ہوں، لازم ہے کہ عورت اس کو پہنے رکھے، چاہے اس میں عورت کا دم ہی کیوں نہ گھٹ جائے۔ جانے کیوں مجھے ایسے شریفوں سے الجھن ہونے لگی ہے، جن کی شرافت کی بنیادوں میں جیتی جاگتی زندگیاں دفنادی جاتی ہیں۔ وہ معاشرتی معیارات جو بیٹی کو اس کی مرضی سے فون کال ریسیو کرنے یانہ کرنے کا اختیار نہیں دے سکتے، وہ اسے آگے جاکر نکاح اور طلاق کا حق بھلا کیسے دیں گے؟ ہمارے معاشرے میں ایسی شرافت سے جانے کب باز آیا جائے گا جس کے بوجھ تلے صرف بیٹیاں ہی دبتی ہیں۔ اگر معاشرے کو اس ڈھونگی شرافت اور اس کے بدترین نتائج سے آزاد کروانا ہے تو سب سے پہلے اپنے اپنے گھروں میں جھانکیے، میرا ماننا ہے کہ صنفی استحصال کی ابتدا یہیں کہیں سے ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).