دہشت گردی کے واقعات میں لاپتہ کمسنوں کے نام


وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ بازار میں سودا لینے گئی، بڑے دونوں بچے سکول گئے تھے جبکہ چھوٹے بیٹے نے ضد کرکے چھٹی کرلی تھی، جسے ساتھ لے کر آئی تھی۔ ابھی وہ سبزی کی دکان پر مول تول کررہی تھی کہ اچانک ایک دھماکہ ہوا اور آناً فاناً سارا منظر تبدیل ہوگیا،

ہر طرف دھواں پھیل گیا اور چیخ وپکار شروع ہوگئی، اردگرد لوگ سڑک پر گرے پڑے تھے، زخمیوں اور لاشوں کی پہچان مشکل تھی، بچ جانے والے خوفزدہ تھے، ایک لمحے کے لیے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا اور پھر جیسے ایک تباہی کا منظر تھا۔ چند منٹوں بعد ایمبولینسوں اور پولیس کی گاڑیوں کی آمد شروع ہوئی، مرنے اور زخمی ہونیوالوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری تھا۔

رضیہ بی بی کے سر اور کندھے پر کوئی آہنی شے لگنے سے شدید زخم آئے تھے، لیکن ہوش میں آنے کے فوری بعد اس کی نگاہیں اپنے سات سالہ بیٹے جمیل کو ڈھونڈنے لگیں۔ اسے کہیں نہ پاکر رضیہ نے اپنے ذہن پر زور دیا کہ اس دھماکے سے پہلے جمیل کہاں تھا، اوہ میرے خدایا وہ تو اسے یہ کہہ کر گیا تھا کہ میں سامنے دکان سے پانی پی کر آتا ہوں۔

رضیہ کی نظریں اس دکان کی طرف گھوم گئیں مگر وہاں تو ایک تباہی کا عالم تھا اور کچھ بھی موجود نہیں۔ ابھی وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ امدادی کارکنوں نے آکر اسے زمین سے اٹھایا اور کہا بی بی چلو ہسپتال لے کر چلتے ہیں، تمہارے سر سے خون بہہ رہا ہے۔

رضیہ نے کہا کہ میں اپنے بچے کو دیکھ لوں وہ میرے ساتھ آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کتنی عمر تھی اس کی اور کون سے کپڑے پہن رکھے تھے، وہ سات سال کا ہے، اس نے سبز قمیض اور نیلی پینٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے پاؤں میں چپل تھی۔ رضیہ نے انہیں بتایا۔

ہم اسے بھی تلاش کرلیتے ہیں بی بی تم تو چلو۔

رضیہ نے اصرار کیا کہ وہ اپنے بچے کو دیکھے گی کہ وہ کس حال میں ہے، لیکن اسی دوران وہ چکرا کر دوبارہ گر گئی، ہوش آنے پر اس نے خود کو ہسپتال کے بستر پر دیکھا، جہاں ٹی وی چینل کے رپورٹر کیمرے لے کر اس کے سرہانے کھڑے تھے۔

آنکھیں کھلتے ہی انہوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ آپ بی بی اس وقت کیا کررہی تھیں، وہاں کیا لینے آئی تھیں، جب دھماکہ ہوا آپ نے سب سے پہلے کیا دیکھا۔ کیا آپ خوفزدہ ہوئیں اسی طرح کے مختلف سوال تھے۔

وہ بے چاری اپنے بیٹے کے بارے میں سوچ رہی تھی اچانک اسے خیال آیا کیوں نہ ٹی وی والوں کو اپنے بچے کے بارے میں بتادے۔ اس نے ہمت کرکے سارا واقعہ سنایا اور بتایا کہ اس کا بیٹا بھی ساتھ تھا جس کا کوئی علم نہیں وہ کس حال میں ہے۔ رضیہ کی آنکھیں بھر آئیں مجھے یہ بھی نہیں پتہ میرا بچہ زندہ بھی ہے کہاں ہے، آپ لوگ اس کو ڈھونڈنے میں کوئی مدد کرسکتے ہیں۔

رضیہ بی بی کو اگلے روز ہسپتال کے عملے نے پوچھا کہ آپ کے گھر والے نہیں آئے۔

اس نے بتایا کہ میں اپنے دو بچوں کو سکول بھیج کر چھوٹے بیٹے کو ساتھ لائی تھی، میرا شوہر دوسرے شہر ملازمت کے سلسلے میں گیا ہے، کون آئے گا۔ میرے تو بچوں کو بھی نہیں معلوم ہوگا کہ میں کس حال میں ہوں۔

آپ اپنا فون یا کوئی رابطہ بتادیں ہم اطلاع دیدیں گے، ہم دوسرے زخمیوں میں آپ کے بچے کو دیکھتے ہیں، ڈاکٹر نے رضیہ بی بی سے کہا

