سراج الحق پھر امیر ہو گئے


میں منصورہ میں موجود ہوں اورمیرے سامنے جماعت اسلامی پاکستان کے نومنتخب امیر سراج الحق اگلے پانچ برسوں کے لئے اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے نامعلوم نوجوان نے کان میں سرگوشی کی، کیا جماعت اسلامی کی حکومت بن سکتی ہے، میں نے جواب میں پوچھا، پچھلے پانچ برسوں میں جماعت اسلامی آگے گئی ہے یا پیچھے، جواب ملا پیچھے، میں نے کہا، تمہارے سوال کا جواب اسی میں مضمر ہے۔ میں نے جناب سراج ا الحق کو عہدہ سنبھالنے کی مبارکباد نہیں دی کہ جماعت اسلامی میں مبارکباد کا رواج نہیں ہے، میں ڈر گیاکہ جہاں مبارکباد کا رواج نہ ہو وہاں صرف افسوس ہیکیے جاتے ہیں مگر کیا میں ’جاءالحق و زہق الباطل‘ کے نعرے لگانے والوں سے افسوس کرتا، سوال کرتا کہ یہ حق یعنی سراج الحق کس باطل کی جگہ آیا مگر یہ غیر اخلاقی اور غیر منطقی ہوتا۔

میں نے جناب سراج الحق کی تقریر سنی تو سوچا، ارے جماعت تو وہیں کی وہیں کھڑی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی بھی ٹارگٹ ہے۔ جماعت اسلامی اچھے لوگوں کی جماعت ہے، اچھے لوگوں کو بری باتوں کو برا کہنا چاہیے مگر کیا اچھی باتوں کو اچھا بھی نہیں کہنا چاہیے، کبھی اس سوال پر بھی غور کیجئے گا۔

منصورہ کی سرسبزگراؤنڈ نیک لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے، ہاں، کچھ میرے جیسے برے بھی دعوت پرشریک ہیں۔ میں جب یہ گواہی دیتا ہوں کہ جماعت اسلامی دین دار اور دیانت دار لوگوں کی جماعت ہے تو کیا وجہ ہے کرپشن پر ہر وقت چیں چاں چوں کرنے والے انہیں ووٹ نہیں دیتے، آہ، لیاقت بلوچ، حافظ سلمان بٹ اور فرید احمد پراچہ جیسے سکہ بند دیاتندار اور محنتی سیاسی کارکنوں کو وہ لونڈے لپاڈے اور ان کی بیویاں بھی ووٹ نہیں دیتیں جن کے ابوں اور سسروں کے جنازے انہوں نے پڑھے۔ جنازے ہزاروں پڑھے مگر ووٹ سینکڑوں میں نکلے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میں، بطوران کا گواہ، کیا انہیں ووٹ دیتا ہوں تو میرا دیانتدارانہ جواب ہے، نہیں، کیا مجھے اپنا ووٹ ضائع کرنا ہے اور یہ کہ اگر میں نے اسی سیاست کو ووٹ دینا ہے تو پھر میں براہ راست مارشل لاءکا حامی کیوں نہ ہوجاؤں؟

میں جناب قاضی حسین احمد کی جرات اور جناب منور حسن کے خوف خدا رکھنے کی گواہی ہزار بار دے چکا کیونکہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ نیک لوگوں کے فیس بک پیج پرپھر مجھے گندی گالیاں نہ پڑیں لیکن اگر ہر کوئی گالی اور گولی کے خوف سے خاموش ہوتا رہا تو صداو¿ں کا قحط پڑجائے گا۔ چھوٹے موٹے کارکن تو ایک طرف رہے، میری بڑی بہن سمیعہ راحیل بھی سیاسی اختلاف کو توہین سمجھتی ہیں، میں انہیں اد ب سے سلام ہی کر سکتا ہوں کہ چھوٹے بھائی بڑی بہنوں کے ساتھ چوکوں چوراہوں اور واٹس ایپ گروپوں میں لڑتے اچھے نہیں لگتے۔

اعتراض ہے کہ جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ کی ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی رہی ہے، ایوب دور میں ضرور مادر ملت فاطمہ جناح کا ساتھ دیا مگرمودودی صاحب کے بعد ضیاءالحق کی مارشل لائی کابینہ میں شامل ہوکے منہ پر کالک مل لی۔ نوے کی دہائی کا میں خود گواہ ہوں کہ جو خدمت جماعت اسلامی نے سرانجام دی کوئی دوسری جماعت اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی، دھرنوں کی نکیل کے ذریعے نواز شریف اور بے نظیر کو اقتدار کے ایوانوں سے کھینچ کرباہر نکالا جاتا رہا مگرجماعت اسلامی کو حق محنت نہ ملا۔

پرویز مشرف کے مارشل لاءمیں کچھ ملا بھی تو جے یو آئی کا دم چھلا بناکے، یہاں بھی مولانا فضل الرحمان کی بارگیننگ بہت بہتر رہی۔ ایک منٹ ٹھہرئیے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی خدمت کر کے اقتدار میں آنا کوئی بری اور غلط حکمت عملی ہے تو بھٹو مرحوم بھی آٹھ برس تک اسٹیبلشمنٹ کے ہی وزیر رہے تھے، نواز شریف بارے بھی سب کو علم ہے اور اسی راستے کو عمران خان نے کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ جماعت اسلامی والے کردار میں بہت سارے دوسری سیاسی جماعتوں سے بہتر ہیں مگر دوسروں کا آئی کیو لیول شاید ان سے کہیں بہتر ہے۔

سوچئے، جوطریقہ ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کو شادمانی اور کامرانی کی منزل پر لے گیا ا وہ جناب قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق کے لئے برگ و بار کیوں نہیں لاتا۔ جناب سراج الحق کی تقریر کے تیسرے صفحے کا تیسرا پیراگراف بتا رہا ہے کہ وہ ماضی قریب میں کس طرح استعمال ہوئے مگرایک مرتبہ پھر لڈو کسی اورنے کھا لئے۔ مرد مومن مرد حق کی قیادت میں جماعت اسلامی نے گذشتہ عام انتخابات میں بری شکست کھائی کہ جناب کے امیدوار خادم رضوی کے امیدواروں سے بھی پٹ گئے۔

تجزیہ ہے کہ جماعت اسلامی کو مارکیٹنگ کے ایشو کا بھی سامنا ہے، جناب سراج الحق نے پہلی مرتبہ امیر بننے کے بعد یہی مارکیٹنگ جناب فرخ سہیل گوئندی اور جناب اکرم چودھری کے ذریعے بھی کرنے کی کوشش کی مگر میں اس پر بوجوہ تبصرہ نہ کرتے ہوئے ایک پرانی بات ہی دہراسکتا ہوں کہ جماعت اسلامی والے نظریاتی بھی ہیں اور محنتی بھی مگر خود کلامی میں مبتلا ہیں یعنی ان کی تمام سرگرمیاں اپنے گرد ہی گھومتی ہیں۔ ترچھی ٹوپی والے سراج الحق ایک پرانے جمہوری سیاسی کارکن ہیں مگر دھرنوں کے درمیان ان کی غیر واضح حکمت عملی نے جماعت اسلامی کو مزید مشکوک بنایا۔

کیا ہی اچھا ہو کہ جماعت والے اپنے دشمنوں کے دیے جانے والے معروف طعنے سے باہر نکل آئیں، حق کو کھل کر حق کہیں اور باطل کو کھل کر باطل۔ لالہ سراج کی تقریر نے بتایا کہ وہ سیاست کو دعوت کا محض ایک جزو سمجھتے ہیں جبکہ سیاست فل ٹائم جاب ہے۔ سیاست گھوڑا ہے جو توانا اور صحت مند ہو تو آپ کی دعوت کی گاڑی کو کھینچ کرمنزل تک لے جا سکتا ہے، آپ کے نظام کو نافذ کر سکتا ہے مگرآپ نے گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھا ہوا ہے۔

میری مانیں اس سمارٹ دور میں اپنے تیتی دس ماڈل کے مشیر بدلیں، اردگان ماڈل کو سٹڈی کریں، شیشے کے سامنے کھڑے ہو کے باتیں کرنا چھوڑیں کہ اسے نرگسیت کہتے ہیں، منصورہ سے باہر سڑکوں، چوکوں، چوراہوں اور بازاروں میں نکلیں، مہنگائی اورنظام کے مارے غریبوں اور مظلوموں کی آوازاور ہتھیار بنیں کہ آپ جن کی آواز اور ہتھیار بنے رہے، جن کے لئے جمہوریت اور سیاست کی بیخ کنی کرتے رہے، انہوں نے توآپ کو کچھ نہیں دیا، میرا خیال ہے کہ عوام آپ کو مایوس نہیں کریں گے، میں اپنے رب کو گواہ بنا کے کہتا ہوں کہ میرے پاس آج کے دن آپ کے لئے اس سے بہتر مشورہ نہیں، یہ امانت میں نے پوری دیانتداری سے لوٹا دی، ورنہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ اسی ُدھن میں مست رہیں جس میں پانچ برسوں سے مست ہیں، جس ُدھن میں پور ے جوش ور جذبے کے ساتھ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن نے بھی لاحاصل سفر کیا اور اب اسی ُدھن ایک بہترین تنظیمی اور نظریاتی سیاسی جماعت مزید پانچ برس ضائع کر لے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).