حکومت مخالف بات چل نکلی ہے


2018 کا الیکشن تھا۔ برسراقتدار وزیراعظم کذب بیانی اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت نا اہل ہوچکا تھا، اس کی پوری سیاسی جماعت زیر عتاب تھی، احتساب کا نعرہ مستانہ سب کو اپنا دیوانہ بنا چکا تھا اور پھر جانے اللہ کے کس نیک بندے کی دعاؤں کے طفیل ڈاکوؤں، چوروں اور لٹیروں سے پاکستانی قوم کی جان چھوٹی۔ یہ کوئی نئی بازیافت نہیں تھی بلکہ فاطمہ جناح سے لے کر اب تک اپنے سیاسی حریف کے چہرے کو لفظی کیچڑ سے ملفوف کر دینا، تاریخ کا الٹ پھیر، کذب بیانی، جھوٹے خوابوں کی تشہیراور عوام کو حاصل مجموعی نوعیت کے حقوق پر شب خون مارنے کے ارادے، یہی سارا کھیل کھیلنا وقت کا سیاسی رواج بنایا جاتا رہا۔

طرہ یہ کہ درپردہ سازشوں کے تحت لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کی نت نئی تقسیم کاری کو فروغ دے کرٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالنے کی کوششیں دوبالا کردی گئی۔ پرانی وضع کی ہر ترکیب کا ناک نقشہ بھی یہ کہہ کر مٹایا جانے لگا کہ یہ سب وطن دشمنوں کی حکمت عملی تھی۔ پچھلے کچھ عرصہ سے سرکاری سطح پر ملک میں جو کچھ بھی ہوتا رہا، بکاؤ میڈیا ایک خاص مصلحت اور یرغمال سوچ کے تحت حقیقت ِحال کو شاذ و نادر ہی بیان کرتا اور بدلے میں بےسروپا فسانہ تراشیوں کا سہارا لے کر ریاست اور سیاست دونوں کی مروجہ اقدار کے چیتھڑے اڑائے گئے۔

سیاستدان ستر سال سے ایک ہی طرح کی لوریاں عوام کو سناتے رہے۔ بس ان کی ترتیب ہر پانچ سال بعد بدلتی رہی۔ کبھی پنجاب میں لوہے کی سرنگیں دریافت ہو جاتیں اور ملک کی تقدیر بس بدلنے والی ہوتی، کبھی سندھ میں کوئلہ ہمیں چاند پر لے جانے کے لئے کافی ہوتا، کبھی بلوچستان میں قیمتی معدنیات کی الف لیلہ سے ہمیں محظوظ کیا جاتا، کبھی خیبر پختونخوا میں قیمتی پتھروں اور جواہرات کی پریوں کی کہانیاں سنائی جاتیں، کبھی تربیلہ ڈیم گیم چینجر ہوتا، کبھی موٹر وے عوام کی قسمت بدلنے کے لئے کافی ہوتی، کبھی سی پیک گیم چینجر بن جاتا۔

اوراب سمندر سے گیس اور تیل کے ذخائر کی دریافت، لاکھوں نوکریوں کی بوچھاڑ اور ڈالروں کی برسات۔ کہیں محمد بن سلمان، مہاتیر محمد، طیب اردوان وغیرہ کی انویسٹمنٹ ہماری معیشت کے لئے سنگ میل ثابت ہوتی ہے۔ متعدد بار آئی ایم ایف سے لیا جانے والا قرضہ ہماری آئندہ خوشحال منزلوں کا تعین کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمیں پرانے پاپیوں کے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرض لینے کا پاپ کرنا پڑتا ہے، وہ بھی ایسے میں جب صادق و امین کی عدالتی مہر بھی ہماری پشت پر ثبت ہوچکی ہو۔ ایک روٹی کھانے کے قیمتی مشوروں کے باوجود قرضوں کا ایک ایسا انبار لگ چکا جس کو مدعا بنا کر مزید کئی سال کئی پارٹیاں اپنی اپنی سیاست چمکائیں گی۔

پاکستان کے سمندر سے تیل کے ذخائر کئی بار نکلے لیکن بدقسمتی سے آج تک کسی فلک شگاف پہاڑی سلسلوں، وسیع و عریض زرخیز میدانوں اور برف پوش وادیوں سے ہمیں کوئی مثبت نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ دنیا کی دسویں بڑی افرادی قوت، انجینئرز ڈاکٹر ز اور سائنسدان رکھنے والے دنیا کے ساتویں بڑے ملک میں آج تک کیا بدلا؟

