انصاف کا قتل


پاکستان میں تو آئے دن لوگ دھماکوں میں مرجاتے ہیں اس لئے پاکستانیوں کے لئے یہ معمول کی چیز بن گئی ہے مگر ترقی یافتہ ممالک میں ایک جانور بھی مرجاتا ہے تو اس پر بھی تحقیقات ہوتی ہیں کہ یہ جانور کیوں اور کیسے مرگیا؟ کیا اس کی حفاظت میں کوئی غفلت تو نہیں برتی گئی۔ نیوزی لینڈ ایسے ملک میں پچاس لوگوں کا ایک ساتھ قتل ہونا یقینا بہت بڑا صدمہ تھا۔ مگر اس کے باوجود نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اس دہشتگرد کے خلاف جس طرح کھل کر کھڑی ہوگئی اور جس انداز سے مسلم کمیونٹی کا ساتھ دیا دنیا نے دیکھا۔

دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے جو وعدے کیے اور اپنے وعدوں پر جو عملی اقدامات اٹھائے اس عمل پر باقی دنیا تو تعریفیں کرتی رہی مسلم دنیا اور بالخصوص نیوزی لینڈ کے مسلمان خود بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ ہے وہ کفر کا نظام جو اس لئے اپنے جوبن پر چل رہا ہے کیونکہ اس کفر کے نظام میں انصاف ہے۔ تبھی تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا یہ عمل باقی ممالک کے لئے ایک مثال بن گیا ہے۔

مگر افسوس کے پاکستان کا نظامِ انصاف ایسا ہے جس پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔ مطلب خوبیاں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں جبکہ خامیاں اور کمزوریاں گننے بیٹھ جائیں تو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ویسے بھی ہمارا ملک تجربہ گاہ ہے جہاں سیاست پر بھی تجربات ہوتے رہتے ہیں حکمرانوں پر بھی تجربات ہوتے رہتے ہیں عدلیہ بھی تجربات کرتی رہتی ہے۔

انصاف کے قتل سے مراد دراصل غریب و مظلوم طبقہ کا قتل ہے۔ ایک غریب انسان ہی اپنے تحفظ کے لئے ریاست کی طرف رُخ کرتا ہے۔ ریاست جسے ماں سے تعبیر کیا جاتا ہے غریب و مظلوم طبقہ روتا ہوا اپنی ماں کی طرف جاتا ہے۔ ماں نے اپنے بچوں (شہریوں ) کے تحفظ کے لئے کچھ ادارے بنا رکھے ہیں اور ان پر سختی سے ذمہ داری عائد کر رکھی ہے کہ میرے بچوں ( شہریوں ) کا تحفظ کرنا ہے۔ مگر وہی ادارے تحفظ نہ کریں یا پھر تحفظ کرنے میں غفلت برتنے لگیں تو بچوں ( شہریوں ) کا اپنی ماں (ریاست) سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

وہ اپنے مسائل اپنے انداز میں حل کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں بدامنی پھیلنے لگتی ہے امن و امان کی صورتحال بگڑنے لگتی ہے۔ بچے ( شہری) ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے آئے دن جرائم میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

یہی صورتحال آج کل ہمارے ملک میں عدلیہ کی ہے۔ عدلیہ عوام کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ جس کا اظہار معزز چیف جسٹس پاکستان نے کچھ دن پہلے اپنے ان الفاظ میں کیا ہے ”ججز اور وکلاء کا معاشرے میں وہ احترام نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا مزید یہ بھی کہا کہ ریاست شہریوں کو تعلیم دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔ سابق چیف جسٹس صاحب نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ موجودہ چیف جسٹس صاحب نے عدلیہ کی بہتری کے لئے کچھ نیا طریقہ متعارف کرایا ہے۔

جس میں ایک 22 A کا خاتمہ تھا جو بالآخر وکلاء کی ہڑتال کے سبب فیصلہ واپس لینا پڑا اور دوسرا نیا کام ماڈل کورٹ کا قیام ہے۔ ماڈل کورٹ کا قیام یقینا بہترین عمل ہوسکتا ہے مگر اس کے جو قوانین متعین کیے گئے ہیں۔ کیا وہ انصاف دلانے کے لئے ہیں بھی یا صرف فیصلے کرنے کے لئے ماڈل کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ماڈل کورٹ پر یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ قتل کے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہونی چاہیے اور چار دن میں مقدمہ نمٹانا چاہیے۔

مان لیتے ہیں یہ بہت اچھی کاوش ہے کہ چار دن میں مقدمہ نمٹا کر جلدی انصاف کی فراہمی کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان چار دنوں میں شکایت گزار وہ تمام ثبوت لاسکے گا جو کسی قاتل کو سزا دلانے کے لئے کافی و ضروری ہوتے ہیں۔ فوجداری مقدمات کا ایک اصول ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ فوجداری مقدمات کو ثابت کرنے کا یہ اصول ہے کہ 1 سے لے کر 100 تک مطلب پہلی سماعت سے لے کر آخری سماعت تک جب بھی جہاں بھی ثبوتوں کی ضرورت پڑے گی شکایت گزار قتل کے ملزم کے خلاف ثبوت لائے گا۔

اور ثبوتوں کی چَین اس طرح ہونی چاہیے کہ کہیں بھی کسی بھی کڑی میں کمزوری کی کوئی گنجائش موجود نہ ہو۔ اگر ثبوتوں کی کسی بھی کڑی میں کمزوری کی گنجائش نظر آئی تو ججز صاحبان اسے شک سمجھتے ہیں۔ اور شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو جاتا ہے مطلب ملزم کے باعزت بری ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ کہیں شک پیدا کیا جائے۔ اور اس شک پر وکیل ڈٹ جائے تو ملزم باعزت بری ہوسکتا ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ فوجداری مقدمات میں سزا کا یہ معیار ہے تو مظلوم بچارا چار دن رونے دھونے میں گزارے گا یا ثبوت جمع کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور اگر ثبوت جمع نہیں کرتا تو تمام ثبوت ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ اور جو بندہ بالکل بھی قانون کی پیچیدگیاں نہیں جاتا اسے کیا معلوم کہ میں کس چیز کو ثبوت کے طور پر سنبھال کر رکھوں اور کس کو پھینک دوں۔ جیسا کہ یہ عام رواج ہے مقتول کے خون والی جگہ اکثر دھو دی جاتی ہے اب یہ بہت بڑا ثبوت ہے جو کہ اکثر ضائع ہوجاتا ہے۔

اسی طرح وہ ہتھیار یا آلات جو قتل کے لئے استعمال کیے گئے ہوں انہیں بغیر دستانوں کے اٹھا لینا یا پھر پھینک دینا ثبوت ضائع کرنے کا سب بنتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے یورپ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ یورپ میں ایسے مقدمات چند دنوں میں نمٹا دیے جاتے ہیں جو واقعی درست بات ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی پولیس ایسی ہے جو فوری طور پہنچ کر تمام ثبوت اکٹھے کرلے۔ اور کیا عوام میں قانون کا وہ شعور ہے کہ وہ تمام ثبوت اکٹھے کیے جائیں جن کی بنیاد پر مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا پہلے محکمہ پولیس کو اس معیار کا ہوتا کہ مقتول کے ورثاء نہیں پولیس خود ثبوت اکٹھے کرنے اسی وقت پہنچ جاتی۔ تمام تر ثبوت پولیس کی ٹیم اکٹھے کرلیتی مقتول کے ورثاء کا صرف بیان ریکارڈ کرایا جاتا۔ پھر چار دن میں قتل کے مقدمات نمٹانا آسان ہوتا اور مظلوموں کو انصاف بھی ملتا۔ یہاں تو پوری گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے قاتل شک کی بنیاد پر باعزت بری ہورہے ہیں مظلوم بچارے مایوس ہوکر خالی ہاتھ واپس جا رہے ہیں۔ یہ انصاف نہیں انصاف کا قتل ہے۔

لوئر کورٹس کی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ بلوچستان میں آئے دن ایسے معاملات ہوتے ہیں جہاں لوگ عدلیہ سے انصاف لیتے لیتے خود مسائل میں الجھ جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بلوچستان میں عدلیہ سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ عدلیہ کو وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھا جارہا ہے اسی لئے بلوچستان میں خانگی فیصلوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

اور بلوچستان میں وکلاء برادری نے بھی عوام کو انصاف دلانے کی بجائے انصاف لینے والوں کے لئے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ کوڈ آف کنڈکٹ کا کوئی احترام نہیں ہے قانون پر عمل کرنے کی بجائے وکلاء اپنے دوستوں اور واقفیت پر معاملات کو نمٹاتے رہتے ہیں۔ یہ وہ تمام مسائل ہیں جس کی زد میں ہمارا معاشرہ آچکا ہے۔ اگر یونہی چلتا رہا تو لوگ عدلیہ کا رُخ کرنا چھوڑ دیں گے اور وکلاء کو دور سے دیکھ کر بھاگ جائیں گے۔ اس کا واحد حل قانون کی حکمرانی و پاسداری ہے۔ قانون کی پاسداری سب سے زیادہ معزز ججز صاحبان کو کرنی چاہیے اس کے بعد وکلاء برادری قانون کا احترام و پاسداری کرے۔ اگر َقانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اڑائیں گے تو پھر عامۃ الناس سے قانون اور قانون کے رکھوالوں کے احترام کی توقع رکھنا عبث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).