ظلم کے بڑھتے ہوئے سانحات اور ریاست کا کردار


ظلم کے بڑھتے ہوئے سانحات کی بنیادی وجوہات میں معیشت، سیاست اورسماجی پالیسیوں کا بنیادی کردارہوتا ہے۔

یوں تو سرمایہ داری نظام استحصالی نظام کہلاتا ہے جو اس وقت پورے آب و تاب کے ساتھ پوری دنیا میں رائج ہے۔ لیکن دنیا نے غریب، محکوم عوام کو زندہ رکھنے اورکام کرنے کے لئے بنیادی ضرورتیں آسان، لازمی اوریقینی بنا دی ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، سوشل سکیورٹی تمام سرمایہ دار ممالک میں ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جس کے لئے سرمایہ دار ٹیکس دیتے ہیں۔ سرمایہ دار ممالک ایک طویل سفر سے گزرے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یورپ تب ترقی کی طرف گامزن ہوا جب بادشاہ کا ٹکراؤ مذہبی پوپ سے ہوا، اس لئے کہ پوپ ریاست کے تمام اقدامات میں رکاوٹ بنتا تھا جس طرح آج کے اسلامی ممالک اورخاص کر پاکستان کی حالت ہے۔

جب بادشاہ پوپ کے اقدامات سے دلبرداشتہ ہوگیا تو پروٹسٹنٹ فرقہ بنایا اورپوپ کے مقابلے میں سپورٹ کیا جو کچھ حد تک لبرل تھا۔ اسی طرح پوپ کو چرچ تک محدود کردیا اور یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا۔

لبرل اکانومی کے راستے پر چل کریورپ پوری دنیا کا استحصال کرکے اجارہ دارتو بن گیا لیکن دنیا کو وار اکانومی میں دھکیل کرتباہ و برباد کردیا۔

چند ممالک لبرل اکانومی کی بجائے سوشل ڈیموکریٹک اکانومی کے راستے پر گامزن ہوئی جہاں پر نسبتا زندگی آسان اور خوشحال ہے۔ مربوط ٹیکس نظام ہے جس کے بدلے عوام کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت روزگار، سوشل سیکیورٹی اور بڑھاپے کی پنشن ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، مذہبی آزادی ہوتی ہے ماحولیات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کی معیشت کا مشاہدہ کریں تو پاکستان میں تمام امیر لوگوں کی اکثریت کے پاس لوٹ کھسوٹ اور بلیک منی ہے۔ صنعت سازی یا کاروباری معیشت برائے نام ہے۔ بڑے خانوادے، جاگیردار، وڈیرے، چوہدری عام لوگوں کے زمینوں پر قابض ہیں اور عام لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ سیاست، مذہبی فرقہ واریت اور جنگی جنونیت ریاستی معیشت کی اہم ستون ہے۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی زراعت سے وابستہ ہے اس کے باوجود زراعت کی طرف کوئی توجہ نہیں اور کسان اپنی فصلوں کو جلانے پر مجبور ہیں۔ زرعی ادویات مہنگی، مارکیٹ میں فصلوں کی کم قیمت اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دشمنی زراعت کی تباہی کے اسباب ہیں۔ یوں سماج میں معاشی بدحالی خانہ جنگی، انارکی کا سبب بن گئی۔ سیاست پر بھی سماج کے یہی مفت خور مذہبی پیشوائیت، جاگیر دار، جرائم پیشہ اور لوٹ کھسوٹ والے قابض ہیں۔

جس کی وجہ سے معاشرے میں جبر، ظلم، بربریت راج کررہی ہے۔ باشعور، انسان دوست سیاسی ورکرز کی کسی بھی سیاسی پارٹی میں جگہ نہیں۔ صرف تالیاں اور ووٹ ڈالنے کے علاوہ کسی قسم کا کوئی حق نہیں ملتا۔ متبادل ناپید ہے۔ سماج میں عوام کی اکثریت اپنی بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار کے لئے دربدر ہیں۔ عدلیہ، انتظامیہ کی نا انصافیاں عروج پر ہیں۔ سماج عدم برداشت، لاقانونیت، انتہاپسندی اور شدت پسندی کی طرف مائل ہونے کی وجوہات بھی ریاستی پالیساں ہیں۔ ریاست میں غیرپیداواری اخراجات کا حجم پیداواری اخراجات سے زیادہ ہے۔

میں جب مشاہدہ کرتا ہوں تو پاکستانی ریاست سماجی، سیاسی، معاشی کی ایسی پستی میں جا پہنچی ہے کہ خانہ جنگی، انارکی، انتہاپسندی، شدت پسندی اور دہشت گردی پر قابو پانا اب ریاستی اداروں کی بس سے بھی باہر ہورہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).