روز اول سے ہی جمہوریت نے آمریت اور آمریت نے جمہوریت کو ہر نقصان پر ذمہ دار ٹھہرایا لیکن خیر خواہوں نے تمام معاملات کو بڑی فنکاری کے ساتھ رفع دفع کیا اور کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے حکمرانوں میں ایک خوبی مشترک ہے کہ گڑ دیں یا نہ دیں گڑ جیسی باتیں ضرور کرتے ہیں اور یہی گڑ مرتی سسکتی عوام کو پھر سے زندگی کی مٹھاس دیتا ہے۔ اور پھر سے عوام لارے لپے ایک نئی امید اور پارٹی کے ساتھ نئے سرے سے سفر شروع کرتے ہیں۔ ایک مدت سے تبدیلی کا جو خواب پوری قوم کو دکھایا جا تا رہا، اب بکھرتا دکھائی دیتا ہے۔

کئی افلاطونوں اور بقراطوں کا کہنا ہے کہ سماج اگر خوشحال ہے تو ریاست کی مضبوطی اور بادشاہ کی دانائی میں شک کرنے والا پاگل ہے۔ سوال بے شمار ہیں جواب مگر کسی ایک کا بھی نہیں۔ حکومت کے اندر ایک سے زائد دھڑے ہیں جو ایک دوسرے پرغالب آنے کی تگ و دو میں جتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت آنے کی وجوہ بڑی سادہ ہیں، کرپشن کے خلاف جدو جہد، اقربا پروری کی حوصلہ شکنی، وزیر اعظم کا دیانت دار ہونا، پندرہ سے بیس افراد کی وفاقی کابینہ، 47 سے 50 روپے لیٹر تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کرنے کا دعویٰ، ٹیکس نیٹ میں اضافہ، ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ میں لانا، مافیاز کا خاتمہ، میرٹ کی بحالی، صحت و تعلیم کی ارزاں فراہمی، بے گھر افراد کو گھر، اور اسی نوع کی دیگر بہت سی دل نشیں باتیں جن سے عام آدمی کی امنگ میں اضافہ ہوا، اور پھر اس پر بے جا امید کے گھروندے تعمیر کیے گئے۔

اس کے باوجود زمینی حقائق بدلنے کے لئے آزاد امیدواروں کو جہاز بھر بھر کر شریک ِ اقتدار کرنا پڑا اور چند دانا لوگوں پر تکیہ کر کے وفاقی حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان ٹیلی ویژن پر کہا کرتے، جب مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھو تمہارا وزیر اعظم کرپٹ ہے، ہم حکومت میں آکر عام آدمی کی زندگی بدل دیں گے اور پھر بجلی کے بلوں کو آگ لگانے کا مظاہرہ کیا جاتا۔ وزیر خزانہ اسد عمر تو ایک ہی ٹاک شو میں معیشت کے عشروں سے کھڑے مسائل حل کر دیا کرتے تھے۔

جس شفاف احتساب کی بات عمران خان کیا کرتے تھے (اور تاحال کررہے ہیں ) ۔ اس احتسابی عمل اور اس کے نتائج پر اہلِ نظر باتیں کر رہے ہیں۔ کرپشن اور اقربا پروری کے طریقے بدل گئے لیکن سماجی رویہ نہیں بدلا۔ کون بتائے کہ قوموں کی تقدیر دو چار روز میں نہیں بدلتی بلکہ اس کے لئے عشروں محنت کرنا پڑتی ہے۔ حکومت سے کوئی معجزہ بپا نہیں ہو گا مگر مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی بھی تو نہیں؟

کیا تبدیلی کا سادہ مفہوم یہی ہے کہ پٹرولیم سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو تبدیل کر دیا جائے۔ اگر کوئی اس ظالمانہ اقدام کا دفاع کرتا ہے توکیا وہ بری طرح شخصیت پرستی اور ذہنی خلفشار کا شکار نہیں، کیا یہ سچ نہیں کہ پی ٹی آئی بری طرح اپنے وعدوں اور دعوؤں کی زد میں خود ہی آئی ہوئی ہے اور حالات کسی اور طرف چل نکلے ہیں۔ باتیں ہو رہی ہیں اور ہلکی پھلکی موسیقی شروع ہے، سر پکنے کی دیر ہے اور پھر کوئی تان سین حاضر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).