فیض آباد دھرنا کیس میں نظر ثانی درخواستیں : سپریم کورٹ کا امتحان


فوج کو یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ نومبر 2017 میں لبیک تحریک کے دھرنے کو ختم کرنے کے لئے سول حکام نے سول اداروں کی ناکامی کے بعد آئین کی شق 245 کے تحت جب فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو فوج کے متحرک ہونے سے پہلے ہی حکومت اور لبیک تحریک کے درمیان معاہدہ کیسے طے پا گیا۔ اور اس معاہدہ پر ایک فوجی جنرل کے دستخط کس بات کی غمازی کررہے تھے؟ اس کے علاوہ اگر فوج حکومت کی خواہش اور حکم کے باوجود دھرنا ختم کرنے کے لئے ملوث ہونے پر آمادہ نہیں تھی تو وہ درپردہ مذاکرات اور مفاہمت میں کس قانون یا اصول کے تحت شریک ہوئی تھی۔ اسی طرح دھرنا ختم ہونے والے دن فوجی سپاہوں کے علاوہ اعلیٰ افسروں کی موجودگی اور خوشی خوشی مظاہرین میں کیش تقسیم کرنے کا رویہ کس اصول، مینڈیٹ یا آئینی اختیار کی عکاسی کرتا ہے؟

اس کی وضاحت صرف یہ دعویٰ کرنے سے نہیں ہو سکتی کہ بعض مظاہرین کے پاس گھروں کو واپس جانے کا کرایہ نہیں تھا اس لئے وزارت داخلہ کی ہدایت پر رقم کے لفافے تقسیم کرنے کے لئے اعلیٰ فوجی افسروں کو وہاں آنا پڑا۔ حکومت یہ امدادی رقم تقسیم کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی تلاش کر سکتی تھی۔ اپنی شہرت، وقار اور عوام میں نیک نامی کے بارے میں شدید حساس فوج کے افسروں کو اس کام میں ملوث ہونے سے اسی طرح گریز کرنا چاہیے تھا جس طرح سول حکومت کی درخواست کے باوجود فوج دھرنا کے شرکا کے خلاف کارروائی میں ملوث ہونے سے پرہیز کر رہی تھی۔ کیوں کہ وہ شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو غلط سمجھتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بیس روز تک جاری رہنے والے اس دھرنا کے دوران سرکاری اور نجی املاک کو 16 کروڑ 63 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ اس دھرنا کی وجہ سے ہونے والے شٹ ڈاؤن سے قومی پیداوار میں روزانہ 88 ارب روپے کا نقصان پہنچا تھا۔ ملک و قوم کو یہ عظیم نقصان پہنچانے والے مٹھی بھر لوگوں کو فوج کی طرف سے دی جانے والی عزت افزائی کا جواب آج بھی فوج اور اس کے ترجمان پر واجب ہے۔

طاقت ور ادارے جب اپنے اعمال کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کی بجائے صرف ان کی تردید کر دینا ہی کافی سمجھتے ہیں تب ہی جھوٹی سچی خبریں پھیلتی ہیں۔  اور ہر اس معاملہ میں بھی فوج کے ملوث ہونے کا تاثر قوی ہوتا ہے جس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ سیاست میں فوج کی دلچسپی اگر منتخب حکومت سے پیشہ وارانہ مواصلت تک ہی محدود رہتا ہے تو بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ناقص بنیاد پر استوار قرار دینے کا دعویٰ کرنے کی بجائے وہ ان امور کی وضاحت کردیتی جن کی وجہ سے یہ ساری ’غلط فہمیاں‘ جنم لیتی ہیں۔

وزارت دفاع کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستانی افواج میں حلف کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرینس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔  حلف کی خلاف ورزی ایک سنگین الزام ہے جسے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے‘ ۔  بدقسمتی سے یہ دعویٰ بھی اسی طرح محض ایک واہمہ کی حیثیت رکھتا ہے جس طرح اپیل کنندہ کے خیال میں سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر تصدیق شدہ خبروں کی بنیاد پر صادر ہؤا تھا۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی شہادت نہیں دیتی کہ پاک فوج نے آئین پاکستان کی وفاداری کے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے جرنیلوں کے بارے میں ’عدم برداشت‘ کی پالیسی اختیار کی ہے۔

بلکہ ملک کے آئین کو توڑنے اور غیر آئینی طور پر ملک پر طویل عرصہ تک حکومت کرنے والے جرنیلوں کو بھی فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔ اس ملک کے آخری فوجی حکمران آئین کی خلاف ورزی کے الزام کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے ہی بیرون ملک فرار ہیں۔  تاہم فوج نے اس پر بھی کسی پشیمانی یا حیرانی کا اظہار نہیں کیا۔

بہتر ہوتا کہ فوج کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل دائر نہ کی جاتی۔ ادارے کی عزت و وقار کے لئے اب بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ مختصر سماعت کے بعد ان درخوستوں کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کرے۔  ان امور پر ہونے والی بحث اور سامنے لائے جانے والے شواہد سے پاک فوج کی شہرت میں اضافہ کا امکان نہیں ہے۔  یہ صورت حال فوجیوں کے مورال پر زیادہ منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

 

 

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali