کیا تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلتی جا رہی ہے؟


پہلے 100 روز میں تبدیلی کے بڑے بڑے دعوے، صحت، تعلیم اور روزگار کو عام آدمی کی دہلیز تک پہنچانے کی باتیں، سابقہ حکمرانوں کی طرح قومی خزانے کو سڑکوں، پلوں اور گلیوں کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر نے کا نعرہ مستانہ لگاتی تبدیلی حکومت اپنے تمام تر نعروں، دعووں اور باتوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے پر ناکام و لاچار دکھائی دیتی ہے۔ 100 روزہ پھر 150 روزہ اور اب ایک سال کا وقت دے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام جاری ہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ تبدیلی سرکار کے معرض وجود میں آنے سے اب تک ملک میں بے بر کتی کاآسیب ہے۔ کاروباری طبقہ اپنے تباہ حال ہوتے کاروبار کو دیکھ کر اور حکمرانوں کی تاجر و کاروباری دشمن پالسییوں کو دیکھ کر پریشان ہیں۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور غریب پر زندگی مزید تنگ ہو رہی ہے۔ سونا اور ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں جبکہ قرضوں میں 110 ارب کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ایشائی ترقیاتی بنک کے مطابق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 2020 تک پاکستان کی معاشی ترقی خطے میں سب سے کم رہے گی اور مہنگائی میں اضافہ اور روپے کی قدر میں دباؤ رہے گا۔

ماہرین معاشیات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ملک تاریخ کی انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی پانچ سال کی بلند ترین شرح کو پہنچ گئی ہے۔ پاکستان شماریات بیورو کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2018 کی نسبت مارچ 2019 میں مہنگائی 9.41 فیصد بڑھی جبکہ اپریل 2014 میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 9.1 فیصد تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا مارچ مہنگائی 6.7 فیصد بڑھی جبکہ فروری کی نسبت مارچ میں مہنگائی 1.42 فیصد بڑھ چکی ہے۔

قارئین کرام! افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کے تما م وزیر و مشیر ”وقت ٹپاؤ“ پالیسی پر گامزن ہیں اور پروٹوکول کے مزے لیتے ہوئے روز بروز مہنگائی کے گڑھے میں گرتی عوام کو دیکھتے ہوئے تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔ صرف اپنے اپنے مفادات کی خاطر مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں اور مہنگے سوٹ، امپورٹڈ شوز اور فرانسیسی خوشبوئیں لگائے کبھی ایک اجلاس میں تو کبھی دوسرے اجلاس میں صرف اپنی آنیاں جانیاں ریکارڈ کراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں مشیروں اور وزیروں کے مہنگے ترین کپڑوں کا تو وزیر اعظم عمران خان نے بھی ذکر کر دیا۔

پاکستان ٹورارزم سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے زلفی بخاری اور عاطف خان کے کپڑوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ زلفی بخاری نے ایسے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں جیسے فرانس کی سیاحت کو پروموٹ کر نے جا رہے ہیں۔ یہ وہی زلفی بخاری ہیں جو اپنے محکمے میں کوئی تبدیلی تو نہ لاسکے لیکن اپنی وزارت کے نشے میں مست ہو کر جیلوں کے جیلرز کو صرف اس وجہ سے معطل کروادیتے ہیں کہ وہ ایماندارکیوں ہے؟ اور ان کے کہنے پر چلنے کی بجائے قانون پر چلنے کا کیوں کہتا ہے۔

جبکہ ایک اور وفاقی وزیر کی بدمعاشی سے تنگ آکر لاہور کے تاجروں نے پورے شہر میں بینرز لگا دیے کہ وہ بھی وزارت کے نشے میں چور ہو کر صرف اپنے مفادات کے لئے لوگوں کے بچوں پر جھوٹے پرچے درج کروا کر اور انہیں گھروں سے اٹھوا کر غائب کروا دیتے ہیں۔ کبھی ایک سیف ہاؤس تو کبھی دوسرے، پھر بھی وزیر موصوف کا نشہ ن اترے تو پھر درجنوں پرچے درج کرواکر اپنی طاقت کا اظہار فرماتے ہیں۔ وزراء کی کم علمی اور کاہلی کا اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ادویات سازکمپنیوں نے ڈریپ کے سابقہ جعلی چیف ایگزیگٹوافسر کی ملی بھگت سے ادویات کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرتے ہوئے جان لیوا امراض کی ادویات 399 روپے تک مہنگی کر دی ہیں۔

وزیر اعظم سے لے کر محکمے کے وزیر اور ماتحت ذمہ داران اس ظلم عظیم پر صرف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور جس کا جو دل کرتا ہے وہ کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق امراض قلب کی میڈیسن ٹری فورج کی قیمت 186 روپے سے بڑھا کر 485 روپے کر دی گئی۔ شوگر کو کنٹرول کرنے والی دوا پہلے 272 روپے کی تھی اب 460 روپے میں مل رہی ہے، گلے کے امراض کی دوا اریتھروسن کی قیمت 548 سے 921 روپے ہوگئی۔ بلڈپریشر کنٹرول کرنے والی کون کور دوا کی قیمت 162 سے بڑھا کر 235 روپے وصول کی جا رہی۔ سردرد کے لئے دوا ڈسپرین کی قیمت میں 27 روپے فی پیکٹ کا اضافہ ہوا ہے۔

قارئین محترم! پنجاب کا حال یہ ہے کہ یہاں وزارت اعلیٰ کے منصب پر ایک ایسا شخص براجمان ہے جسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں وہ صرف اپنے عزیز رشتے داروں کو نوازنے کے لئے متحرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی پربھی وزیر اعلیٰ کا رنگ چڑھتا جا رہا ہے۔ جنہیں پہلے ہی کام کرتے ہوئے موت پڑتی ہے وہ بھی اب دفتروں سے غائب رہتے اور مہینوں فائلوں کو لٹکائے رکھتے ہیں۔ اداروں کے جتنے بھی سر براہ ہیں وہ سب انتہائی سست اور کاہل ہیں جس کی وجہ سے عوام اپنے جائز کاموں کے لئے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔

پنجاب کے ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ یہاں انسانوں سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک رواء رکھا جا رہا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میاں شہباز شریف یاد آجاتے ہیں کہ کم از کم ان کے خوف سے بیورو کریسی نامی مخلوق کانپتی تھی اور یوں لوگوں کو آسانیاں میسر آجاتی تھیں جبکہ اب حال یہ ہے کہ لفظ ”بزدار“ ایک لطیفہ بن کر رہ گیا ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں حکومت نامی کوئی شے موجود نہیں۔ عوام کو بے سر و سامانی کے عالم میں ذلیل وخوار ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے اور ایسے حالات میں دیکھتے ہوئے حرام خور اور کرپٹ افسران خوب تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں اور مجھ سمیت کئی لوگ اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلتی جا رہی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).