ہمارے معاشرے میں سچی اور وقتی دوستی



\"syed رات کے گیارہ بجے تھے۔ ڈرائنگ روم میں بچہ اور نوجوان پارٹی کی گپ شپ عروج پر تھی۔ دنیا جہاں کے موضوعات پر بحث و مباحثہ کا بازار گرم تھا۔ ہمارے ہاں یہ خاندانی روایت چلی آ رہی ہے کہ چھوٹے کزن اپنے ہم عمر یا بڑے کزنز کے ہاں کبھی کبھار (weekend) گزارنے آتے ہیں۔ ہم بھائی جب چھوٹے تھے تو اپنے تایا کے گھر رہنے جاتے تھے اور اب جب ہم بڑے ہوئے تو تایا کے پوتے اور چچاؤں کے بچے ہمارے گھر چھٹیاں گزارنے کبھی کبھار آتے رہتے ہیں۔ اس طرح سے نہ صرف جنریشن گیپ کم ہوتا ہے بلکہ ٹین ایجرز کو اپنے بڑوں سے کچھ سیکھنے کا موقع ملنے کی وجہ سے ان کی تربیت  بھی ہو جاتی ہے۔

محفل اپنے عروج پرتھی ہر کوئی اپنی بولیاں بولنے میں لگا ہوا تھا کہ میرے سب سے چھوٹے بھائی نے اچانک سب کو خاموش کراتے ہوئے اعلان کیا کہ اس کے ہم عمر کزن کا اپنے بہترین دوست سے جھگڑا ہو گیا ہے اور ایک عرصہ سے ان کی بات چیت بند ہے۔ اس کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ انکوائری شروع ہوگئی۔ بیچارہ کزن بمشکل اس معاملہ کی جھوٹی سچی تردیدیں کرنے لگا لیکن سب نے اس کا اعتبار کرنے سے انکار کر دیا، پھر اس کو اور اس کے سابقہ دوست کو لعنت ملامت کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

کچھ دیر بعد سب کی گفتگو کا رخ دوستی کے رشتے کی جزئیات کی طرف مڑ گیا۔ ہر کوئی اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں دوسرے کے نظریات کی دھجیاں بکھیرنے لگا۔ اکثریت کا خیال یہ تھا کہ سچی دوستی کا دور نہیں رہا۔ اب صرف مطلب نکالنے کے لئے ہی دوستی کی جاتی ہے۔ خلوص نام کی شے ہر رشتے سے عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ایک کزن کی یہ رائے تھی کہ ہر کوئی اچھا دوست ڈھونڈنا چاہتا ہے، لیکن بننا کوئی نہیں چاہتا، اس لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

اس سب بحث کے دوران سب کو یہ محسوس ہوا کہ میں خاموش بیٹھا ہو تو ایک کزن میرے سے مخاطب ہو کر بولا \’راشد بھائی! آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟\’ کافی دیر سے جاری بحث کی وجہ سے مجھے ان سب کے خیالات کا کافی اندازہ ہوچکا تھا اس لئے اب اس گفتگو میں شامل ہونا میرے لئے بہت آسان تھا۔ \’یار ! تم سب لوگ دوستی کے تصور کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو۔ بہت ساری چیزوں کو ملانے کی وجہ سے تمہیں صحیح خیال نہیں ہو پا رہا کہ اصل مسئلہ کہاں ہے؟ \’میرے اس طنز پر ایک شوخ کزن بولی\’ تو پھر آپ دور کر دیں نہ ہماری غلط فہمی۔ \’

\’اصل میں تم لوگ رفیق یا ساتھی (companion) اور واقف کار(acquaintance)  کو دوست کا مترادف سمجھنے کی غلطی کرتے ہو۔ وہ جس طرح کسی نے کہا ہے دوست نہیں ہوتا ہر ہاتھ ملانے والا اسی طرح بہت سے لوگ جن کو آپ اپنا دوست سمجھ رہے ہوتے ہیں، ان کا درحقیقت اس رشتہ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ پھر جب ان سے وقتی دعا سلام ختم ہوتی ہے تو آپ اس رشتے سے بدظن ہو جاتے ہو جو کبھی تھا ہی نہیں۔ تم لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایسے انمول تعلق دنوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ برسوں میں بنتے ہیں اور اس کی بھی مختلف سٹیجز ہوتی ہیں جن سے گزر کر ہی لوگوں میں اعتماد، بھروسے، خلوص اور ہمدردی کا یہ لازوال رشتہ قائم ہوتا ہے۔ \’

