صدارتی نظام نہیں بادشاہت لائی جائے


بعض افراد تواتر سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ صدارتی نظام لایا جائے کیونکہ پارلیمانی نظام میں ٹکے ٹکے کے ممبر وزیراعظم کو بلیک میل کرتے ہیں اور وہ لاچار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے عمران خان جیسا دیانت دار، میرٹ پر چلنے والا اور دل میں قوم کا درد رکھنے والا لیڈر نہایت باشعور لیڈر بھی ناکام ہو رہا ہے۔ غالباً ان افراد کے ذہن میں امریکہ کا صدارتی نظام ہے جہاں صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے اور امور مملکت چلانے میں وہ کانگریس اور سینیٹ کا بہت زیادہ محتاج نہیں ہوتا۔ بہرحال امریکی صدر اتنا زیادہ با اختیار بھی نہیں ہوتا جتنا ہم سمجھے بیٹھے ہیں۔ دس جگہ اس کے منصوبوں کو کانگریس روک دیتی ہے۔

اسی وجہ سے ہماری رائے میں یہ غلط مطالبہ ہے۔ صدر اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ ٹکے ٹکے کے ووٹر کا محتاج ہوتا ہے۔ اس لئے اگر عمران خان کو صدر بنا بھی دیا گیا تو وہ خود کو اسی طرح لاچار پائیں گے اور قوم کو وہ سنہرا زمانہ نہیں مہیا کر سکیں گے جس کی سب توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ صدارتی نظام میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ صدر کو پانچ سال بعد گھر واپس بھیجا جا سکتا ہے اور دو ٹرمز کے بعد تو اس کے الیکشن لڑنے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔

بعض افراد یہ کہیں گے کہ فوجی حکومت بھی مناسب رہتی ہے۔ مگر اس میں یہ قباحت ہے کہ مختلف ملکی و عالمی حالات کی وجہ سے فوجی ڈکٹیٹر کو پانچ دس برس بعد حکومت دوبارہ نا اہل سیاستدانوں کے سپرد کرنی پڑ جاتی ہے اور ملکی حالات پہلے سے بھی بگڑ جاتے ہیں۔ ہم نے فیلڈ مارشل ایوب خان جیسے نیک نیت حکمران کے دور حکومت کا اختتام بھی المناک دیکھا حالانکہ وہ تبدیلی کی خواہش اور اعلی درجے کی پلاننگ میں ہمارے محبوب وزیراعظم عمران خان سے کسی طرح بھی کم نہ تھے۔

ویسے بھی اگر ہم اپنے سنہرے ماضی پر نگاہ ڈالیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ برصغیر اور مشرق وسطی میں جمہوریت ہمیشہ ہی ناکام رہی ہے۔ ادھر اچھے حکمران کی مثال دینی ہو تو کسی جمہوری حکمران کا نام نہیں لیا جاتا بلکہ ہمیشہ علا الدین خلجی، اورنگ زیب عالمگیر اور ناصر الدین قباچہ کے نام ہی سامنے آتے ہیں۔ مشرق وسطی میں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی، رکن الدین بیبرس اور ملک شاہ سلجوقی کامیاب رہے ہیں جبکہ انور سادات اور بشار الاسد وغیرہ ناکامی کی مثال بنے ہیں۔ ترکوں کا بھی یہی معاملہ ہے کہ جب تک خلافت عثمانیہ پر ترک سلاطین حکومت کرتے رہے، ترکی کی سلطنت تین براعظموں پر پھیلی رہی مگر جیسے ہی جمہوریت آئی تو ترکی ایک چھوٹے سے قطعہ ارضی پر سمٹ کر رہ گیا۔

ان مثالوں سے بادشاہت کے فوائد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب بھی ملک و ملت کسی پریشانی میں پڑے تو کسی نہ کسی نیک نیت اولو العزم بادشاہ نے حالات سنبھال لئے۔ ہمیں ایسا حکمران چاہیے جو اپنی دانشمندی، معاملہ فہمی، مستقل مزاجی اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ پورے عزم اور طاقت کے ساتھ قوم و ملک کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھا سکے۔ مثلاً یہی دیکھ لیں کہ جب عمران خان کرکٹ ٹیم کے مطلق العنان کپتان تھے تو انہوں نے 92 کا ورلڈ کپ بھارت اور یورپی قوتوں کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود جیت لیا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ وہ پاکستانی قوم کی قیادت بھی اسی انداز میں کریں اور ایک مطلق العنان اور با اختیار بادشاہ کی حیثیت سے کام کرنے کی تیاری کریں۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ آئین کچھ قدغنیں لگاتا ہے اور ایک مخلص آدمی بادشاہ نہیں بن سکتا خواہ وہ کتنا ہی سمارٹ کیوں نہ ہو، مگر قوم چاہے تو اس آئین کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اگر مطلوبہ تعداد میں عوامی نمائندوں یا عوام کے ووٹ نہیں ملیں تو پھر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے راہنمائی لی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی آئینی راستہ تلاش کر دیں۔

انہوں نے 13 مئی 2000 کو جنرل پرویز مشرف کے لئے بھی سپریم کورٹ کے بارہ رکنی بینچ کے ممبر کے طور پر ایک اچھا آئینی راستہ تلاش کر دیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف تین برس کی مدت تک ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو چھیڑے بغیر جیسی جی چاہے ترمیم کریں۔ اب جدید آئینی بحث میں تو بنیادی ڈھانچے کا سوال ہی تقریباً ختم ہو چکا ہے تو اس فیصلے کو زیادہ بہتر انداز میں دوبارہ بروئے کار لانے پر غور کیا جا سکتا ہے۔

بہتر یہی ہے کہ آئین میں مناسب گنجائش پیدا کر کے بادشاہت لائی جائے تاکہ قوم تاحیات تبدیلی کے ثمرات سمیٹ سکے تاکہ روز روز کی جھک جھک سے نجات مل سکے اور قوم ایک طرف سے تو یکسو ہو سکے۔ ویسے اس یک طرفہ یکسوئی سے یوسفی یاد آ گئے۔ روایت ہے کہ ”ایک مرتبہ جون ایلیا کہنے لگے یوسفی صاحب میرے پاس اب پینتیس کُرتے اورایک پاجامہ رہ گیا ہے، یوسفی صاحب نے برجستہ کہا، اسے بھی کسی کو بخش دیجیے تاکہ ایک طرف سے تو یکسوئی ہو“۔ قوم کو بھی نظام کے باب میں یکسوئی کی ضرورت ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar