جاگنگ، لڑکی اور ٹی شرٹ


پارک میں کڑیاں جاگنگ کرتی ہیں۔ یہ سن کر ہم سے رہا نہیں گیا تھا۔ مشر کی قیادت میں ہم لوگ جوگرز پہن کر پارک پہنچ گئے تھے۔ دو تین کلومیٹر کا جاگنگ ٹریک دیکھ کر ہی بخار ہو گیا تھا۔

ٹریک کے شروع میں ہی ہم لوگ اک بنچ پر ڈھیر ہو گئے۔ ڈیرانی ٹریک سوٹ پہن کر آیا تھا۔ اس نے ہم سے کہا کہ تم دونوں مرو ادھر ہی میں جا رہا دوڑ لگانے۔ یہ کہہ کر وہ الٹی سائڈ سے روانہ ہو گیا۔ مشر نے بہت غور سے جائزہ لے کر بتایا کہ اک آنٹی پارک میں واقعی گھوم رہی ہے۔

مشر نے کہا رازہ (چلو) ہم چل پڑے۔ ٹریک چھوڑ کر درمیان سے کراس مارتے ہوئے اک مناسب مقام پر ٹریک پہ چڑھ گئے۔ اب آنٹی ہمارے پیچھے دوڑتی آ رہی تھی۔ ڈیرانی سامنے سے آ رہا تھا۔
آنٹی نے دوڑتے ہوئے ہمیں اوور ٹیک کیا۔ سامنے سے ڈیرانی آ رہا تھا۔ اس کمبخت کو اس کے لمبے قد کی وجہ سے ڈیرانی کہتے تھے۔ ہم سب کئی سال یہی سمجھتے رہے کہ ڈیران (کوڑا پھینکنے کی جگہ ) سے ڈیرانی بنایا ہے۔

گورا چٹا ہمارا ڈیرانی تھا۔ اچھا فٹ بالر اچھا فاسٹ بالر۔ بس اک بیماری تھی کہ بالکل سیدھا تھا۔ دوڑتے ہوئے رکنے کے لیے جب بریک لگاتا تو ہاتھ کھول کر جہاز بن جاتا۔ پھر آہستہ آہستہ رک بھی جاتا۔ تب یہ جنگی جہاز سا بھی لگتا تھا۔ ہم لوگ اسے کبھی ڈیران ائر لائین بھی کہنے لگ جاتے تھے۔ اسے کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔

ڈیرانی جب آنٹی کے نزدیک پہنچا تو جہاز بن گیا ہاتھ کھول لیے۔ پہلے تو لگا کہ آنٹی سے جپھی ڈالنے لگا ہے۔ یہ دیکھ کر دور کھڑا سپاہی بھی ہماری طرف بھاگنے لگا۔ آنٹی بھی گھبرا گئی۔ مشر بھی شارٹ ہو گیا۔ ڈیرانی ہاتھ کھول کر بریک لگانا بھول گیا۔ آنٹی بڑی مشکل سے بچی۔

اپن کو سیدھی ٹکر لگی ڈیرانی کی۔ مشر نے ایک بہترین قسم کا چانٹا لگایا ڈیرانی کے۔ وہ احتراماً اسی کے اوپر گر بھی گیا۔ لڑکھڑاتا ڈولتا ہوا میں بھی جا کر دور کھڑا ہو گیا۔ سپاہی بھی پہنچ گیا۔ اس نے اب ہم تینوں پر لاٹھی چارج کرنا تھا۔ آنٹی اس سپاہی سے بولی زہ رک شہ ( چل بھاگ ) ۔

مشر نے نیچے لیٹے لیٹے ڈیرانی کو دہ خر بچے کا خطاب بھی دے دیا۔ ڈیرانی اٹھ کر بولا زمنگ سکول فیلو دہ۔ ہماری سکول فیلو نادیہ ہے۔ یہ سن کر مشر کھسک گیا۔

نادیہ نے تب تک سر سے اپنے اپر کا ہڈ ہٹا دیا تھا۔ یاد آ گیا، اب شرمندہ سے کھڑے تھے۔ نادیہ بولی شوداگانو شرما گے نہ۔ ظاہر ہے تعریف ہی کر رہی تھی کہ تم لوگوں کو کتنی شرم آتی ہے۔ ڈیرانی بولا کہ منگ تہ سہ پتہ وا چہ دہ بہ تہ اے۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ تم ہو گی۔

ڈیرانی تو اگلے دن ہی توبہ گار ہو گیا۔ ہم لوگ سکول میں بھی نادیہ سے ڈرتے تھے، اب وہ یونیورسٹی اور ہم کالج میں تھے۔ ہم بڑے ہو کر تھوڑے بولڈ ہوتے الٹا اب گھبراہٹ زیادہ ہو گئی تھی۔ عجیب سا ڈر تھا کہ روڈ پر ہی روک کر ہمیں دو دو تھپڑ نہ لگا دے۔

ڈیرانی بھاگ گیا واک سے کہ بس دے نور نہ کوم۔ مشر کسی مشن پہ تھا ان دنوں۔ وہ دکان سے دو جوسر لے کر شہر جاتا تھا۔ واک کوہ غٹ شوے۔ واک کر موٹے ہو گئے ہو۔ تھکا ہارا دو تین کلومیٹر چلتا رہتا۔ نادیہ بھی کبھی دکھائی دے جاتی۔ ایسے ہی اک دن دوپہر کو واک کر رہا تھا۔ اس نے بھی دوڑتے ہوئے کراس کیا۔

واپس مڑی، وسی تم ٹریک سوٹ کیوں نہیں پہنتے۔ ان کمبختوں کے ساتھ پھر پھر کر انہی جیسے خوار ہو گئے ہو۔ میں نے ٹراؤزر پہننا چھوڑ دیا ہے۔ ستا مازغہ خراب دی کہہ کر وہ چل پڑی۔

وقت گزر گیا، ہم خجل ہوتے کام بدلتے ٹیکنالوجی سے آشنا ہوئے۔ ایک نیوز ویب سائٹ شروع کی۔ ویلا ٹائم نیٹ پر سرفنگ کرتے رہے۔ یوں ہی گھومتے گھامتے۔ اک دن میسج آیا اب بھی شلوار قمیض میں ہی کرکٹ کھیلتے ہو۔ اسی میں جاگنگ کرتے ہو۔

پوچھ پوچھ کر تھک گیا کہ کون ہو۔ نہ بتایا، پھر خود نام لے لے کر کہا کھڑپینچ ہو، نہیں۔ چو؟ نہیں، ڈیرانی نہیں، مشر نہیں، خرگوش؟ نہیں۔ خپل کار کوہ چہ ہر یو کنی اے۔ بس یہ سننا تھا کہ بہترین قسم کی نئی انگریزی گالیاں سننے کو ملیں۔ نادیہ ہوں۔

مجھے پتہ تھا تم سب ایسے ہی کمینے ہو۔ ایسے ہی بکواس کرتے ہو۔ سکول میں بھی گالیاں تم لوگ ہی دیتے تھے اک دوسرے کو۔ روز پٹتے تھے پھر بھی رکتے نہیں تھے، کیسے ہو۔
ویسا ہی ہوں، کیسے ہیں باقی۔ وہ بھی ویسے ہی ہیں۔ بال بچے دار ہو گئے ہیں۔ تم نہیں ہوئے۔ نہیں میں نے ابھی شادی نہیں کی۔ کیوں نہیں کی۔ کوئی ملتی ہی نہیں ہے۔ کیوں نہیں ملتی کیا ڈھونڈ رہے ہو؟

لمبی سی موٹی سی گوری سی بدتمیز سی۔ اوئے مجھے لائین مار رہے ہو بے شرما۔ نہیں نہیں، کیوں نہیں، میں ایسی نہیں ہوں کیا۔ ایسی ہی تھی۔ نہیں ایسی نہیں ہو۔

ویسے یہ بدتمیز کیوں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لڑکی کے ساتھ ذرا روڈ نیس اچھی لگتی ہے۔ باقیوں کو دبا کر رکھے۔ آسان ٹارگٹ نہ ہو۔ کمال ہے بکواسی بڑا سوچا ہے۔ لطیفے اب بھی ویسے ہی یاد رکھتے ہو۔ ہاں کچھ کچھ، بس کچھ کتابیں خرید لی ہیں اب لطیفوں کی۔

کیسا منحوس لطیفہ سنایا تھا تم نے نکے کا۔ کون سا ؟ وہی جس میں پوچھتا ہے اک خاتون سے جو امید سے ہوتی ہے کہ یہ کیا ہے۔ وہ نکے کو بچہ سمجھ کر بتاتی ہے کہ یہ میرا پیارا سا کاکا ہے۔ نکا اسے کہتا ہے کہ اتنا پیارا ہے تو کھا کیوں گئی۔

اس نے یاد کرایا تو کچھ شرم آئی کچھ ہنسی۔ جب یہ سنایا تھا تب اس کی خود بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ مس سن کر ہنستی تو رہی تھی شرماتے شرماتے۔ میرا کان البتہ اس نے اس دن اکھاڑ ہی دینا تھا کھینچ کھینچ کر۔
ہماری گپ لگنے لگی۔

اک دن اس نے پوچھا کہ صحیح صحیح بتا اس دن پارک میں کیا کر رہے تھے۔ کڑیاں دیکھنے آئے تھے۔ سنا تھا کہ دوپہر کو یہاں دوڑ لگاتی ہیں۔ تم مل گئی تھیں۔
ڈیرانی سامنے سے کیوں آ رہا تھا۔
حساب کتاب دیکھنے آ رہا ہو گا مجھے کیا پتہ۔

تم لوگ پیچھے سے آ رہے تھے پشاور دیکھنے۔ اے ہے کنیانو۔ اس بار اس نے اخیر قسم کا تبصرہ کیا تھا۔ کمبخت کو پتہ تھا کہ پشوریوں کا پشاور اور دل پشوری پیچھے ہی ہوتی ہے۔

نادیہ تم نے شادی کیوں نہیں کی۔ اس نے کہا تمھیں کس نے کہا کہ شادی نہیں کی۔ شادی بھی کی افئر بھی کیے پر چلے نہیں، بس گھسٹ ہی رہے۔ ہائے تم نے شادی بھی کر رکھی ہے کیا۔ ہاں بابا کر رکھی ہے کیوں تم نے کرنی تھی؟

نہیں نہیں میں نے نہیں کرنی تھی۔ لیکن تم نے جو حساب کتاب بتایا تھا لمبی سی بھاری سی گوری سی بدتمیز سی اس پر تو میں بالکل پورا اترتی ہوں۔

ہاں حساب کتاب تو تمھارا بالکل ٹھیک ہے۔
وسی میں نے تمھیں سینڈل سے مارنا ہے۔ ادھر حساب کتاب تم نے ہیڈ لائیٹوں کو ہی بولا ہے نہ؟

وہی وہی عصمت نے جسے توپ خانہ لکھا تھا۔ اسی کا بولا۔
بہت ہی بڑے بے شرم ہو۔

تم ٹی شرٹ کیوں نہیں پہنتے۔ پہنا کرو اچھی لگے گی تم پر۔
نیچے نیکر شکر پہن لیا کروں یا بس ٹی شرٹ ہی کافی ہے۔
بکواسی ٹراؤزر نیکر ٹی شرٹ سب پہنا کر۔ پہنو گے تو بھیج دوں۔

یار ان خڑوں کے ساتھ رہ کر ان سے زیادہ خڑ سا ہو گیا ہوں۔
اس نے یہ سن کر کہا ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ بالکل گدھے ہو۔ اس کی بات سنی ہی نہیں اپنی ہی سنائی۔

ٹی شرٹ تو پہنوں۔ پر ہائے کسی اچھے حساب کتاب والی گوری نے پہنی ہو۔ بھائی نے لنڈے سے خریدی ہو۔ پہن کر پھرے۔ رات کو مست مست خواب آئیں۔ پہننا چاہیے تھی۔ اب تک پتہ نہیں کیوں نہیں پہنی۔

وہ میرے ارمان سن کر ہنسنے لگی۔ پھر بولی
ابے لنڈے سے مت خریدنا منحوسا میں بھجوا دیتی ہوں۔ کسی گوری کو ٹرائی کرا کے بھجوانا۔ ہاں ہاں تمھاری فوٹو دکھاؤں گی تو گوری فوری مان جائے گی، وسی تم مجھے جیل کرانا۔

جلد ہی اک دن پارسل میں ٹی شرٹ بھی آ ہی گئیں، اس نے بھجوا دی تھیں۔ الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ سونگھ کر بھی دیکھا، کوئی مہک تھی، شاید نہیں تھی، یا بس وہم ہی تھا۔ کوئی گوری پتہ نہیں اس کے ہاتھ لگی یا نہیں۔ پہنی پھر شرما کر اتار دی۔

ہماری بات ہوتی رہی۔ اک دن فون آیا وسی کیسے ہو۔
ٹھیک ہوں، یار جاگنگ ٹریک پر اک چکر تو لگا کر آ کل تین بجے۔
تمھارا دماغ خراب ہے لڑکی۔ پشاور کی گرمی دیکھ اور ٹائم دیکھ۔
پلیز چلے جاؤ مجھے اپنا شہر یاد آ رہا ہے۔
بالکل نہیں جاؤں گا، اس نے غصے سے فون بند کر دیا۔

اگلے دن تین بجے جاگنگ ٹریک پر اسی کی شان میں شاعری کرتا جا رہا تھا۔ ہوا رکی ہوئی تھی۔ کلومیٹر بھی نہیں چلا ہوں گا کہ وہ سامنے سے آتی دکھائی دی۔ مار دیا ان لڑکیوں کے سرپرائز نے۔ کہیں ڈھنگ کی جگہ ملتے۔
پاس گیا اس نے ہاتھ بڑھایا ملایا۔ اک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ گرمی تھی پسینہ آ رہا تھا دونوں کو۔ اک مانوس سی مہک آئی۔ سر میں بجلی سی چمکی اوئے ٹی شرٹ تمھاری تھی؟

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi