ذہنی پسماندگی: ہماری ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ


پاکستان میں اگر سٹوڈنٹس، اساتذہ تجزیہ نگار یا عام لوگوں سے پوچھا جائے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہے یا ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون سی ہے تو زیادہ تر لوگ کرپشن کو سرِ فہرست لائیں گے اور کچھ لوگ تعلیم کی کمی، بیڈ گورننس، کمزور معیشت، غربت، بیروزگاری دہشتگردی، انتہا پسندی، بڑھتی آبادی، سیاسی عدمِ استحکام اور عدمِ جمہوریت کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیں گے۔ سوشل میڈیا پر کچھ اس قسم کے پولز ہوتے رہتے ہیں جن میں زیادہ تر لوگوں کی رائے میں کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اور زیادہ تر یہ پاکستانی نوجوان تحریکِ انصاف کی ”کرپشن کے خلاف جنگ“ سے متاثر نظر آتے ہیں۔

بلاشبہ یہ سب مسائل ہماری تباہی کا باعث ہیں اور ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جو ان سب سے زیادہ سنگین اور بڑا ہے۔ اور تقریباً سب دیگر مسائل اس سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اور وہ مسئلہ ہے ہماری ذہنی پسماندگی۔ مگر بدقسمتی سے یہ مسئلہ پاکستان میں بہت کم ہی زیرِ بحث رہا ہے۔

ذہنی پسماندگی فکری جمود، اندھی تقلید اور رجعت پسندی پہ مشتمل ہوتی ہے جس میں نئے نظریات، نئے خیالات، نئی تبدیلییوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اور لوگ قدیم اور متروک خیالات کو مقدس سمجھنے لگتے ہیں اور جدت اور نئی چیزوں کو نفرت اور شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اس ذہنی پسماندگی کی بدولت ہم آج تک ماضی میں ہی جی رہے ہیں اور حال میں اپنی چونچیں ریت میں دبا کر حال کو پوری طرح تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم اپنی تاریخ پڑھ کر خود کو آج بھی برصغیر کے شہنشاہ سمجھتے ہیں اور حال سے نظریں چرا رہے ہیں۔ ہم پرانے نظاموں کو زندہ کرنے کی حسرتیں لیے گھوم رہے ہیں اور گڑے ہوئے مردے اکھاڑنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارا ایک پاؤں ماضی میں اور ایک حال میں ہے۔ ہم حال کا قلم چھوڑ کر ہاتھ میں ماضی کی تلوار تھامنا چاہ رہے ہیں۔ ہم پرانی سوچ کو دفن کر کے نئے افکار کو اپنانے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔

ہم نئی سوچ اور نئے افکار سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے، بلکہ ہم نے اپنے ذہنوں کو تالے لگا رکھے ہیں اور ان تالوں کی چابیوں کو ہم نے بحرہِ عرب میں پھینکا ہوا ہے۔ ہم شعور کو ایمان کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اور ہر نئی چیز ہمیں بدعت، توہین آمیز اور دشمن کی سازش لگتی ہے۔

ہم وہی لوگ ہیں جنہوں نے شاہ ولی اللّہ کو قرآن کا ترجمہ کرنے پر اور سر سید احمد خان کو سکول کھولنے پر کافر قرار دے دیا تھا۔ ہم وہی لوگ ہیں جنہوں نے ٹرین کو شیطانی گھوڑا قرار دیا تھا اور فتویٰ جاری کیا تھا کہ اس ”شیطانی گھوڑے“ پر جو بھی مسلمان سوار ہوگا وہ کافر ہو جائے گا۔ ہم میں سے کئی لوگ آج بھی سائنس کو کفر مانتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ اسی کافر سائنس کے ثمرات سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ ہائے ہماری یہ منافقتیں!

ہم ترقی یافتوں قوموں سے بھی نہیں سیکھتے۔ ان کی کی صرف کچھ بری باتیں اٹھا کر اس پہ توجہ مرکوز کر لیتے ہیں جبکہ ان کی ڈھیر ساری اچھی باتوں کو مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے ماضی کی زنجیروں کو توڑ کر حال میں قدم رکھا اور آنے والی تبدیلیوں کو تہہِ دل سے اپنایا وہ قومیں ہی آگے بڑھیں ہیں۔ اور جن قوموں نے ماضی کی قید کو قبول کیا اور حال میں ہونے والی تبدیلیوں کو اپنی روایات، رسم و رواج، مذہب اور ثقافت کا دشمن سمجھا وقت نے ان قوموں کو بہت پیچھے پھینک دیا۔ دنیا میں ایک بھی ایسی قوم نہیں جس نے اپنے ذہنوں کو پسماندہ رکھ کر ترقی کی ہو۔

آج ذہنی پسماندگی کی وجہ سے ہی ہم انتہاپسندی، دہشتگردی، عدمِ برداشت، تنگ نظری، غربت، بدحالی، اور سماجی، اقتصادی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں۔

اگر ہم نے علمی، سماجی اور اقتصادی ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنی سوچ، فکر، اور تعلیم کو دورِ جدید سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ آج کے اس ’ایج آف ریزن‘ میں ذہنی پسماندگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور آج کے اس دؤر میں پرانی سوچ، اور تقلید کو ساتھ لے کر ترقی کرنے کا سوچنا ایسا ہی ہے جیسے آج کے اس سائنس اور ٹیکنالاجی کے دؤر میں ٹارزن، ہرکولیس یا محمد بن قاسم کا جسمانی طاقت یا تلوار سے فتح حاصل کرنے کا سوچنا۔ آج کے دور میں تبدیلی کو روکنا ایک پاگل پن ہے۔ ( نوٹ: یہاں پر تبدیلی سے مراد عمران خان کی تبدیلی بالکل بھی نہیں ہے۔ )

ایک کہاوت ہے کہ ”جو لوگ اپنا دماغ تبدیل نہیں کر سکتے، ان کے پاس تبدیل کرنے کے لیے کوئی دماغ ہی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).