اخلاق کا تعلق لباس سے نہیں، سوچ سے ہے


میں محوخواب تھی جب میری آنکھ کچھ معمول سے اونچی آوازوں سے کھلی۔ گھر میں زور و شور سے لڑکیوں کے لباس پہ بحث چل رہی تھی۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کومہذب لباس زیب تن کرنا چاہیے۔ ’میں نے آنکھیں ملتے سوال داغ دیا، مہذب لباس؟ بھلا تہذیب اور لباس کا تعلق کیسے بیان ہو؟ ‘ میرے اس سوال پہ جواب دیا گیا : ’برقع‘ ۔ ’وہ کس طرح؟ کس کتاب اور مصنف نے تہذیب اور لباس کا یہ رشتہ بیان کیا؟ کہاں لکھی ہے یہ تعریف؟ ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس موجود نہیں تھے۔ مگرگرما گرم بحث کا ماحول بن گیا تھا۔

میرا مدعا یہ تھا کہ لڑکیوں کے لباس کا معاشرے کے رکھ رکھاؤ سے مطابقت رکھنا ضروری ہے، جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق کچھ آزادی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات زیادہ اہم ہے کہ لڑکوں کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ گھر کے باہر کی خواتین کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ لیکن میری اس بات کو مکمل رد کر دیا گیا اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ لڑکیاں غیر مہذب لباس زیب تن کرتی ہیں اسی لئے لڑکے ان پہ تنقید کرتے ہیں اور فقرے کستے ہیں۔ سو قصور وار کون؟ اپنی لڑکیاں اور کون بھلا اس پدر شاہی معاشرے سے اور کیا بعید،

یہ معاشرہ یہ سارے حقوق پہلے ہی بانٹ چکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں گھر کے مردوں سے لے کر باہر کسی بھی درجے پر کام کرنے والا ملازم ما ں اور بہن کی گالی دینا اپنا خاندانی حق سمجھتا ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ مردوں کا یہ اندازِتکلم صرف غصے میں ہوتاہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غصے کے ساتھ ساتھ مذاق میں بھی ماں بہن کی گالی کو نہایت فراوانی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ گالی دینے والا، سننے والے کے گھر کی خواتین کی شان میں ہی گستاخی کر رہا ہوتا ہے پرَ چونکہ صاحب زادوں کی عقل پر پردوں کا انبار ہوتا ہے اور شعور ندارد تو گوش گزار کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے اور بولنے میں تو ذرا سی عار محسوس نہ ہوتی۔

پر سوال تو یہ بنتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں لڑکوں کی بول چال اور ان کے الفاظ کے چناؤ کی تربیت اہم نہیں؟ یا عورت کا لباس ہی صرف اس پست ہوتی معاشرتی قدروں کا ذمہ دار ہے؟

عام طور پہ لڑکے یا مرد محلے میں ایک گروہ بنا کر کھڑے ہوتے ہیں اورگھر سے باہر نکلنے والی ہر خاتون کا باریکی سے معائنہ کیا جاتا ہے اور بعد ازاں اس کے لباس سے لے کر خد وخال یہاں تک کہ ہر عضو پر فقرے کسے جاتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ لڑکی نے چادر، برقع، جینز یا دوپٹہ پہنا ہے۔ اجی چھوڑیے لباس اب ایک ہی محفوظ ہے اس سماج میں عورت کے لیے، اور وہ ہے سلیمانی چادر۔ اوڑھیے اور غا ئب ہوجائیے، نا رہے گا بانس نہ مغلظات کی بانسری بجے گی۔

پھر زبان نے شطرِبے مہار کی طرح سوال داغ دیا،

کیا ہمارے معاشرے میں مردوں کی اخلاقی تربیت ضروری نہیں؟

لباس سے موضوع مختلف سمت میں چل نکلا بات لڑکیوں کے لیے مناسب شعبہ جات پر آگئی کیونکہ لباس پر کوئی مناسب جواز نہ مل سکا تمام موجود افراد کو۔ سو اب کہا گیا کہ جناب عورتوں کو صرف طب یا تعلیم کے شعبے میں قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔ گھر کے مرد۔ ، درمیانے معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والی مستقبل سنوارنے کے سہانے خواب دل میں لئے لڑکیوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ ان کے لئے عزت دار شعبہ جات بس یہی رہ گئے ہیں۔

کام کے غرض سے باہر نکلنے والی عورت، خصوصاً آفس میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس بات کی دلیل میں عورتوں کو آوارہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اس لئے ان کے چال چلن کچھ درست نہیں گردانے جاتے۔ یہ باتیں سن کر تو میرے کان کی لو تک گرم ہونے لگی۔ یا الہی یہ ماجرہ کیا ہے؟ اس جہان کو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ لباس سے بڑامسئلہ ذہنیت کا ہے۔ لباس چھوٹا بڑا ہوسکتا ہے ضرورت کے مطابق، پر تربیت کے بغیرسوچ کی کاٹ پیٹ ممکن نہیں۔ جو کچی کلیاں مسلنے کی وبا آج کل اس معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ لباس نہیں بلکہ مردوں کی مردانگی سے بھی چھوٹی ان کی سوچ کی وجہ سے ہے۔ اور اس کی ذمہ دارصد فیصد ان کی سوچ ہی ہے۔

تو اٹھتے ہوئے میں نے پھر سوال اٹھایا، کیا مردوں کی اخلاقی تربیت ضروری نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).