پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر : (Post Traumatic Stress Disorder)


علامات:۔ پی ٹی ایس ڈی کی چار بنیادی قدم کی علامات ہیں۔ جو واقعات کے فوراً بعد ظاہر ہوسکتی ہیں۔ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علامات سانحہ کے ہونے کے سالوں بعد بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔ یہ علامات اگر چار ہفتوں سے زیادہ طاری رہیں اور روزمرہ کے امور میں مداخلت کریں تو یہ کیفیت پی ٹی ایس ڈی ہو سکتی ہے۔

چار بنیادی قسم کی علامات حسبِ ذیل ہیں۔

1۔ تکلیف وہ سانحہ کا تجربہ بار بار محسوس کرنا اور بالکل اسی خوف اور خطرہ کا احساس ہونا کہ جو واقعہ کے وقت تھا۔

ایسے خواب دیکھنا کہ جس میں آپ اسی حالت سے دوبارہ گزر رہے ہوں۔ یادوں کا ذہن میں اور واقعہ کی جھلکیاں نظروں میں آنا۔

کوئی مخصوص آواز یا منظر جو ٹراما یا سانحہ کی یاد دلائے مثلاً ایمبولینس کی آواز سے کسی پیارے کی موت کا واقعہ، گولوں کی گھن گرج سے کسی سپاہی کو میدان جنگ کی خون ریزی کا یاد آ جانا۔

2۔ ان صورتحال سے گریز کرنا جو گزرے ہوئے سانحے کی یاد کو دوبارہ جگائے۔ مثلا زلزلے سے متاثر افراد کا ان فلموں اور ٹی وی شوز کو دیکھنے سے گریز جس سے انہیں زلزلے کی تباہی یاد آ جائے۔ ایسی جگہوں پر جانے سے احتراز کہ جہاں وہ سانحہ پیش آیا ہو۔ مثلاً کسی بنک میں ڈاکہ کے وقت موجود ہونے والے واقعہ کے بعد بینک میں جانے سے گریز۔

3۔ سن ہو جانا۔ اگر اپنے جذبات کے اظہار میں دشواری ہو اور سن ہو جانے کی کیفیت ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان یادوں سے گریز کیا جا رہا ہے جو ڈر، خوف اور اذیت کو دوبارہ جگا سکتی ہیں۔

کچھ افراد کا ان تجربات کی وجہ سے دوسروں کے متعلق مثبت اور با اعتماد رویہ نہ ہونا اور پائیدار رشتوں سے گریز مثلا اپنی ماں سے ناپائیدار اور بے اعتمادی کے نتیجہ میں کسی مرد کا عورتوں سے پائیدار اور مستقل رشتہ سے گریز کی صورت بن جائے گا۔

ان سرگرمیوں سے بھی لطف اندوز نہ ہونا جو کبھی مسرت کا سبب تھیں۔ ان واقعات کو یاد رکھنے اور دوبارہ بیان کرنے کی اہلیت کا نہ ہونا جو سانحہ کا سبب بنے۔

4۔ اضطرابی اور جذباتی ہیجان یا ہائپر اروزل (Hyperarousal) کی کیفیت کہ جس میں مندرجہ ذیل علامات دیکھی جا سکتی ہیں۔

چڑچڑاہٹ اور غصہ

احساسِ جرم، پشیمانی اور شرمساری کا حد سے زیادہ احساس۔ اپنے آپ کو یہ الزام دینا کہ میں اس سانحہ سے اپنے پیارے کو نہ بچا سکا۔ ”

سونے میں مشکل یا نیند کا نہ آنا

سوچوں کے مرتکب کرنے میں دشواری

ہر وقت اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا ڈھڑکا اور حفاظتی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا۔

تیز آواز یا اچانک کسی کے چھو لینے سے گھبرا کر چونک اٹھنا۔ ایسی چیزوں کو دیکھنا یا آوازیں سننا کہ جن کا درحقیقت وجود نہ ہو۔ بچوں میں علامات مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً

باوجود باتھ روم کی تربیت مکمل ہو جانے کے بستر گیلا کر دینا، بات کو بھول جانا۔

کھیلتے وقت اس واقعہ کو ظاہر کرنا (لاشعوری طور پہ) اپنے ماں باپ یا کسی بڑے سے سہم کر چمٹنا اور ساتھ چپکے رہنا، ان علامات کا سبب دماغ کے مخصوص حصوں میں تبدیلی سے ہوتا ہے۔ دماغ کی ایم آر آئی یا (Magnetic Resonance Imaging) سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کے کچھ حصے متاثر ہوئے ہیں۔

مثلا ہیپوکیمپس (Hippocampus) جو دماغ کے لمبک نظام کا حصہ ہے اور ہمارے جذباتی تجربے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، (خوف، غصہ، یادوں کو محفوظ کرتے ہیں۔ ) اور متاثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کو یا تو واقعہ یاد کرنے میں مشکل ہوتی ہے یا یادوں کی شدت حد سے زیادہ ہوتی ہے۔ یا سانحہ سے وابستہ یادوں کومحو کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی سراسیمگی میں ہارمون کورٹی سون خارج ہوتا ہے۔ جس کی زیادتی خلیوں کو متاثر کرتی ہے اور ہیپو کیمپس کا سائز چھوٹا ہو جاتا ہے۔

تشخیص:۔ مرض کی تشخیص کے لیے زندگی کی ہسٹری اور جسمانی معائنہ کیا جاتا ہے اور اگر کوئی جسمانی مسئلہ نہیں تو دماغی صحت کے ماہر کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ جو مخصوص انٹرویو اور سوالنامے استعمال کرتے ہیں۔

پی ٹی ایس ڈی کی وجوہات:۔ مرض کی حتمی وجوہات کے متعلق معالجین اس پر متفق ہیں کہ یہ غالبا کوئی ایک کی بجائے مختلف وجوہات کا مجموعہ ہے۔ مثلا نفسیاتی، جینیاتی (موروثی) اور سماجی۔

1۔ ورثہ میں ملنے والی بیماریاں جیسے انگزائٹی یا ڈیپریشن کا خدشہ۔

2۔ بچپن سے زندگی کے سنگین حالات گزرنا۔

3۔ اپنی شخصیت یا مزاج (پرسنیلٹی۔ )

4۔ اسٹرس کے ردِ عمل میں پیدا ہونے والے ہارمون یا کیمیائی مادوں کو دماغ کس طرح توازن میں کرتا ہے یہ بھی ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔ جو پی ٹی ایس ڈی کا سبب بنتی ہے۔

علاج:۔ علاج دواؤں اور سائیکو تھرپی کے ذریعہ ممکن ہے۔

دوائیاں :۔ ڈپریشن اور ہیجانی کیفیت کو قابو کرنے کی دوائیاں (میروفینن ری اپیٹک ان امبرٹیز) جس میں پکول (Paxil) (Celexa) یا سلیکیزا، لووکس (Luvox) پرزیک (Prozac) اور زولف (Zoloft) کے علاوہ ایلاول (Elavl) شامل ہیں۔ واضح رہے کہ میروفینن وہ کیمیائی مادہ ہے جس کی کمی ذہنی دباؤ کا سبب بنتی ہے۔ کوئی بھی دوا ڈاکٹر کے بغیر ہر گز نہ لی جائے۔

سائیکو تھرپی:۔ اس میں سی بی ٹی یا (Cognitive Behavioral Therapy) سب سے زیادہ مستعمل اور مفید ہے جس میں گفتگو کی مد سے سوچوں میں تبدیلی اور ٹراما کو سمجھنے میں معاونت کی جاتی ہے اور پھر یہ کہ ان خوف، پشیمانی، غصہ کی سوچوں کو کس طرح بدلا جائے۔

سی بی ٹی کا ایک طریقہ ایکسپوزر تھرپی کہلاتا ہے جس میں یادوں کے خوف کو بتدریج کم سطح پہ لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مریض کو ان واقعات کی یاد اور ذکر کے ذریعہ خوف پہ قابو پانے کی کوشش کرائی جاتی ہے۔ یہ طریقہ مستعمل اور سود مند ہے۔

ای ایم ڈی آر یا (Eye Movement Desenistzation and Reprocessing) اس میں مریض اپنی تکلیف دہ یادوں کے متعلق سوچتے یا گفتگو کرتے وقت آنکھوں کی حرکت، ہاتھ کی مدد سے کچھ بجانے اور آواز پہ غور کرتا ہے۔ اور اس کو معالج اپنا ہاتھ مریض کے چہرے کے قریب لا کر دائیں سے بائیں لے جاتا ہے اور مریض کی آنکھیں اس کے ساتھ گھومتی ہیں۔ اس طرح اپنے ٹراما کا ذکر کرتے کرتے دھیان کاٹنا علاج کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ تاہم ابھی بھی اس طریقۂ علاج کے متعلق سکھایا جا رہا ہے کیونکہ یہ نسبتاً جدید ہے۔

سی ٹی بی کی انفرادی تھرپی کے علاوہ گروپ اور فیملی تھرپی کے سیشن بھی سودمند ہوتے ہیں۔

علاج کا دورانیہ تین سے چھ ماہ تک ہوتا ہے۔ اگر پی ٹی سی ڈی کے ساتھ دوسرے ذہنی امراض بھی ہوں تو یہ معیاد طویل تر ہو سکتی ہے۔

علاج کے بعد امید ہے کہ مریض اپنے خوف پر قابو پانے، غم کو سہارنے کے علاوہ با اعتماد اور صحت مند زندگی گزارے۔ اگر آپ خود اپنی ذات میں کسی پیارے کی زندگی میں گزرے سانحوں کا گہرا سایہ محسوس کرتے ہوں تو ازراہِ مہربانی قریبی ذہنی صحت کے ادارے سے رجوع کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2