حمزہ شہباز کے انکار کی قیمت


نواز شریف سے مسئلہ کیا ہے کہ جس کے سبب سے اس کے خلاف اقدامات ذاتی دشمنی سے بھی بڑھ کر کیے جا رہے ہیں۔ جواب صاف ہے کہ وہ ”نہیں“ کہنا جانتا ہے۔ شام کے معاملے میں طاقت سے حکومت گرانے کے رویے کی مخالفت، یمن جنگ میں غیر جانبداری اور دہشت گردی کے خلاف بلا تفریق کارروائی سی پیک پر ڈٹے رہنا نہیں کہنے کے کھلے مظاہرے تھے مگر اس نہیں کہنے کی قیمت بھی بہت بھاری ہوتی ہے۔ جو کہ نواز شریف صرف خود ہی نہیں بلکہ ان کا خاندان بھی ادا کر رہا ہے۔

حمزہ شہباز کے خلاف تازہ کارروائی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جیلیں، تکلیفیں طاقتوروں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی صورت میں سامنے کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ ڈینیل اور فلپ امریکہ کی تاریخ میں 2 ایسے بھائی ہیں کہ جنہوں نے امریکی ایٹمی اسلحے کے خلاف مہم چلائی اور نہیں کہنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں 100 بار سے زائد گرفتار بھی ہوئے۔ ان دونوں بھائیوں نے 7 دیگر افراد کے ہمراہ 17 مئی 1968 کو کینٹن ولا میری لینڈ میں ویت نام جنگ کی مخالفت میں امریکی ڈرافٹ فائلیں دیسی قسم کے نیپام بم سے جلا ڈالیں۔

ان کی اس جرات کی بدولت امریکہ میں جنگ کی مخالفت میں اسی نوعیت کی اور سینکڑوں کارروائیاں ہوئیں۔ جیل بھیج دیے گئے۔ جہاں ڈینیل کی حالت 2 برس کی قید کے دوران سخت خراب ہو گئی۔ لہٰذا ڈھائی برس کی قید کے بعد اس کو 1972 میں رہا کر دیا گیا۔ یہ دونوں بھائی ان سخت حالات کے باوجود اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ بلکہ 9 ستمبر 1980 کو یہ دونوں بھائی اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پنسلوینیا کے ایک قصبے میں جنرل ایکٹرک کے ایٹمی میزائل کمپلیکس میں داخل ہو گئے اور وہاں پڑے غیر مسلح ایٹمی وارہیڈ کے اگلے حصے پر نوکدار ضربیں لگانا شروع کر دیں۔

وہ 1990 تک اس مقدمے کو بھگتتے رہے لیکن اپنی سوچ پر جمے رہے۔ 12 فروری 1997 کو فلپ پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ریاست ”مین“ کے قصبے باتھ میں باتھ آئرن ورکس کے اندر امریکی نیوی کے ایک ایٹمی اسلحہ بردار جہاز میں سوار ہو گئے اور وہاں پڑے ایک غیر محفوظ ہتھیار پر ضربیں لگانا شروع کر دی۔ نتیجتاً پھر پکڑے گئے۔ صرف اپنے نظریے، اپنی سوچ کی بنیاد پر مجموعی طور پر دس برس سے بھی زیادہ قید کاٹی۔

فلپ نے 1997 میں ”Maine“ کی جیل سے لکھا کہ ”ہم اس وقت تک ایٹمی ہتھیاروں کو ختم نہیں کر سکیں گے۔ حکومت میں اپنی نمائندگی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ امیر اور غریب کے درمیان قطبین کا فرق ختم نہیں کر سکیں گے اور امریکی حکومت پر فوج اور بڑے سرمایہ داروں کا غلبہ ختم نہیں کر سکیں گے۔ جب تک نہیں کہنا نہیں سیکھتے“۔ اور یہی نہیں کہنا ہماری بھی اتنی ہی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے نواز شریف نے ہر اس بات پر نہیں کہہ ڈالا۔ جہاں نہیں کہنے کی ضرورت تھی۔ کسی لیڈر کا دیگر طاقتور طبقات کو نہیں کہہ ڈالنا ایک باہمی تنازع کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس اس تنازعہ میں لیڈر کو توڑنے کے لئے اس کے مرکز محبت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ عام لوگ بیگم کلثوم نواز شریف مرحومہ کی بیماری سے لا علم ہو گئے مگر یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ طاقتور بھی اس سے لا علم تھے۔ مگر اس سب کے باوجود نواز شریف کو توڑنے کی کوشش کی خاطر کینسر سے لڑتی اس کی بیوی کو اس کے پاس نہ رہنے دیا گیا۔ اس طرح نواز شریف ٹوٹ جائے گا۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزا دینا گرفتار کرنا اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ بیٹی کی وجہ سے نواز شریف ٹوٹ جائے گا۔

شہبازشریف جہاں ان کے سب سے قابل اعتماد ساتھی اور سیاست میں کارکردگی کی وجہ سے ایک مثال ہے وہی پر چھوٹا بھائی بھی کم نہیں ہے۔ ایک مرض سے لڑتا ہوا چھوٹا بھائی۔ چلو اب اس کو گرفتار کر لیں کہ عمر چاہے جو مرضی ہو بڑے بھائی کے لئے چھوٹا بھائی، چھوٹا بھائی ہی ہوتا ہے۔ اور اب یہ حربہ آزمایا گیا ہے کہ حمزہ شہباز کی معصوم نومولود بیٹی کی تیمار داری تک کے لئے حمزہ شہباز کو اس معصوم بچی کے پاس نہیں رہنے دیا گیا۔ اور اب اہانت کرنے کی کوشش کہ نواز شریف تو اپنی تکلیف کو برداشت کرتے رہیں گے مگر بڑوں کے لئے بچوں کی تکلیف برداشت کرنا بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔

سوچ یہ ہے کہ آخر کسی طرح تو نواز شریف ٹوٹ ہی جائے گا۔ مگر اس سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حمزہ شہباز کوئی سیاست میں نوآموز نہیں کہ ان حالات کے سبب سے خود ٹوٹ جائے گا کہ اس کے بڑے مزید تکلیف کا شکار ہوں۔ 18 سال کی عمر میں اڈیالہ جیل کی سختیاں اور عین جوانی میں مشرف دور کا کڑا احتساب اور سیاسی سختیاں جیل کر وہ اس مقام تک پہنچا ہے۔ وہ بھی اپنے انکار پر قائم رہے گا۔ گرفتار ہو یا آزاد رہے باپ کی نومولود بیٹی سے محبت کے باوجود وہ اپنے اس مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا کہ احترام صرف ایک طبقے کا نہیں ہوتا۔ یقینا اس طبقے کا بھی ہوتا ہے مگر باقی طبقات بھی اچھوت نہیں ہوتے۔

جب تک اہانت کرنے کا سلسلہ بند نہیں ہوتا اس وقت تک یہ تنازعہ بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ صرف ایک کا احترام معاشرے کو قابل رحم حالت میں لا کھڑا کرتا ہے۔ جاپان کے نامور سائنسدان شاعر اور دانشور ڈاکٹر تاکاشی ناگائی نے اپنی کتاب ”ناگاساکی کی گھنٹیاں“ میں لکھا ہے کہ ”ہم جاپانیوں نے انسانی زندگی کو چونکہ سرسری طور پر اور بے توجہی سے سمجھا تھا۔ اس لئے آج ہم اس قابل رحم حالت میں ہیں کہ ہر شخص کی زندگی کا احترام ایک ایسا سنگ بنیاد ہے جس پر ہم ایک نئے معاشرے کی عمارت اٹھا سکتے ہیں۔ “ نواز شریف کا نہیں ہمیں اس احترام تک پہنچا سکتا ہے مگر مصائب تو آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).