میرے بھائی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا \’ اب یہ سٹیجز کی کون سی سائنس ہے؟\’میں نے کہا \’دوست بنانا انسان کی فطرت میں ہے جب بھی وہ کسی نئی جگہ جاتا ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ کسی کے ساتھ دعا سلام بڑھائے اور اٹھے بیٹھے۔ اس معاملہ میں ہر کسی کا سلیکشن کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ بچپن اور جوانی میں چونکہ طبیعت مائل بہ لطف ہوتی ہے اس لئے دوست بھی کچھ ایسے ہی بنائے جاتے ہیں۔ پروفیشنل لائف میں کیریئر کے حساب سے اور جوں جوں عمر گزرتی ہے لوگ سنجیدہ دوستی کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن دلچسپ یہ ہے کہ یہ کوئی سیٹ پیٹرن نہیں ہے کچھ لوگ جوانی میں بھی مائل بہ لطف نہیں ہوتے اور شروع سے ہی سنجیدہ دوست کی تلاش میں ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کا ایسا مزاج ہوتا ہے کہ ادھیڑ عمری میں بھی وہ بس ٹائم پاس کے لئے ہی و قتی دوستی کرتے ہیں۔

عام طور پر مشترکہ عادتیں، مشغلے یا شوق آپ کو کسی کے قریب لاتے ہیں اور آپ اس تجسس اور جوش وخروش میں دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا شروع کردیتے ہو یہ سٹیج رفاقت کاری یا (companionship) کی ہوتی ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ شروع میں ہر کوئی اپنے آپ کو پردوں میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے لیکن جب اس کے ساتھ صبح شام گزرنا شروع ہوتی ہے تو پھر لوگوں کا اصل روپ سامنے آنے لگتا ہے جسے محاورے کی زبان میں گن کھلانا کہتے ہیں۔ جب دونوں ایک دوسرے کے اچھے برے کا ایکسرے دیکھ لیتے ہیں تو وہ اگلی سٹیج یعنی واقف کاری(acquaintanceship)پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد رویے میں ایک تبدیلی یہ آجاتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا لحاظ کرنا کم کر دیتے ہیں اور ان کی کجیاں اور کوتاہیاں دوسرے کو تنگ کرنے لگتی ہیں۔ یہ سب سے نازک اور اہم سٹیج ہوتی ہے کیونکہ اس چھلنی سے گزر کر ہی سچی دوستی کی پہلی اینٹ رکھی جاسکتی ہے ورنہ اکثر واقف کاریاں یا تو ادھر تک پہنچتی نہیں ہیں یا پھر پہلے ہی انجام سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ اگر یہ مرحلہ گزر جائے تو ایک دوسرے کے لئے جو برداشت اور خلوص پروان چڑھتا ہے وہ ہمالیہ سے بھی بلند ہوتا ہے۔ پھر یہ رشتہ مضبوطی کی طرف ہی جاتا ہے اور بالآخر سچی دوستی کی بیل پوری طر ح منڈھے چڑھ ہی جاتی ہے۔\’

\’ویسے ہوتا تو ایسے ہی ہے لیکن آج کل آخری سٹیج تک بات پہنچنے سے پہلے ہی کیوں اکثر ختم ہوجاتی ہے؟ صحیح معنوں میں دوستی بن ہی نہیں پاتی ہے۔ پرانے زمانے کی یاری آج کل کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ \’دیکھو !جس بے غرض اور پر خلوص دوستی کی تم بات کر رہے ہو اس کے نظر نہ آنے کی بنیادی وجہ پہلے اور آج کے لائف سٹائل اور رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ پوری زندگی ایک گاؤں یا قصبہ میں گزار دیتے تھے۔ (close knitted community)  ایک دوسرے سے گھل مل کر رہنے کا رواج تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا تھا بلکہ اس کے بیک گراؤنڈ تک سے واقف ہوتا تھا۔۔ ایک تو لوگوں کے پاس آپشنز محدود تھی اور کسی پاس دھوکہ دہی اور چیٹنگ کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ اس صورت میں جو ساکھ تباہ ہوسکتی تھی وہ اس پرانی سوسائٹی میں معاشرتی خود کشی کے مترادف تھا اس لئے جو تعلق بھی پروان چڑھتے تھے چاہے وہ رشتہ داری کے ہوں یا دوستی کہ، ان میں خلوص اور وفاداری شہد میں مٹھاس کی طرح پائی جاتی تھی۔ جو دوستیاں بچپن میں چل پڑتی تھی تھی وہ کسی کی موت پر ہی جا کر رکنے کا نام لیتی تھی اور یہ اکثر شاندار اور مثالی ہی ہوا کرتی تھی۔

پھر زمانہ بدلا، لوگ شہروں میں منتقل ہونے لگے۔ اس ہجرت سے لوگوں کا لباس اور رہن سہن ہی نہیں، اقدار بھی نئے تقاضوں کے ساتھ بدلتے گئے۔ اب سکول، کالج، دفتر اور فیکٹری کا عہد تھا۔ پہلے گنے چنے لوگوں سے ہی پوری زندگی میں آپ کا واسطہ پڑتا تھا جن کے عادت و خصائل آپ سے کچھ ڈھکے چھپے نہ ہوتے تھے اب ہر کچھ عرصہ بعد سکول بدلہ، کالج بدلہ، گھر بدلنا شروع ہو گئے۔ ان کے ساتھ ہی لوگ اور صحبت بدلنے کا رواج بھی زور پکڑنے لگا۔ اس نفسا نفسی کے کلچر میں لوگوں نے وقتی فوڈ کی طرح وقتی دوستی کا طریقہ اپنانا شروع کر دیا چونکہ وقت ہر کسی کے پاس کم تھا، آزمانے کا مواقع بھی کم ملتے تھے اور آپشنز بھی بے شمار تھیں اس لئے اس ڈسپوزیبل قسم کی دوستی کی ہوا چل پڑی۔ کچھ عرصہ کے لئے کسی کو دوست بنا لیا اس سے مطلب نکل گیا یا طبعیت بے زار ہوگئی تو اس کو چھوڑ کوئی نیا ساتھی ڈھونڈ لیا۔ لوگوں نے دوستی کے نام پر ایک دوسرے کا استعمال شروع کر دیا، وفاداری اور بے غرضی اس رشتے سے غائب ہو گئی۔ شہروں میں چونکہ بہت گھل مل کر رہنے والی کمیونٹی کا کوئی تصور نہیں تھا اس لئے ساکھ کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ان سب فیکٹرز نے مل کر جلتی پر تیل کا کام کیا اور رفتہ رفتہ وقتی اور ڈسپوزیبل دوستی کی یہ ہوا رکنے کی بجائے پھیلتی گئی یہاں تک کہ لوگوں کا ایک دوسرے پر اور اس رشتے پر اعتماد ہی اٹھا چھوڑا۔ اب سچی اور بے لوث دوستی ہر کسی کو کتابی بات ہی لگتی ہے۔\’

میرا تقریر نما تجزیہ ختم ہوا تو میرا بھائی کہنے لگا کہ \’ٹھیک ہے یہ سب ہو رہا ہے! لیکن اس معاملہ میں متوازن طریقہ کار کیا ہے؟ تا کہ زمانے کے ساتھ بھی چلا جائے اور بلاوجہ لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بھی بچا جائے۔ \’\’میری رائے میں اللہ کے بنائے ہوئے انسانوں کے خیر سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ اچھے ہو تو کبھی نہ کبھی ایسے لوگ ملے گے جو ان معاملات میں سیریس ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ لوگوں سے بے وجہ کی توقعات سے جتنا ہو سکے اتنا بچنا چاہیے، تیسرا یہ کہ آدمی اچھائی اور برائی کا مرکب ہے اس لئے نبی ﷺ کی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہ دوست بناؤ تو اس کی خامیوں کو دفن کر دو پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف دوسروں کو شک کا فائدہ دینا چاہیے بلکہ ان کی کجیوں اور کوتاہیوں کو برداشت کرنے کے لئے اپنا ظرف بڑا کرنا چاہیے۔ چوتھا یہ کہ غیر ضروری دوستیاں گانٹھنے سے پرہیز کرنا چاہئے اگر کہیں دعا سلام سے ہی کام چل رہا تو نئے دوست بنانے کی بجائے پرانے پر ہی اکتفا کرنا بہتر ہے۔ اور آخری بات یہ کہ جیسا ہم اپنے دوست کو پر خلوص، ہمدرد اور بے غرض کو دیکھنا چاہتے ہیں ویسا ہمیں پہلے اپنے آپ کو بنانا چاہیے تاکہ ہم جس معاشرے کے لوگوں کی ہر وقت شکایتیں کرتے رہتے ہیں ان میں کم از کم ایک مفید فرد کا تو اضافہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments