علم تاریخ میں مسلمانوں کے کارنامے اور ہماری بے حسی


شاکر احمد

\"shakirعلم تاریخ کی مؤرخین بہت سی تعریفیں کی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہےکہ علم تاریخ وہ علم ہے جس کے ذریعہ نبیوں، بادشاہوں، فاتحین اور مشہور شخصیتوں کے حالات اور گزرے ہوئے مختلف زمانوں کے عظیم الشان واقعات و مراسم وغیرہ معلوم ہو سکے۔

تاریخ ہمیں بزرگوں کے احوال سے واقف کر کے دل و دماغ ایک بابرکت جوش پیداء کر دیتی ہے تاریخ ہمیں قوموں کے حالات و واقعات اور ملکوں ملکوں سفر کراتی ہے تاریخ کا مطالعہ حوصلہ کو بلند کرتا ہے ہمت کو بڑھاتا ہے، تاریخ کے مطالعہ سے دانائی اور بصیرت ترقی کرتی ہے اور قوت فیصلہ بڑھ جاتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ انسان کو بادشاہوں، فاتحوں اور باکمال لوگوں کی حالات زندگی سے باخبر رکھتی ہے۔

قوموں کو منازل طے کرانے اور قوموں کو ذلت و پستی سے بچانے کے لئے تاریخ ایک زبردست مؤثر اور نہایت قیمتی ذریعہ ہے۔ قومیں جب کبھی ذلت کی پستی سے بام ترقی کی طرف متحرک ہوئی ہیں انہوں نے تاریخ کو سب سے بڑا محرک پایا ہے۔ قرآن کریم نے بھی ہمیں یہ بتایا ہے کہ سعادت مندی اور دین و دنیا کی کامرانی حاصل کرنے کے لئے تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے چنانچہ اللہ رب العزت نے لوگوں کو نصیحت حاصل کرنےکے لئے کلام پاک میں جابجا امم سابقہ کے حالات یاد دلائے ہیں کہ فلاں قوم نے اپنی بداعمالیوں کے کیسے برے نتائج دیکھے اور فلاں قوم اپنے اعمال حسنہ کی بدولت کیسی کامیاب ہوئی۔ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراھیمؑ، حضرت موسیٰؑ و عیسیٰؑ کے واقعات اور فرعون، نمرود و عاد اور ثمرود وغیرہ کے حالات قرآن میں اس لئے ذکر نہیں کئے کہ لوگ انہیں سن کر لطف اندوز ہوں بلکہ یہ عبرت اور نصیحت کے طور پر بیان کئےگئےہیں۔

انبیاء علیہ السلام جو نوع انسان کے سب سے بڑے محسن اور سب سے زیادہ خیرخواہ تھے انہوں نے جب کبھی کسی قوم کو ہلاکت سے بچانے اور عزت و سعادت سے ہمکنار کرنے کی کوشش فرمائی ہے تو اس قوم کو عہد ماضی کی تاریخ یاد دلائی ہے۔

آج جب کہ قوموں کی تاریخ کے اثر و نتائج سے لوگ واقف ہو چکے ہیں اور یہ حقیقت دنیا پر کھل گئی ہےکہ کسی قوم کو زندہ کرنے اور زندہ رکھنےکے سامانوں میں اس قوم کی گذشتہ تاریخ سب سے زیادہ ضروری ہے تو وہ قومیں جو اپنی کوئی باعظمت اور شاندار تاریخ نہیں رکھتے وہ فرضی افسانوں اور من گھڑت قصوں کو تصنیف کرتےہیں تاکہ فرضی قصوں کو تاریخ کا جامہ پہنا کر اپنی نئی نسل کو مسابقت اقوام کے میدان میں تیز گام بنائے اور جھوٹی تاریخ پر اپنی قوم کی حوصلہ افزائی کرے۔

یہی وجہ ہےکہ ہر وہ قوم جو دوسری قوم سے عداوت رکھتی ہے اس کی تاریخ کو مسخ کرنے اور اس کے افراد کو اپنی تاریخ سے ٖغافل اور ناواقف رکھنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے۔

اقوام عالم میں مسلمان ہی صرف وہ قوم ہے جو سب سے زیادہ شاندار تاریخ رکھتی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے بزرگوں کے کارناموں کا ایسا یقینی علم کرسکتی ہے جو ہر قسم کے شک و شبہات سے پاک ہو۔ مگر افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ آج جب کہ اقوام کا ایک دوسرے پر سبقت کا ہنگامہ تمام دنیا میں برپا ہے مسلمان جو سب سے زیادہ شاندار تاریخ رکھتے ہیں وہی سب سے زیادہ اپنی تاریخ سے بے پروا اور غافل نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے جس طبقے کو کسی قدر بیدار اور ہوشیار کہا جاسکتا ہے اس کی بھی یہ حالت ہے کہ اپنے لیکچروں تقریروں مضمونوں رسالوں اخباروں  اور کتابوں میں جہاں کہیں اخلاق فاضلہ کے متعلق کسی مثال کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

تو وہاں اہل یورپ میں سے کسی مشہور شخصیت کا نام فوراََ زبان اور نوک قلم پر جاری ہو جاتا ہے اور اس سے زیادہ مستحق سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں میں سے کسی ایک شخص کا نام بھی لینا گوارہ نہیں کرتے۔ کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ اور جدید علوم سے سرشار مسلمانوں کی تقریروں اور تحریروں میں خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی حسان بن ثابت، فردوسی، طوسی، ابن رشد، شیخ سعدی اور ابو علی سینا وغیرہ کے ناموں کے بجائے اہل یورپ کے تذکرے ملتے ہیں۔ جی ہاں اس کی سب سے بڑی وجہ کہ مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف اور غافل ہے اس ناواقف اور غفلت کی اہم وجہ مسلمانوں کا علم کے اس سلسلے کو چھوڑدینا ہے جو مسلمان فلاسفہ ریاضت دانوں اور علماء نے شروع کیا تھا اور علم کا مسکن کہلوانے والے بغداد کی یونیورسٹیاں کھنڈرات کے بغیر کچھ بھی نہ رہی۔۔۔

حالانکہ تاریخ نویسی کی طرف سب سے پہلے متوجہ ہونے والی قوم ہی مسلمان تھی انہوں نے اپنے بزرگوں کی صحیح تاریخ مرتب کی۔ مسلمانوں نے احادیث نبویہؐ کی حفاظت و روایت میں جس احتیاط سے کام لیا اور جو عزم و ہمت بروئے کار لائے ہیں اس کی مثال دنیا مین بسنے والی انسانی نسل ہر گز پیش نہیں کرسکتی۔ اصول حدیث اور اسمائ الرجال وغیرہ مستقل علوم محض حدیث نبوی کی خدمت و حفاظت کے لئے مسلمانوں نے ایجاد کئے اور اسی طرح روایت کی چھان بین اور تحقیق و تدقیق کے لئے جو محکم اصول مسلمانوں نے ایجاد کئے اس کی نظیر عالم انسانیت کے لئے ممکن نہیں۔

مسلمانوں کا وہ پہلا کارنامہ جو فن تاریخ سے تعلق رکھتا ہے وہ علم حدیث کی ترتیب و تدوین اور پھر اسی طرح اپنے خلفاء، امراء، علماء اور حکماء کے حالات قلم بند کرنا ہے جسے بعد میں اسلامی تاریخ کا نام دیا گیا۔

آج یورپی مؤرخین کی فن تاریخ کو دیکھتے ہوئے مسلمان داد دئے بنا نہیں رہے سکتے اور تعریف کرنے میں پورے خلوص سے کام لیتے ہیں لیکن شمالی افریقہ کے رہنے والے ایک اندلسی عرب خاندان کے مسلمان مؤرخ ابن خلدون جس سے اہل یورپ نے تاریخ لکھنی سیکھی بالکل بھی نہیں جانتے یا جانتے ہوئے بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔۔۔۔

جب ہم اپنی تاریخ سے لا علم ہوگئے تو مغرب کی تقلید شروع کردی حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم تاریخ کا بغور مطالعہ کریں اور مسلمانوں کے اس سنہرے باب کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بار پھر اپنی علم اور فن سے دنیا کو یہ باور کراتے کہ۔

ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ میل

ہم وہ نہیں جسے زمانہ بنا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments