خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی حکومت: حکمرانی کی روایت کا تسلسل


ایک طرف لفظ انصاف کو اگر دیکھا جائے تو اس کا مطلب نہ صرف واضح ہے بلکہ جس کسی کے ساتھ اگر ظلم ہوا ہوتو اس کے ہونٹوں پر خوشی کے آثار اور آنکھوں میں جاری آنسو خود بخود سوکھ جاتے ہیں ’اسی طرح اگر لفظ تبدیلی بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہوتو اس کا مطلب ایک تو ان کو انصاف ملے گا‘ اور دوسرا یہ کہ اس کی زندگی بھی تبدیل ہوگی ’یعنی انصاف کے ساتھ ساتھ زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں گے لیکن بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کا انصاف اور تبدیلی اس کے برعکس ہے۔

نہ کسی کو انصاف مل رہا ہے ’اور نہ وہ تبدیلی آرہی ہے جس کا عوام کو انتظار تھا کیونکہ صوبہ میں پی ٹی آئی کے تقریباً چھ سالہ دورحکومت میں تو عوام ذلیل وخوار ہو رہے ہیں اور وہی علاقے آج بھی پسماندہ ہیں جو اس سے پہلے تھے‘ اور ان کی حکومت میں عوام اسی طرح پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں جو پچھلی ادوار حکومت میں ہوا کرتی تھی کیونکہ دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کے گزشتہ پانچ سالوں میں سالانہ ترقیاتی فنڈز میں کافی بندر بانٹ ہوئی ہے ’جو ضلعے پہلے سے ترقی یافتہ تھے سال 2013۔18 ء یعنی ان پانچ سالوں میں مخصوص اضلاع میں ترقیاتی فنڈز دیا گیا۔ سابق وزیراعلیٰ کے آبائی ضلع نوشہرہ کو اگر ایک طرف 19 ارب 22 کروڑ روپے دیے تو دوسری جانب صوبے کے حساب سے پسماندہ ترین ضلع ٹانک کو جس میں 30 سے زیاد ہ دیہاتوں میں انسان اور جانور ایک ہی تالاب سے پینے کا پانی پیتے ہیں کو کم سے کم صرف 32 کروڑ روپے دیے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے ’اسی طرح موجودہ وزیراعلیٰ کے ضلع سوات کو 15 ارب 14 کروڑ روپے اور دوسرے نمبر پر پسماندہ ضلع بٹگرام کو صرف 43 کروڑ روپے اور لکی مروت کے حصے میں صرف 97 کروڑ روپے آئے۔

باقی ضلعوں پر سابق وزیرعلیٰ صاحب کے خصوصی گرانٹ کی بارش ہوئی جس میں مردان کو 11 ارب 9 کروڑ روپے ’صوابی 10 ارب 18 کروڑ روپے‘ ہری پور 8 ارب 10 کروڑ روپے ’چارسدہ 7 ارب 45 کروڑ روپے‘ ڈیرہ اسماعیل خان 6 ارب 65 کروڑ روپے ’تورغر 5 ارب 98 کروڑ روپے‘ ایبٹ آباد 6 ارب ایک کروڑ روپے ’دیر بالا 5 ارب 32 کروڑ‘ بنوں 4 ارب 49 کروڑ روپے ’چترال 4 ارب 47 کروڑ روپے‘ کوہاٹ 4 ارب 18 کروڑ روپے ’مالاکنڈ 3 ارب 82 کروڑ روپے‘ دیر لوئیر 3 ارب 78 کروڑ روپے ’ھنگو 2 ارب 76 کروڑ روپے‘ مانسہرہ 2 ارب 44 کروڑ ’شانگلہ 2 ارب 13 کروڑ‘ بونیئر 2 ارب 51 کروڑ ’کوہستان ایک ارب 84 کروڑ‘ کرک کے لئے 1 ارب 89 کروڑ روپے مختص کیے گئے اور خیبرپختونخوا کے صدر مقام پشاور کو 57 ارب 55 کروڑ روپے حصے میں آئے۔

پشاور کی ترقی پورے خیبر پختوں خوا کی ترقی ہے کیونکہ پورا صوبہ پشاور پر منحصر ہے اور بیرون ملک کے مختلف لوگوں کے دورے بھی پشاور ہوتے ہیں اس میں سہولیات کا ہونا اور شہر کی خوبصورتی پر حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن دیگر ضلعوں کو خوامخوا اپنے ووٹ بینک کے لئے کام کرنا اور کچھ کو قصداً پسماندہ رکھنا نہ صرف ان ضلعوں کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ ان کو انصاف دلانا اور تبدیلی لانے کے بالکل برعکس ہے۔

تبدیلی کس بات کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس روزانہ ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع کیا جاتا ہے اور حکمران جماعت کے وزراء اور ایم پی اے صاحبان نہ صرف غیر حاضر ہوتے ہیں بلکہ اسپیکر کی بار بار رولنگ کے باوجود اسمبلی اجلاس کو غیر ضروری تصور کرتے ہیں جس کے ایک اجلاس پر لاکھوں روپے کا خرچہ ہوتا ہے لیکن افسوس کہ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ختم ہو جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں سیکرٹریٹ اور ڈائریکٹریٹ میں اسی طرح فائل ہفتوں اور مہینوں تک پڑی رہتی ہے حالیہ میٹرک امتحانات میں بورڈ اور امتحانی ہالوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پرچہ شروع ہونے سے پہلے پیپر سوشل میڈیا پر شائع ہو جاتا ہے۔ نقل کا رحجان بالکل عام تھا یہاں تک بہت سے ڈیوٹی دینے والے اساتذہ کرام قصداً اپنے علاقوں پر ڈیوٹی پر مامور تھے اور یہ بھی ہو رہا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کی انتظامیہ پورا ہال خرید لیتے ہیں اور ان کو نقل کی کھلی آزادی ہوتی ہے۔

محکمہ صحت میں تبدیلی بڑی شہروں خاص کر پشاور میں آئی ہے مگر ضلعوں اور تحصیلوں میں سہولیات اسی طرح ناپید ہے جس طرح سے پہلے دور حکومتوں میں ہوتی تھی ’مریض کو ڈی ایچ کیو ریفر کرنے کا کہاجاتا ہے پھر ساتھ والے ضلع کے قریبی ڈی ایچ کیو اور اس کے بعد پشاور منتقل کرنے کا کہا جاتا ہے جو سابق دور حکومتوں میں ہوتا تھا آج بھی اس کی پیروی کی جارہی ہے۔

پی ٹی آئی کے عہدیدار بڑے بڑے دعوے کررہے تھے کہ جو علاقے 70 سالوں سے پسماندہ ہیں ان کو دیگر ضلعوں کی طرح ترقیاتی صف میں لاکھڑا کریں گے ’اور ان کے عوام کو بھی دیگر ضلعوں کی طرح سہولیات سے آراستہ کریں گے لیکن پچھلی حکومت کے پانچ سالہ ترقیاتی فنڈز سے ثابت ہوگیاکہ پی ٹی آئی بھی دیگر حکومتوں کی طرح پسماندہ ضلعوں کو ترقی دینے کا ارادہ نہیں رکھتی‘ اگر واقعی اسی طرح ہے تو عوام نہ صرف پی ٹی آئی کو ووٹ دینے پر پچھتائیں گے بلکہ اگلے بلدیاتی اور جنرل انتخابات میں پی ٹی آئی کی شدید مخالفت کریں گے۔ پی ٹی آئی آج ملک کی حکمران پارٹی ہے اور عوام یہی توقع رکھتے ہیں کہ یہی پارٹی ملک کو عشروں سالوں کے اندھریوں اور مسائل سے نکال کر خوشحالی کی طرف لے جانے میں کامیاب جماعت بن جائے گی‘ اور آنے والی قبائلی ضلعوں اور بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب جائے گی ’لکھاری کاکام صرف تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح بھی ہے، صوبائی حکومت نے بعض شعبوں میں اچھے اقدامات بھی اٹھائے ہیں موجودہ صوبائی حکومت میرٹ کی پالیسی پر کافی عمل کرچکی ہے جتنے بھی آسامیاں پر ہوچکی ہیں تقریباً میرٹ پر ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ اس سے کافی خوش ہے وہ ڈاکٹر اور اساتذہ کرام جو اپنی ڈیوٹی سے کئی سالوں سے غیر حاضر تھے اور ملک سے باہر پیسہ کمانے کی غرض سے گئے تھے یا اپنے ملک میں کوئی کاروبار کررہے تھے‘ کو سرکاری ڈیوٹی کرنے پرمجبور کیا ہے اسی طرح شاید کوئی اور تبدیلی آئی ہے ہو جوکہ زیر قلم نہ لکھ سکا ہوں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔

موجودہ حکومت قبائلی اضلاع میں ترقی کے لئے نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا قبائلی علاقوں کے دورے بھی کررہے ہیں اور وہاں کافی ترقیاتی کاموں کے اعلان کررہے ہیں۔ لیکن اب اللہ کرے کہ یہ صرف اعلانات نہ ہوں اور نہ ہی جون میں ہونے والے قبائلی علاقہ جات میں ہونے والے انتخابی مہم ثابت ہو۔ بلکہ حکومت پسماندہ سابقہ فاٹا کو صوبے کے کچھ ضلعوں کی طرح ترقیاتی کام کرے اور اس میں بڑے منصوبے شروع کرے تاکہ یہاں بھی معلوم ہوکہ تبدیلی آئی ہے۔ ورنہ عوام اسی طرح زبان استعمال کریں گے جس طرح پی ٹی آئی والے دوسرے جماعتوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).