خبردار! یہاں سیاست منع ہے


حال ہی میں صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے رو سے صوبہ بلوچستان کے کالجوں میں سیاسی سرگرمیاں ممنوع قرار دیں دی گئیں۔ طلباء تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کا ردعمل یقینی تھا۔ ہر تنظیم اور جماعت نے اپنی اپنی بساط کے مطابق تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے خلاف آواز بلند کی۔ کسی نے اخباری بیانات کی حد تک اس پابندی کی مخالفت کی تو کسی نے میدان میں نکل کر عملی طور پر احتجاج کیا۔

سوشل میڈیا پر بھی مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد، طلباء، سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں، سماجی شخصیات اور صحافیوں نے اس نوٹیفکیشن کی بھرپور مذمت اور مخالفت کی۔ پشتون قوم پرست سیاسی جماعت پشتونخوا میپ کی ذیلی طلباء تنظیم پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے احتجاجی مظاہرے کے ساتھ ساتھ سماجی رابطے کے مشہور ویب سائٹ ٹویٹر پر بھی تعلیمی اداروں میں سیاست پر پابندی کے خلاف #PSORejectBanOnPolitics کا ٹرینڈ چلاتے ہوئے اس سے پورے پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ بنایا۔

صوبہ بلوچستان تعلیمی لحاظ سے بھی ملک کا پسماندہ ترین صوبہ ہے مگر یہاں طلباء سیاست دیگر صوبوں کی نسبت کافی مضبوط ہے۔ اس صوبے میں طلبا سیاست کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہر آمریت کے خلاف اس صوبے کی طلبا تنظیموں نے طویل اور تاریخی سیاسی جدوجہد کی ہے۔ طلبا یونین پر جنرل ضیاء الحق کی عائد کردہ پابندی بھی صوبہ بلوچستان میں طلبا سیاست کو ختم نہ کرسکیں۔

اس سے ہمارے ملک کی بدقسمتی کہہ دیں کہ یہاں ایک مخصوص طبقہ طلبا سیاست سے خائف ہے۔ یہ طبقہ طلبا سیاست کے خلاف پروپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس طبقے کو طلبا سیاست سے خدا واسطے کا بیر ہے اور یہ بات کسی حد تک قابل فہم بھی ہے کیونکہ اس طبقے کے مفادات کو سب سے زیادہ خطرہ طلبا سیاست سے ہے۔ طلبا سیاست مڈل کلاس لیڈر شپ کو جنم دیتی ہے۔ اور یہ لیڈر آگے چل کر اس مخصوص طبقے کی مفادات پر عوام کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور اٹھارویں آئینی ترمیم جیسی عوام دوست ترمیم کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم اس مخصوص طبقے کی نظر میں ناقابل معافی جرم ہے، مستقبل میں ایسے دیگر جرائم کی روک تھام کے لئے یہ طبقہ طلبا سیاست پر پابندی ضروری سمجھتی ہے۔

تعلیمی اداروں میں سیاست پر پابندی سے طلبا اپنے سیاسی اور آئینی حقوق سے محروم ہو جائیں گے، سیاسی مکالمے کا رجحان ختم ہو جائے گا، عدم برداشت مزید بڑھے گا، گفتگو میں رہی سہی شائستگی اور دلیل بھی ناپید ہو جائے گے، مشال خان اور پروفیسر خالد حمید جیسے بے گناہ انسانوں کے قتل کی راہ ہر تعلیمی ادارے میں ہموار ہو جائیں گی۔

صوبہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو فراست سے کام لیتے ہوئے تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کا نوٹیفکیشن واپس لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).