جلتی ہوا کا گیت


سچ تو ہے کہ میرے لیے یہ کہنا نہایت مشکل ہے کہ اعلیٰ شاعری، آفاقی شاعری اور عالمگیریت کی وسعت کہاں تک ہے؟ لان جینس جسے Sublimityکہتا ہے اس کی وصف کیا ہے؟ اور کیسی شاعری زندہ رہے گی یا کس شاعری کو آنے والا زمانہ دریافت کرے گا یا کون سی شاعری ہماری نسل کے ہاتھوں بے اعتنائی کا عذاب سہہ رہی ہے۔ مگر ایسا ضرور ہے کہ آج جب کہ بعض اوقات ایک نشست میں شاعر کی پوری کتاب ختم کر کے قاری ہاتھ جھاڑ کر بے زاری سے کھڑا ہو جاتا ہے وہاں اگر کوئی شعر، کوئی مصرعہ، کوئی اچھوتی بات چونکا دے تو شاید یہی اچھی شاعری ہے، جو Elevateیا Upliftکرے، جسے آپ لمحوں میں نہ گزار لیں بلکہ اس کے ساتھ بار بار جینا چاہیں، اسے زندگی کے کئی رنگوں، حادثوں اور گزرگاہوں میں شامل سمجھیں۔

ہمارا عہد بڑا عجیب عہد ہے، ذرا پلک جھپکو تو بہت سارے مناظر یوں بدلتے ہیں جیسے ماضی میں سالوں میں بدلتے تھے۔ زمین و آسمان کی وسعتیں سمٹ گئی ہیں۔ کون و مکان کے فاصلے دُھواں ہوئے۔ چاند، سورج، تارے، سیارے سب پر لکھی کہی اور ُسنی باتیں وہ کہانیاں معدوم ہو گئیں۔ آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑنے والے Spaceکی جانب گامزن کسی Shuttleمیں کسی اور سیارے کے باسی بن گئے۔ نیٹ پر کی گئی Chattingنے خطوط کے رومانس کو کھو دیا، شکوہ گر لبوں کو سی بیٹھے، چاک دامن رفوگر بن گئے۔ گریباں سِل گئے، نالہ گر کی آہیں موسمی تغیرات کی نذر ہوئیں، اشکوں نے بہنا چھوڑ دیا، عشق و عاشقی، نامرادی اور آس و یاس کے مریضوں میں مرنے، بکھرنے اور مٹنے کی خواہشیں خاک ہوئیں۔

تیزرفتار زمانہ ہم سے جنون، وحشت، بے قراری، وارفتگی، شدت ِاحساس، احساسِ جمال اور عزم و حوصلے کی بلندی چھین کر غراتا ہوا دوڑ رہا ہے۔ ایسے میں ادب بھی یکسانیت کا شکار ہو گیا ہے اور بہت کم ایسا لکھا جا رہا ہے جو دل و دماغ دونوں کو متاثر کرے ”جلتی َہوا کا گیت“ ثروت زہرہ کی شاعری کی وہ کتاب ہے جو کئی حوالوں سے چونکاتی ہے۔ اس میں تازہ فکر و توانا ادراک بھی ہے تو سوچ کے مختلف زاویے اور احساسات کے اچھوتے روپ بھی۔

یہ بات واضح ہے کہ اس کی شاعری کی عورت وہ عورت نہیں جو کاروکاری کی گھناؤنی رسم کا شکار ہو کر وڈیروں کی اوطاقوں کا خرچ پورا کر رہی ہے۔ ثروت اس عورت کی بات بھی نہیں کرتی جو ُبزدل عاشق کے ہاتھوں تذلیل کا شکار ہو کر اس بھیڑیوں سے بھرے معاشرے میں ازسرِنو ترتیب ِزندگی کے لیے ہکا بکا کھڑی ہے۔ وہ نہ تو اس عورت کا ذکر کرتی ہے جس کے چہرے پہ تیزاب ڈال کر عمر بھر کے لیے دہکتے کوئلوں میں پٹخ دیا گیا، جس کے کپڑے تار تار کر کے سڑکوں پر برہنہ پھرایا گیا، ہسپتالوں کے دروازوں پر ڈاکٹروں کی دھتکاری سیاہ مقدروں والے بچوں کو جنم دیتی عورتیں بھی ثروت زہرہ کا موضوع نہیں ہیں۔

ثروت زہرہ کی شاعری میں موجود عورت ایک جداگانہ اندازو پہچان رکھتی ہے اور یہ عورت معاشرے کا ایک اہم فرد ہے، اسے بحیثیت عورت اپنی شناخت کروانے کے بعد انسان ہونے کا حق چاہیے کیونکہ وہ خود کوآدھی ادھوری نہیں بلکہ تخلیق و تحقیق کی صلاحیت سے مالامال انسان کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ یہاں پھر بات آ جاتی ہے کہ

”بس کیا یہی ہے ثروت زہرہ کی انفرادیت؟ “

میری نظرمیں ثروت زہرہ جیسی شاعرہ چند مہینوں میں ہی کچھ بے باک موضوعات پر لکھ کر نقادوں اور سننے والوں کی توجہ آسانی سے اپنی جانب مبذول کروا سکتی تھی مگر ثروت کے شعروں میں بسنے والی عورت کی عظمت یہ ہے کہ وہ خود کو نسائیت یعنی Feminismکی تلاش میں گم نہیں کر رہی۔ اس کی Feministعورت کی جدوجہد کا مرکز ومحور محض جنسی آزادی کی تلاش و حاصلات نہیں بلکہ اس کی نظر میں عورت ہونے کا مطلب اعلیٰ فرد اور انسان ہونا ہے اور اس حیثیت میں وہ اپنی ترجیحات کا ازسرِنو جائزہ لے رہی ہے۔

اس کی آواز پورے سماج، پوری کائنات اور اس کے مظاہر کو جھنجھوڑ دینا چاہتی ہے۔ ثابت قدمی اس کے لہجے کی شائستگی سے واضح ہے، وہ بال کھولے، چیخ و پکار کرتی، بین کرتی یا نعرے بازی میں مصروف نظر نہیں آتی اس کے قدم زمین پر جُڑے ہیں وہ سماجی کشمکش، مذہبی رویوں، اخلاقی، جنسی، معاشی و معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف مؤثر دلائل رکھتی ہے اور یہی ثروت زہرہ کی شاعری اور اس کے پیکر عورت کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ وہ خود اپنے بارے میں کہتی ہے ::

مجھ کو مری مجال سے زیادہ جنوں دیا

دھڑکن کی لَے کو سازِ اجل کر دیا گیا

کیسے بجھائیں، کون بجھائے، بجھے بھی کیوں

اس آگ کو تو خون میں حل کر دیا گیا

سب سے پہلے مَیں بات کروں گی ثروت زہرہ کی شاعری میں ”عورت کا کردار“ پرنظم ”خاتونِ خانہ“ میں عورت گھر کے سازوسامان و آرائش کی وجہ ہے، جسے زیوروکپڑا دے کر اس سے آئینہ چھین لیا گیا ہے، مگر اس کی بصارت و بصیرت نے خودشناسی کے کئی سوال اُٹھا دیے ہیں۔ یہی سوالات آغاز ہیں عورت کی فکروسوچ میں واضح تبدیلی کے، جسے ہر روز ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک روبوٹ ہے اور اس کا مقصد ہر ذمے داری مسکراتے مسکراتے پوری کرنا ہے۔

مگر ان تمام جبری فرائض کی ادائیگی کے بعد اس کا دل پگھلتا ہے اور آنکھیں سیراب ہوتی ہیں، تب وہ روز جینے اور مرنے کے عذاب سے گزرتی ہے۔ نظم ”تم مرے خواب نہیں بانٹ سکتے“ عورت کے تنہا دل کی صدا ہے۔ اسے بہت سے رشتہ و تعلق زندگی سے ملتے ہیں، مگرساتھی، ہمدرد و غمگسار نہیں ملتا۔ لہٰذا اس نظم کی عورت اپنے خوابوں کے لیے ساری کائنات کی چپہ چپہ دریافت کر رہی ہے جہاں وہ اپنی اُمیدوں، آرزوؤں اور اُمنگوں کو رکھ سکے کیونکہ وہ انھیں دریابُرد نہیں کرنا چاہتی، انھیں کسی بھی روپ میں، کسی مہربان ساعت کے لیے زندہ رکھنا چاہتی ہے۔

یہ نظم توانائی کا Symbolہے کہ ایک باعزم و باہمت عورت اپنے خوابوں کو کرچیاں نہیں کرناچاہتی کہ اسے ان سے محبت ہے اور یہ محبت اسے اپنی ذات پہ اعتماد بخش رہی ہے۔ نظم ”بوڑھے انتظار“ میں ثروت نے حویلیوں، بڑے ناموں، اُونچے شملوں اور کوٹھیوں والوں کی دنیا میں فطری زندگی سے جبراً کاٹی ہوئی عورت کو زبان عطا کی ہے۔ اس نظم میں گھروں میں بیٹھی ان بوڑھیوں کا ذکر ہے جن کی جوانی کو پھپھوندی کھا گئی۔ لکھتی ہیں :

مگر یہ عزتوں کے جھوٹے غلاف میں

لپٹے ہوئے شجر ہٴ نسب اور

رسم و رواج کے محل ابھی تک

منجمد کھڑے ہیں

اور ان کے سائے میں

ہزارہا انتظار بوڑھے ہو رہے ہیں

موجودہ عہد کی ”شیریں کا نوحہ“ بھی درد کے ایک باب کا دَر وَا کرتا ہے۔ عورت جو تخلیق کا سب سے عظیم استعارہ ہے اسے اپنی تخلیقیت کے وصف کے باعث بہت سے جبر سہنے پڑتے ہیں۔ وہ عورت جو تخلیق کرنے سے پہلے ہی ادھوری کر دی جائے تو اس کا تصور بھی اسے اس طرح سزا دیتا ہے کہ وہ کہہ اُٹھتی ہے :

مجھے آج پھر

اپنے پاس سے

مردہ گوشت کی ُبو آرہی ہے

”سروم دکھم دکھم“ میں ثروت کے لفظوں میں سنئے کہ۔

یہ کیسی اجنبی گلی میں، مرا جنوں مجھ کو لے گیا ہے

مرے ہر طرف دُھند ہی دُھند ہے

مرے وجود کا کوئی سراغ نہیں مِل رہا ہے

جہاں ِمری مانوس آواز کی

بازگشت بھی نہیں آ رہی ہے

اور مرے سوال زمین پر پڑے ہانپ رہے ہیں

مرے حروف کی زبان کاٹ دی گئی ہے

مرے پہلو کے گرد

ایک تکون کھینچ دیا گیا ہے

جس کے زاویے مستقل جاگتے ہیں

نظم ”تلاش“ ثروت کی شاعری میں موجود عورت کی اپنی تلاشِ ذات کا نام ہے۔ وہ کہتی ہے :

مَیں جب پیدا ہوئی

تو مرا آدھاوجود

مری نال سمجھ کر

مٹی میں دبا دیا گیا اور

مَیں اپنے جنم سے لے کر آج تک

اپنے گمشدہ حصے کی تلاش کر رہی ہوں

یہ گمشدہ حصہ آج تک عورت کونہیں ملا۔ اس نے ہر چہرے، ہر رشتے، ہر حیثیت میں اسے ڈھونڈا ہے اور ابھی تک اس کی تلاش بامعنی نہیں ہوئی۔ نظم ”بنت ِحوا“ میں ثروت نے 21 ویں صدی کی پسماندہ ایشیائی عورت کو نظر بھر کے دیکھا ہے، جسے ابھی تک جھوٹے، بے کار اور بے معنی Issues میں باندھ کر اعلیٰ حیثیت یا برتر کام کرنے سے دُور رکھا گیا ہے۔ کہتی ہیں۔

