ہم نیوزی لینڈ میں اذان سن کر اور اپنے ملک میں اذان بند کر کے خوش ہیں


پندرہ مارچ کو نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کی کارروائی ہوئی۔ دو مساجد پر حملے میں پچاس نمازی شہید ہو گئے۔ ا س موقع پر نیوزی لینڈ کے عوام اورخاص طور پر وہاں کی خاتون وزیر اعظم نے کمال کر دیا۔ جس طرح مظلوموں سے ہمدردی کی گئی۔ جس طرح مسلمانوں کی دل جوئی کے سامان کیے گئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ وزیر اعظم خود لواحقین کے ایک ایک فرد کو گلے لگا کر اظہار تعزیت کرتی رہیں۔ ہر موقع پر موجود رہیں۔ دہشت گرد فوری گرفتار ہوا۔

مقدمہ کا آغاز ہوا۔ اسلحے کے متعلق فوری قوانین تبدیل کیے گئے۔ پارلیمان میں اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر اذان نشر کی گئی۔ پورا ملک مسلمانوں سے ہمدری کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن صاحبہ نے اظہار تعزیت اور سوگ کی علامت کے طو رپر نے کالا دوپٹہ پہن لیا۔ اس واقعہ پر اب تک بے شمار تبصرے اور مضامین لکھے جا چکے ہیں۔

جہاں تک نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا تعلق ہے۔ انہوں نے تو واقعی کمال کر دکھایا ہے اور دنیا کو بتا دیا ہے کہ انسانیت کیا ہوتی ہے۔ حکمران کیا ہوتا ہے۔ اور کمزور اور مظلوم طبقے کے ساتھ کھڑے کیسے ہوا جاتا ہے۔ کس طرح غیظ و غضب کے بلند ہوتے شعلوں کو تدبر، حکمت عملی، ہمدردی اور حسن خلق سے زیر کر لیا جاتا ہے۔ انہوں نے چونکہ، چنانچہ، حالانکہ اور ”پر زور مذمت کی ہے“ کو ایک طرف پھینک کرعملی ہمدردی کیا ہوتی ہے وہ کر دکھائی ہے۔ حکمرانی کے اقدامات کیا ہوتے ہیں اور کیا ہونے چاہیں وہ کر دکھلائے ہیں۔

ہمارے ہاں جمعہ مبارک اور صبح بخیر کے پیغامات سوشل میڈیا پر بھیج کر اسلامی فرائض سے سبکدوش ہونے والے طبقے کے نزدیک وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن اسلام کے قریب آگئی ہیں۔ نیوزی لینڈ کے لوگ بس حلقہ بگوش اسلام ہونے ہی والے ہیں۔ ایک جیالا تو اس قدر تیز نکلا کہ اس نے سوچا یہ سہرا فوراً اسے اپنے سر سجانا چاہیے اور جھٹ پٹ وزیراعظم موصوف کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا کھل کر بے ساختہ ذومعنی قہقہ لگانا تمام سوالوں کا جواب ہے۔

بہر حال ہمیں بہت زیادہ خوشی نیوزی لینڈ میں پبلک جگہ پر سر عام اذان کی آواز سن کر ہوئی۔ بہت مسرت ہمیں پارلیمان میں تلاوت قرآن مجید سن کر ہوئی۔ لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے اپنے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہم اسی اذان کے سننے سے خائف ہیں۔ اذان کی آواز بند کرنے کے لئے ہم نے بہت دوڑ دھوپ کی۔ اور بالاخر اس میں کامیاب ہو کر خوش ہیں کہ ہم نے اپنے ہی ملک میں ایک طبقے کی اذان ریاستی طور پر بند کر کے کارنامہ سرانجام دے دیا۔

ممکن ہے نوجوان ہوتی نسل کو یہ علم بھی نہ ہو کہ ارض پاک پر اپریل 1984 سے باقاعدہ اذان بند کی گئی ہے۔ یعنی آج پینتیس سال ہونے کو آئے ہیں کہ ایک صدراتی آرڈیننس کے ذریعہ پاک سر زمین میں احمدیوں پر اذان اور دیگر اسلامی شعار کے استعمال پر پابندی ہے۔

جب یہ بات کی جاتی ہے کہ جو اپنے ہی ملک میں اذان کی آواز سے خائف ہیں ان کو حق کیا ہے کہ نیوزی لینڈ میں ہونے والی اذان، تلاوت اور دیگر اقدامات پر اسلام کی فتح کی خیالی بنیادیں اٹھاتے پھریں۔ تو کہنے والے کہتے ہیں کہ وہاں ایک مسلمان نے اذان دی ہے اس لئے ہمیں خوشی ہے۔ اذان کسی کافر نے تو نہیں دی۔ احمدی تو کافر ہیں اس لئے انہیں اذان دینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

یہ جواز سرے سے ہی باطل ہے۔ کیونکہ ہم لوگ تو صرف وزیر اعظم جو کہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ لا ادری ( (agnostic کہلاتی ہیں۔ یعنی کسی خاص عقیدے یا مذہب سے وابستہ نہیں۔ بعض انہیں ملحد لکھتے ہیں۔ ان کے کالادوپٹہ سر پر لینے۔ السلام علیکم کہنے، ایک حدیث پڑھ کر سنانے پر ہی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ سوچئے اگر وہاں واقعی ایک غیر مسلم اذان دیتا تو کیا ہم اس پرفتوے لگاتے۔ اسے قتل کرنے کے لئے نکل پڑتے۔ کیا اس بات سے اسلام خطرے میں پڑ جاتا۔ یا ہم اس پرخوشی کا اظہار کرتے کہ دیکھو ایک غیر مسلم، ایک ملحد اذان دے رہا ہے۔

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد وہاں کے لوگوں اور وزیر اعظم کی مسلمانوں سے ہمدردی مذہب اسلام سے ہمدردی نہیں بلکہ انسانیت سے ہمدردی ہے۔ مظلوم سے ہمدری ہے۔ مذہبی آزادی سے ہمدردی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا دکھ ہے۔ انسانی جانوں کے ضیاع کا قلق ہے۔ ایک عبادت گاہ کی بے حرمتی برداشت نہیں ہو رہی۔ مذہب اور عقیدہ بنیادی انسانی حق ہے اس حق کی تضحیک ناقابل برداشت ہے۔

جن کے پیارے اس واقعہ میں شہید ہوئے ہیں ان سے ہمدری ہے۔ ان بچوں کا دکھ ہے جو یتیم ہو گئے۔ ان بیواؤں کا الم دیکھا نہیں جا رہا جو اپنے سر کی چادر کھو بیٹھی ہیں۔ ان نوجوانوں کا کرب محسوس کر رہے ہیں جن کے بھائی جو بازو کہلاتے ہیں اس واقعہ میں کٹ گرے۔ ان ماؤں کے سینوں سے اٹھنے والی آہوں سے ڈر لگ رہا ہے جن کے جوان بیٹے کھو گئے۔ ان باپوں کے غمناک چہرے اور اندر آنسوں گراتی آنکھیں دیکھی نہیں جا رہی جن کو بوڑھے کندھوں پر نوجوان لاشے اٹھانے پڑے ہیں۔

دوسری طرف ہمیں تو تعلیم ہی یہ تھی کہ الحکمۃ ضا لۃ المومن۔ حکمت کی بات مومن کی ہی متاع ہوتی ہے جہاں ملے لے لینی چاہیے۔ اگر بات حکمت کی ہے تو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ کس نے کیا اور کس نے کہا۔

جب ہم بزعم خود کسی کو کافر، لادین، مشرک سمجھتے ہیں تو اپنی اس ”مقدس“ سوچ کے ساتھ ہی اس سے ہر قسم کے حقوق چھین لینے کا سرٹیفیکیٹ از خود کیوں حاصل کرلیتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ا س کی عبادت گاہ جلانے کا استحقاق حاصل ہو گیا ہے۔ لوٹنے، مارنے، جلانے، زبردستی کرنے کا اذن عطا ہو گیا ہے۔ ہمیں یہ حق مل گیا ہے کہ ہمارے نزدیک جو کافر ہے اس سے جینے کاحق بھی چھین لیں۔ ان سے عبادت کا حق بھی چھین لیں۔ عدالت میں یہ درخواست بھی دے دیں کہ مسلمانوں کے علاقے سے ایک مسیحی فرد گزرا نہ کرے۔ اسے راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے۔

ہمارے سید و مولا ﷺ تو سب سے بڑھ کر مظلوم کے ساتھ کھڑے رہے۔ حلف الفضول ایک معاہدہ قبل از نبوت و رسالت مشرکین کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ باقیوں کو تو یاد بھی نہ رہا لیکن اگر نہیں بھولے تو میرے آقا و مولیٰ اس عہد کو کبھی نہیں بھولے۔ جب بھی کسی نے آپ ﷺ کو ا س عہد کا واسطہ دے کر مدد طلب کی آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور حق دار کو حق دلا کر چھوڑا۔ مظلوم کی داد رسی کر کے ہی چین سے بیٹھے۔ لیکن ہماری مسلمانی ہمیں مظلوم طبقے کے ساتھ کھڑا ہونے سے کیوں روکتی ہے۔ ا س کے لئے آواز بلند کرنے سے کیوں منع کرتی ہے۔ ہم تعزیتی بیان دینے سے قبل کئی بار سوچتے ہیں کہیں مرنے والا احمدی، مسیحی یا ہندو تو نہیں تھا۔ اگر کوئی بیان جاری ہو جائے تو پھر دہائیاں اس بیان کی صفائیاں دیتے گزر جاتی ہیں۔

مسلمان کہلا کر، ممتاز قادری، خادم رضوی، افضل قادری اور خطیب حسین بننے سے تو بہتر ہے کہ کوئی ملحد رہ کر جیسنڈا آرڈرن بن جائے۔ کاش کہ ہم تھوڑی سی ہمدردی، کچھ انسانیت، کچھ ادب آداب، کچھ معاشرتی طور طریقے، ہمدردی کے دو بول، تعزیت اور دل داری کے طریق نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن سے ہی سیکھ لیں کہ حکمت کی ہر بات مومن کی گم شدہ متاع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).