سب سے پہلے کون؟


میں دیکھ رہا ہوں کہ آج کل دوبارہ سوشل میڈیا پر ایک بحث کو کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ”سب سے پہلے اسلام“ یا ”سب سے پہلے پاکستان“ ان میں سے محب وطن لوگوں کا کیا نعرہ ہونا چاہییے۔ تو نہ چاہتے ہوئے بھی آج مجھے اس پر ذرا کھل کر بات کرنا پڑ رہی ہے۔

میرے نزدیک پاکستان کی مثال ایک ”مقدس درخت“ کی ہے۔

یہ وہ درخت ہے جس کی ”جڑ، لا الہ الاللہ یعنی توحید“ ہے۔ جو کہ ہندو کے کروڑوں بتوں اور عالمی طاغوتی نظاموں کا رد ہے۔ جس درخت کی آبیاری لاکھوں شہداء کے خون اور ہزاروں عصمتوں کی قربانی سے ہوئی جو فقط ایک ٹکڑا زمین لینے کے لئے نہیں بلکہ لا الہ الا للہ کی جاگیر حاصل کرنے اور اسلام کے نام پر کٹے اور لٹے۔

اس درخت کا ”تنا، محمد رسول اللہ“ یعنی رسالت ہے۔

اس کے پتے اور پھول ”اسلامی معاشی اور معاشرتی نظام“ ہے۔

تب اس تن آور مقدس درخت کے ٹھنڈے سایہ میں پوری ”امت مسلمہ“ کا وجود آئے گا اور اس پر لگنے والا پھل ”دنیا میں عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ ہو گا“۔

وللہ العظیم اگر اس درخت کی توحید کی جڑ کو کمزور ہونے دیا گیا تو نہ یہ درخت قائم رہے گا نہ اس کا سایہ اور نہ ہی اس کو پھل لگے گا۔

آج ”پاکستان کو ایک“ سیکولر ریاست ”ڈکلیئر کر دیا جائے تو پاکستان اپنے وجود کی حقیقت کو کھو دے گا۔ کیونکہ ایک فقط“ اسلام ”کا رشتہ ہے جو اس ملک میں موجود مختلف رنگ و نسل کی قومیتوں کو جوڑے ہوئے ہے۔ ورنہ تو یہ سب سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان“ حقوق ”کے نام پر ایک دوسرے کے خون کی ندیاں بہا دیں گے۔

ہمارا یہ ایمان ہے کہ جب تک ”سب سے پہلے اسلام“ کا نعرہ اس قوم کے دل اور ریاست کے ضمیر میں راسخ رہے گا تو ہی ہمیں اپنی جان سے عزیز تر یہ ”ملک پاکستان“ دنیا میں پوری آن بان شان کے ساتھ قائم و دائم رہے گا۔ لیکن اگر ہم اس منہج سے ایک بالشت بھی پیچھے ہٹے تو ہم نے ہجرت کی راہ میں مارے جانے والے ان لاکھوں شہداء کی خون سے غداری کی جنہوں نے ”سب سے پہلے اسلام اور اس پر اپنا تن من دھن اور گھر ہندوستان بھی قربان“ کا نعرہ لگا کر یہ پاکستان حاصل کیا تھا۔

وللہ العظیم میں نے اپنے نانا سے پوچھاتھا کہ ”نانا جی! “ امرتسر ”کیوں چھوڑ کر آئے تھے، اپنے والد محترم سے پوچھا کہ دادا جان نے“ اجنالہ ”سے ہجرت کیوں کی تھی۔ ہمارے خاندان کی وہ وہ عورتیں کیوں لٹ گئیں تھیں۔ کیا ہم وہاں خوشحال نہیں تھے۔ آخر کس چیز نے آپ کو آپ کی سینکڑوں ایکڑ آبائی ذرعی زمینیں اور چلتے کاروبار، بھری ہوئی پرچون اور کریانہ کی دکانیں چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ تو ان جواب فقط ایک تھا کہ بیٹا ہم“ اسلام کے نام پر سب کچھ چھوڑ کر آئے تھے ”۔

لیکن آج ستر سال بعد ان ہی اسلام کے نام پر ہجرت کر کے آنے والے والدین کی نسل اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ ”سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ ہو گا یا اسلام کا“۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل کے کچھ جذباتی فیسبکی دانشور ”سب سے پہلے پاکستان“ یا ”سب سے پہلے اسلام“ کے نعرہ پر بحث شروع کروانا چاہتے ہیں۔ جس کا ان کو اندازہ بھی نہیں کہ یہ بحث کیا رخ اختیار کرے گی اور اس سے فائدہ کس کو ہو گا اور نقصان کس کو۔

لہذا ہوش کے ناخن لیجیے۔ اور ”نظریہ پاکستان“ سے جڑ جائیے جو آپ کو کان سے پکڑ کر بلکہ کھینچ کر ”سب سے پہلے اسلام“ کے نظریہ پر جمع کر دے گا۔ اسی میں ریاست پاکستان کی بقا ہے اور امت اسلام کا بھلا ہے۔ یہی وہ۔ اصل چیز ہے جس کو نہ کافر پسند کرتے ہیں نہ ان کے اپجنٹ خونی لبرل اور خارجی دہشتگرد۔

لہذا نظریہ پاکستان سے مخلص ہوں اور جس مقصد کے لئے اس ارض مقدس کو حاصل کیا تھا اس مقصد کی تکمیل کے لئے اپنی صلاحیتوں کو لگائیے نہ کہ دوسروں کو وطنیت پرستی یا خارجی ہونے کے طعنے دیں۔ یہ پاکستان ایک وطن نہیں ہے۔ بلکہ اسلام کی بنیاد پر کھڑا ایک نظریہ ہے جس کا دفاع تب ہی ممکن ہے جب اس کے رہنے والے اس کی اصل کا مکمل دفاع کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).