بنت ِحوا ہوں مَیں

یہ مرا جُرم ہے

اور پھر شاعری تو کڑا جُرم ہے

مَیں تماشا نہیں، اپنا اظہار ہوں

سوچ سکتی ہوں، سو لائق دار ہوں

مرا ہر حرف

ہر اک صداجُرم ہے

اور پھر شاعری تو کڑاجُرم ہے

اور اس کا نہایت Culturedاحتجاج کہ۔

مری آگہی ہی مرا جُرم ہے

جانتی ہوں مرا بولنا بھی جُرم ہے

اورآپ کا ذکر بھی تو بڑاجُرم ہے

اور پھر شاعری تو کڑا جُرم ہے

ثروت زہرہ کی باغی عورت بہت سمجھدار ہے۔ حوصلہ مند ہے، اسی لیے اس سے ڈر بھی لگتا ہے کیونکہ اس کا جنوں، حماقت و جلدبازی وقتی نہیں بلکہ ماضی اور حال کے سارے آئینے اس کے ہاتھوں میں ہیں اور اس کی نظر مستقبل کے امکانات پر ہے۔ گو ابھی تک وہ کہہ رہی ہے کہ

جنونِ وصل تماشے دکھا گیا اتنے

مَیں آپ اپنے تماشائیوں میں بیٹھی ہوں

نظم ”ارتقاء“ غالباً ثروت زہرہ کے فنِ شاعری کے سفر کے ارتقائی مدارج کی ابتداء ہے۔ جہاں سے وہ عورت پنے سے انسان بننے کا سفر طے کر رہی ہے جس میں آگہی اور شاعری جو اس کی زندگی کا نصب العین بھی ہیں تو جینے کے جواز بھی، مردہ حیثیتوں میں اس کے سامنے آتے ہیں مگر وہ انھیں رد کرنے کا حوصلہ خود میں بیدار پاتی ہے۔ اسے کلیشوں سے نفرت ہے اور یوں اس کی سوچ کا ارتقائی سفر زیادہ آرزومند ہو کر مزیدآزمائشوں کے لیے خود کو تیار پاتا ہے۔ وہ لکھتی ہے۔

کیا ملا دائرہ بدلنے سے

ساعتوں کی سزا بدلنے سے

کچھ ملا تھا دُعا بدلنے سے

جو ملے گا خدا بدلنے سے

مگر چونکہ انسان اپنی پارہ صفت فطرت، شوریدہ سری اور ارتقاء کی پُرپیچ راہوں کو دریافت کرنے کے عمل سے گزرنے کے لیے مجبور ہے لہٰذا وہ جابجا اس دنیا کو، اس کی بے ثباتی، بے اعتباری، کٹھنائی، تنہائی، انسان کے بوسیدہ زادِسفر، اس کے نصیب، اس کی زندگی کو بکھرتے دیکھ رہی ہے وہ جانتی ہے کہ معلوم کا نامعلوم کی جانب سفر اس کے ٹھہرنے، رکنے یا چلنے سے نہیں تھمے گا پھر بھی وہ لکھتی ہے۔

سوال اندر سوال لے کر کہاں چلے ہو

یہ آسمانِ ملال لے کر کہا چلے ہو

جنوں کے رستے میں یہ خودی بھی عذاب ہو گی

خرد کا کوہِ وبال لے کر کہاں چلے ہو

کہاں پہ کھولو گے، درد اپنا کسے کہو گے

کہیں چھپاؤیہ حال لے کر کہاں چلے ہو

”مگر! کے دائرے میں یاس کا رقص“ جیسی خوبصورت نظم کے عنوان میں بہت کچھ سمویا ہوا ہے، کیسی کیسی دل گداز تمنائیں اور آرزوئیں ہیں مگر امکانات کی سبز فصل میں ”مگر“ کی زرد آکاس بیل سارا حسن چاٹ رہی ہے۔ ذرا ان مصرعوں پر غور کیجئے :