مجھے میرے گھر پہنچادیں بڑی مہربانی ہوگی۔

ڈاکٹر سٹاف سے انہیں کسی گاڑی پر بھیجنے کا انتظام کرو۔

رضیہ اپنے بیٹے کے بارے میں سوچنے لگی کہ شاید وہ کسی دوسرے ہسپتال میں ہو۔

گھر پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ بڑا بیٹا اور بیٹی ماں اور بھائی کے بارے میں لاعلم تھے، انہیں کسی پڑوسی نے بتایا تھا کہ شاید تمہاری والدہ اور بھائی دھماکے میں زخمی ہوگئے ہوں، محلہ داروں نے ایک دو ہسپتالوں میں رابطہ کرکے معلوم کیا مگر رضیہ کا کچھ پتہ نہ تھا۔

دونوں بہن بھائی کے چہرے پر ماں کو دیکھ کر طمانیت نظر آرہی تھی لیکن اب ان سب کو چھوٹے جمیل کی فکر لاحق تھی۔ ایک محلہ دار نے رضیہ سے کہاکہ ہسپتال کے ڈیڈ ہاؤس مردہ خانہ میں جاکر دیکھ لیتے ہیں خداناخواستہ جاں بحق نہ ہوگیا ہو۔رضیہ کا دل نہیں مانتا تھا اور ذہن اس طرف جانے کو تیار نہیں تھا۔کسی نے کہا میں جاکر دیکھتا ہوں رضیہ نے کہا وہ بھی جائے گی۔

ہسپتال کے مردہ خانے میں دو بچوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ رضیہ نے سہمتے سہمتے دونوں کو دیکھا ایک لمحے کو اسے لگا جیسے اسی کو جمیل ہو۔ لیکن ایک تسلی ہوگئی کہ ان میں اس کا بیٹا نہیں تھا۔ اب اسے پریشانی تھی کہ وہ کہاں گیا۔

ہسپتال تھانے اور نہ جانے کہاں کہاں اسے تلاش کیا گیا۔ مگر کچھ پتہ نہیں چلا۔رضیہ کا شوہر بھی چھٹی لے کر واپس آگیا، اس نے پورے علاقے میں ایک ایک گھر اور بازار میں جاکر جمیل کا پوچھا اس کی تصویر لگا کر ایک اشتہار دیواروں اور بسوں ویگینوں پر لگادیئے۔

رضیہ بی بی ننھے جمیل کی جدائی میں جسمانی زخم بھول کر دل پے لگے اس گھاؤ کو لئے بیٹھی تھی۔ اس کی مامتا کے لیے یہ غم برداشت کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے سوچا کہ میں نے کیوں اسے سکول سے چھٹی کرائی میری بدقستمی نے اس طرف کا منہ کرنا تھا۔

اس ایک دھماکے نے جیسے ان کے گھر کا شیرازہ بکھیر دیا ہو، نہ جانے کتنے اور جمیل اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہوں گے یا اس جہان سے رخصت ہوگئے۔

یہ خاندان اب کس سے پوچھے کہ ان کا لخت جگر کہاں گیا۔ کون اس المناک واقعے کی ذمہ داری قبول کرے گا۔ کیا وہ دہشت گردوں سے پوچھیں انہیں انسانیت سے کوئی سروکار نہیں، وہ تو محض تباہی مچانے اور دہشت پھیلانے کے مشن پر نکلے ہوتے ہیں۔

حکومت نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مرنیوالوں اور زخمیوں کی امداد کا اعلان کردیا۔ مگر کسی نے لاپتہ ہونے والوں سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔

شاید انہیں معلوم بھی نہیں ہوگا کہ ننھا جمیل بھی اس دھماکے کا ایک شکار ہے، اس خاندان کے غم کو سمجھنے والا کوئی تو ہو، حکام بالا میں سے کوئی تو انہیں محض دلاسہ ہی دیدے کہ تمہارے بچے کی تلاش کی جارہی ہے یا اسے ڈھونڈ لائیں گے۔

رضیہ بی بی اور اس کے خاندان کا کسی سیاسی جماعت کالعدم تنظیم یا کسی حکومتی اہلکار سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی ان لوگوں نے کبھی کسی ایسی سرگرمی میں حصہ لیا وہ تو ایک سیدھی سادھی زندگی بسر کررہے تھے اور وہ تو بمشکل اپنے گھر کا پہیہ چلارہے تھے۔ انہیں تو اردگرد ہونے والے واقعات اور سیاست کا بھی زیادہ علم نہ تھا۔ پھر یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟

آج اس واقعے کو گزرے کئی سال بیت گئے ہیں، مگر ننھا جمیل ان کی یادوں میں ایک مستقل غم کی صورت میں آباد ہے۔ اب بھی انہیں لگتا ہے کہ کسی روز وہ اچانک دروازے پر آکھڑا ہو اور ماں کو آواز دے امی میں آگیا۔ آپ مجھے کہاں چھوڑ آئی تھیں۔

لیکن یہ محض ان کی خواہش تھی، حقیقت بے حد تلخ ہوتی ہے، جس کا سامنا کرنا اتنا ہی مشکل عمل ہے۔

ماں باپ کے لیے اولاد کی موت کا صدمہ برداشت کرنا ممکن نہیں لیکن کھونے کا دکھ کہیں بڑا ہوتا ہے، جسے شاید کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar