معیشت کو آکسیجن ہی لگا دیں


شاید یہ بیان بے نظیر سے منسوب ہے۔ کسی نے سوال کیا ”آلو بہت مہنگے ہوگئے ہیں“۔ تو بینظیر نے جواب دیا ”لوگ سیب کیوں نہیں کھاتے“۔ یہ اور اس طرح کے سوالات تو سادہ سے ہیں لیکن ان کے جوابات میں جو گہرائی ہے اس کو محسوس کرنے کے لئے بھی ایک حساس دل کی ضرورت ہے۔

شیخ رشید صاحب آج کل استاد السیاستدان بنے ہوئے ہیں۔ وہ دعوے دار ہیں، عمران خان کے سیاسی استاد ہونے کے۔ استاد تو وہ ہیں۔ اس طرح کے استاد یونیورسٹیوں میں تو قطعاً نہیں پائے جاتے اور اللہ نہ کرے کسی یونیورسٹی میں شیخ صاحب جیسے استاد آئیں۔ اس طرح کے استاد عام طور پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ورکشاپوں میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں کئی چھوٹے اس کے شاگرد ہوتے ہیں۔ اور اس کی ایک آواز پر پیچ کس یا لوٹا اٹھائے کھڑے ہوتے ہیں۔

یہ استاد اور چھوٹے آستین سے ناک صاف کر کے اپنے تیل اور دھول سے اٹے کپڑوں سے ہاتھ صاف کرنے کو عین عبادت سمجھتے ہیں۔ فرماتے ہیں ”جہاں پٹرول اور بجلی مہنگی ہوئی ہے، وہاں گوشت مہنگا ہونے سے کون سی قیامت آگئی ہے۔ “ شیخ صاحب کو کون بتائے کہ غریب کے گھر تو اسی وقت قیامت آ جاتی ہے جب اس کے پڑوس سے گوشت پکنے کی خوشبو دیواریں پھلانگ کر اس کے گھر آجاتی ہے اور اس کے بچے سوکھی روٹی کے لئے بھی ترس رہے ہوتے ہیں۔ غریب کے گھر تو عید کے دن بھی قیامت ہوتی ہے جب پڑوس کے بچے نئے کپڑے پہنے عید گاہ جارہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس پھٹے پرانے کپڑے دھونے کے لئے بھی صابن نہیں ہوتا۔ قیامت اور کس چیز کا نام ہے۔ آپ نے غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا۔ اس کی لالٹین کا تیل آسمان پر چڑھا دیا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں صرف گوشت مہنگا ہوا ہے۔ ہر چیز آسمان سے باتیں کر رہی ہے حتیٰ کہ ادویات بھی ڈبل ریٹ پر چلی گئی ہیں۔

مشتاق غنی صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر باتدبیر ہیں۔ بہت سلجھے ہوئے اور بھلے مانس انسان دکھائی دیتے ہیں۔ کم ازکم ان کی مونچھیں رانا ثنا اللہ سے زیادہ سلجھی ہوئی اور سنوری ہوئی لگتی ہیں۔ رانا صاحب کی مونچھیں تو خیر پنجابی فلم کے ولن کی طرح ہیں۔ کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے رانا صاحب نے مونچھوں کی وگ لگائی ہوئی ہے۔ غریب سیاستدان، شیخ رشید اور چودھری نثار کی طرح وگ ہی لگا سکتے ہیں، نواز اور شہباز کی طرح نئے بال نہیں لگوا سکتے۔

ایک تقریب میں مشتاق غنی صاحب فرماتے ہیں ”قوم پر مشکل وقت آگیا ہے۔ اب آپ دو کی بجائے ایک روٹی کھایا کریں۔ پھر وہ وقت آئے گا کہ آپ دو کی بجائے ڈھائی روٹی کھا سکیں گے۔ “ پتہ نہیں کون سے ماہر معیشت نے مشتاق غنی کو معاشیات کا یہ اصول پڑھایا ہے۔ اور الجبرے کے کس کلیے کے تحت بچت ایک روٹی کی کریں تو منافع آدھی روٹی کا ہوگا۔ اللہ دیاں اللہ جانے تے پی ٹی آئی دیاں عمران جانے؟

جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے؛ امان اللہ کے ڈرامے پھیکے پڑ گئے ہیں کہ لوگ دل لگی کے لئے خبرنامہ سن لیتے ہیں۔ خبر پڑھنے والے بھی اب نیوز ریڈر سے ایکٹر بن چکے ہیں۔ خبریں پڑھتے نہیں داستانیں سناتے ہیں۔ ان کے رویے داستان گو کی طرح ہوتے ہیں۔ خبر پڑھتے کم اور سناتے زیادہ ہیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے ہوتے ہیں کہ وہ خود بھی محظوظ ہو رہے ہیں۔ فواد چودھری، پنجاب حکومت کے سابق ترجمان فیاض چوہان اور رانا ثنا اللہ بچوں اور خواتین کے پسندیدہ کردار بن چکے ہیں۔

ادھر عمران خان کے ساتھ ساتھ مراد سعید اور فیصل واوڈا بھی کافی شہرت کما چکے ہیں۔ مراد سعید تو اپنے قد سے بڑی بڑی چھلانگیں لگا لگا کر اعلان کیا کرتے تھے کہ ہماری حکومت آئی تو پانچ دن میں باہر پڑے ہوئے ساٹھ ارب ڈالر واپس لے آئیں گے۔ اس اعلان کے بعد سے ہم منتظر ہیں ”کب آئیں گے سانوریا“۔ ساٹھ ارب ڈالر تو نہیں آئے ساٹھ عربی پاکستان کا دورہ کر چکے۔ وزیر اعظم ان کی گاڑیاں بھی چلا چکے۔ ملائشیا کے وزیر اعظم کے ساتھ کیٹ واک بھی کر چکے۔

اس کو اپنے فائٹر طیارے بھی دکھا چکے۔ ڈالر نہیں آئے۔ مراد سعید اب ڈاک خانے کی ٹکٹیں بیچنے میں مصروف ہے۔ اس کے خلوص کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکخانے جیسا ڈوبا ہوا شعبہ اب ترقی کر رہا ہے۔ اللہ کرے اتنی ترقی کر جائے کہ ساٹھ ارب ڈالر کا منی آرڈر وزیر اعظم پاکستان کو موصول ہو۔ اور وہ حیران ہو کر پوچھے ”کس نے دیے ہیں یہ جھمکے۔ کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے“۔

جو بھی صورتحال ہو۔ ہمیں شیخ رشید بہت پسند ہے۔ کم ازکم اس نے امید دلائی ہے۔ جلد لاہور سے کراچی آٹھ گھنٹے اور لاہور سے راولپنڈی دو گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ شیخ صاحب نے البتہ وضاحت نہیں فرمائی کہ گاڑی پر بیٹھ کر جائیں گے یا توپ پر۔ ایسی صورتحال ویسے انہونی نہیں۔ یہ خلائی حکومت ہے۔ خلا ئی وزیر اعظم کے خلائی وزیر یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں۔ راتوں رات ریلوے ٹریک پکا کرکے فاسٹ اور بلٹ ٹرین بھی چلا سکتے ہیں۔ موجودہ ٹریک پر تو رفتار مزید کم کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور وزیر دلنشیں، ان کے منہ میں گھی شکر۔ فرماتے ہیں ”اسی مہینے اتنی نوکریاں آئیں گی کہ نوکر کم پڑ جائیں گے۔ فیصل واوڈا انتہائی پاپولر وزیر ہیں۔ کوئی نہ کوئی حوصلہ دیتے رہتے ہیں۔ سمندر سے سمندر جتنا تیل نکلنے کی نوید پہلے ہی سنا چکے ہیں۔ اس سے پہلے یاد نہیں کون سی خوشخبری سنائی تھی۔ بہر حال حکومتی وزیر کوئی نہ کوئی خوشخبری سناتے ہی رہتے ہیں۔ تازہ ترین خوشخبری وزیر با تدبیر، رتن اعظم نے سنائی ہے۔

فرماتے ہیں ”ملکی معیشت آئی سی یو میں پڑی تھی اسے اٹھا کر جنرل وارڈ میں لے آئے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال میں مکمل ریکور ہو جائے گی“۔ محترم وزیر کو شاید علم نہیں پورا پاکستان ہسپتال داخل ہے۔ بلکہ لوگوں کے گھروں کو ہی ہسپتال ڈیکلئیر کر دیا گیا ہے۔ بھائی ؛جب مریض ایمرجنسی میں ہو اور ٹھیک ہونے کا امکان بھی کم ہو تو ضرورت ہو نہ ہو لواحقین کی تسلّی کے لئے مریض کو آکسیجن لگا دیتے ہیں۔ مریض ٹھیک ہو جائے تو بہت اچھا۔

نہ ٹھیک ہو تو کم از کم لواحقین مطمئن ہو کر مریض کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ آپ بھی کم از کم آکسیجن ہی لگا دیں۔ پٹرول کی قیمت کچھ کم کردیں۔ آپ یقین کریں قوم مطمئن ہو کر آپ کا انتظار کرلے گی۔ اس دوران آپ اور آپ کا وزیر اعظم تسلی کے ساتھ نواز شہباز اور زرداری کے پیچھے پڑے رہیں اور ان کو بالکل نہ چھوڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).