اس کوکھ سے ایک اور شوق جنما جا سکتا تھا

اس ہاتھ سے ایک اور زندہ حرف لکھا جا سکتا تھا

اس راکھ میں چنگاریوں کا سبز بیج بویا جا سکتا تھا

اس جبر میں چھپن چھپائی کا پُراناکھیل کھیلا جا سکتا تھا

”مگر“

مصلحتوں نے ہمارے پیر باندھ کر

ہمیں ایک دائرے میں، محبوس کر دیا ہے

ثروت زہرہ کی شاعری کے ارتقائی سفر میں وہ نظمیں خاص اہمیت رکھتی ہیں جس میں وہ کسی بھی قومیت یا نسل کی نمائندگی نہیں کر رہی بلکہ وہ پوری دنیا سے محبت کرنے والا وہ فرد ہے جو جانتا ہے کہ عظیم تباہی کے سامنے چھوٹے چھوٹے گروہی و ملکی اختلافات دم توڑ دیتے ہیں، مثلاً۔ ایک اور فتح کے ”بعد“ یعنی ”جنگ“ کے بعد کا نقشہ دنیا کے لیے کس قدر ہولناک ثابت ہو گا اور فرد کا انجام کیا ہو گا۔ کیا زمین کی تباہی کے بعد زمین زاد کی زندگی اتنی میکانکی ہو جائے گی کہ وہ بے حس بن کر، نئے سیاروں میں نئی دنیا آباد کرکے، کلوننگ زدہ انسان کے ساتھ سکون سے جیئے گا۔ کیا زمین کے تہذیبی رویوں اور تاریخ کا انجام محض یہی ہو گا۔ ؟

”نیو ملینیم“ ایک نفیس نظم ہے جو غیرفطری زندگی گزارنے والوں کا المیہ ہے، جب انسان فطرت سے ہم آہنگ نہیں رہتا تو پھر اسے ایک Artificialمصنوعی دنیا تعمیر کرنا پڑتی ہے جو مختلف مگر مزید ظالم اور دردناک ہوتی ہے۔ ثروت زہرہ کے لفظوں میں سنئے کہ:

رُوح اور جسم کے بیچ ہے

دُھند سی

اپنے سایوں کو کس سمت ڈھونڈا کریں

نظم ”تو کیا یہ ہو سکے گا؟ “ میں ثروت زہرہ کے اندر کا فنکار کسی اور دنیا کے کسی انوکھے اور انجانے سفر میں کسی اور بظاہر اور کسی اور غائب کی جانب گامزن نظر آتا ہے، جہاں کچھ ایسا نہ ہو جو کہ صدیوں سے یہاں ہوتا چلا آ رہاہے۔ انسان کی ازلی ناآسودہ، ناتمام خواہشات کے سراب کی چمک، ممکنات کی آرزو، تصورات کے چراغوں کی تھرتھراتی ہوئی لَو، کسی انوکھے جہان کی دریافت کے لیے ثروت نے ایک نظم لکھی کہ ”اختیار بھی آزاد نہیں“

کہ مَیں نے روشنی سے چند اختیار لے لیے تھے

اب مرے سینے میں، یہی اختیار، انگار بن کے

رقص کر رہے ہیں؟

یعنی انسان جس لمحے کی بازیافت یا حصول کے لیے ایک عرصہ جدوجہد کرتا ہے اسے حاصل کرنے کے بعد لاحاصل کا کرب پھر انسان کے نصیب کو ڈسنا شروع کر دیتا ہے۔ ہر قدم مسافت دراصل آگہی کا وہ جہان ہے جہاں پر سزائیں مقدر ہیں۔

”خواب دیکھتی ہوئی اک رات“

اور

”کُونج کُرلاتی رہی“

یہ دونظمیں ثروت زہرہ کی انسان دوستی کی معراج ہیں۔ یہ نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان نظموں میں قاری کے ذہن کو Captureکرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ ذرا بیان کا حُسن ملاحظہ کریں کہ:

فضا پہنے ہوئے اک چُپ کی پائل

رقص کرنے کو سرِبازار آئے گی

فضا جوبن پہ آئے گی

تو سازوں کے کسی سُر سے

تمہاری بات نکلے گی اور بن کے آگ پھیلے گی

ابھی تو رات پگھلے گی، جنوں کی بات نکلے گی

”کونج کُرلاتی رہی“ میں دیکھئے۔

سُنا ہے

کل رات

خدا کو خدائی کے الزام میں

لوگ شہر بدر کر رہے تھے اور بندگی کے شرف میں

ہم آپ سنگسار ہو رہے تھے اور سب سو رہے تھے

”سب کا سونا“ اجتماعی فکر اور سنگسار ہونا اِنفرادی قربانی کا Symbolہے، جو سوسائٹی کے ہر زندہ اور ارتقاء پذیر باشندے کا مسئلہ ہے۔

نظم ”دھرتی مجھ میں رہتی ہے“ میں ثروت زہرہ کے خیال کی وسعت کا حُسن دیکھئے کہ:

کہ جیسے ٹھنڈے جذبوں کی طرح

سرگوشیاں کرتا ہوا سندھ

مجھ میں خاموش ہو گیا ہو

ایک اُداس نظم ”محبت کی موت پر“ لکھی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر حساس دل دُکھی ہے کہ محبت کا حسین جذبہ بے رحمی کا شکار ہو کر مَر رہا ہے۔ بے محبت زندگی جینے والے، وفاشعار کب ہوتے ہیں بھلا؟ بے رنگ بے محبت شہروں کے باسی آدابِ وفا کیا جانیں؟ یہی وجہ ہے کہ فرد اکیلا ہے۔ وہ اکیلا ہی جئے جاتا ہے۔ مجمع کے ہونے سے تنہا آدمی کا اکیلا پن بھی کبھی دُور ہوا ہے؟ یہی اکیلا پن ثروت کی نظم ”ہندسوں میں کھویاہوا آدمی“ میں نظر آتا ہے۔

سائنسی ترقی کے ساتھ بدلتے شہروں میں، نیٹ کی پُرپیچ گلیوں میں، خود کو کھو دینے کے خوف میں نڈھال، دوڑ تا بھاگتا، گِرتا پڑتا انسان، بار بار سوچتا ہے کہ زندگی کیسے جئے۔ ہنگامۂ روزوشب کی اس اندھی مسافت کا باسی، ایشیاء، یورپ یا کسی اور براعظم کا باسی نہیں بلکہ پوری کائنات کا فرد ہے۔ اسی لیے وہ زندگی کو جمع تفریق کا کھیل سمجھ کر ہر احساس کو قتل کر کے نمبروں اور ہندسوں میں خود کو شمار کر رہا ہے، کبھی گھٹ رہا ہے، کبھی بڑھ رہا ہے اور یہی آج کے آدمی کی آپ بیتی ہے۔

جوں جوں ”جلتی ہَوا کا گیت“ پڑھتے جایئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعرہ کی فطرت کا اضطراب اس کے ہمراہ کسی ہمزاد کی طرح چلتا جاتا ہے، جس کا وہ بار بار ذکر کرتی ہے مثلاً

مری مٹی کو اب ہے ریت ہونا

سوالِ ذات سے اُلجھی کھڑی ہے

۔

کس کی نظر نے حُسن کو آئینہ کر دیا

حُسنِ نظر کی ذات کا گھائل ہے تو کہ مَیں

۔

مَیں جذبوں سے تخیل کو نرالی وسعتیں دے کر

کبھی دھرتی بچھاتی ہوئی، کبھی امبر بناتی ہوں

۔

کوئی جواز ڈھونڈتے خیال ہی نہیں رہا

تمام عمر یونہی بے خیال جاگتے رہے

۔

خواب اور تمنا کا کیا حساب رکھنا ہے

خواہشیں ہیں صدیوں کی عمر تو ذرا سی ہے

۔

ہم کسی نئے دن کا انتظار کرتے ہیں

دن پُرانے سورج کا شام باسی باسی ہے

۔

مارے جانے والوں کی قیمتیں نہ لینا تم

اس کو جبر کہتے ہیں خون بہا نہیں

نظم ”عجائب خانہ“ بھی فرد کے اکیلے پن کے دُکھ کا احساس ہے۔ دنیاوی، مادی چیزوں سے اس کی وابستگی، اپنا کھوج نکالنے کی آرزو، خود کو گم ہوتے دیکھنے کا کرب، موم کی طرح پگھلتے وجود کو قطرہ قطرہ اُنگلی پر اُتار کرازل کا ذائقہ چکھنے کی تڑپ اور کچھ نہ پا سکنے، کچھ نہ حاصل کر سکنے کی اذیت میں اپنی تلاش کا انت۔ یہ نظم بھی ثروت کی کئی نظموں کی طرح Existentialist Approachرکھتی ہے، انسان خود آگہی کی گپھاؤں میں جتنا اندر چلتا جاتا ہے، اتنے ہی سوالات کا ہجوم اس کی طرف دوڑ آتا ہے اور یہ لاجواب سوالات ذہن میں کلبلا کر، انسان کو مزید حیران و پریشان کرتے ہیں۔ نظم ”تھرڈورلڈ میرا ہے“ میں وہ تیسری دنیا کے باسیوں کے ساتھ، اُن کی بھوک، اُن کے درد، ان کی بجھتی آس اور اُدھڑے خوابوں میں شامل ہے۔ لکھتی ہیں :

تھرڈ ورلڈ مرا ہے

جھریوں کے بیچوں بیچ

خواب سینتے جاتا ہوں

لاش ہے یہ تن مرا

جس کو کھینچے جاتا ہوں

چند بند گلیاں ہیں

جن میں مرا ڈیرہ ہے

تھرڈ ورلڈ میرا ہے

اس نظم کے ذریعے ثروت تیسری دنیا کے تمام مظلوموں کے دُکھوں کی نمائندہ بن کر، ذاتی، شخصی اور سطحی سوچ سے بالاتر ہو کر ادب کے نسبتاً بہتر مقصد کا حصہ بن گئی ہے۔ ثروت زہرہ کی شاعری کی ایک اور اہم خصوصیت، موضوعات کا اچھوتا پن ہے جیسا کہ

”مگر! کے دائرے میں یاس کا رقص“

”سورج کب تک رقص کرے گا“

”خواب کو جیل ہو چکی

اور

”خوابوں کی گرہستی“

ثروت کی شاعری پہ بات کرنا بہت آسان نہیں ہے کہ اس کی شاعری موضوعات و اسلوب کے حوالے سے اپنا بیان آپ ہے۔ اسے نہ تو حاشیہ آرائی کی ضرورت ہے اور نہ ہی آراء کی صورت میں لکھے گئے دلپذیر الفاظ کی۔ ہر نظم پڑھی جانے کے قابل ہے۔ ہر نظم اور غزل میں سوچ کی دنیا وسیع ہے اور خیالات کی بُنت نفیس۔ وہ جو کہنا چاہتی ہے اس کا برملا اظہار کرنے کے لیے اسے ایسے لفظ بھی مِل جاتے ہیں جواس کے خیالات کو خود میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ثروت کے شعری سفر کو ابھی اور بلند ہو کر بے شمار موضوعات کا احاطہ کرنا اور کئی اَن کہے اَن لکھے دُکھوں کی پوٹلیوں کو کھولنا ہے، جنہوں نے زندگی کے حُسن کو گرہن زدہ کر دیا ہے۔ شاید اِسی لیے ثروت نے لکھا ہے :

توڑے کوئی تو ساعت ِپیہم کی دھڑکنیں

یہ درد اب نہیں ہے مرے اختیار کا

میرے سوال چاٹ گئے میرے ذائقے

اب ایک سا مزہ ہے خزاں کا بہار کا

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).