کوئٹہ میں قیامت ۔ حکومت کی کوتاہی


\"mujahid

آج صبح کوئٹہ کے سول اسپتال میں بم دھماکہ میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق اور اتنے ہی شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ خود کش دھماکہ تھا تاہم متعلقہ حکام اس واقعہ کی تحقیقات کررہے ہیں۔ دھماکہ اس وقت ہؤا جب تھوڑی دیر پہلے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی لاش اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچائی جا رہی تھی۔ دھماکہ سے تھوڑی دیر پہلے کاسی کی کار پر دو نامعلوم افراد نے حملہ کرکے انہیں ہلاک کردیا تھا۔ میت کے ساتھ مرحوم وکیل کے دل گرفتہ اعزہ ، وکلا اور صحافیوں کی بڑی تعداد بھی اسپتال پہنچی تھی۔ عین اس وقت اس ہجوم کو نشانہ بنا کر دھماکہ کیا گیا۔ اس دہشت گرد حملہ میں مرنے والوں کی زیادہ تعداد وکلا پر مشتمل ہے جبکہ بعض صحافی بھی جاں بحق یا زخمی ہوئے ہیں۔

یہ المناک سانحہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب ملک میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے اور یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ یہ آپریشن کامیابی اور تکمیل کے مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ یہ حملہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے کروایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اعتراف کیا ہے کہ اس موقع پر سیکورٹی کی کوتاہی کی وجہ سے حملہ آور کو دھماکہ کرنے اور اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کو ہلاک کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ دونوں بیان ایک دوسرے کے برعکس ہونے کے باوجود ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو نہایت افسوسناک ہے۔ جس حکومت پر لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، اسی کے نمائیندے اس سانحہ کے بعد مختلف تاویلات پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر وزیر داخلہ کی اس بات کو مان لیا جائے کہ سیکورٹی کی کمزوری کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہؤا ہے تو انہیں خود اور متعلقہ افسروں کو اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا چاہئے تاکہ عوام کو خبر ہو کہ جو لوگ اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں انہیں حکومت کرنے کا کوئی حق بھی نہیں دیا جا سکتا۔

تاہم وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کے اس بیان کو نظر انداز کرنا بھی مشکل ہے کہ اس دہشت گردی کے پیچھے بھارتی ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ ہے۔ بھارت کے ایجنٹ گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان میں سرگرم ہیں اور مقامی ناراض قوم پرست عناصر کے ذریعے صوبے میں انتشار اور بد امنی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بھارت خاص طور سے پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر منصوبوں کو ناکام بنانے کا خوہش مند ہے۔ اس سال مارچ میں پاکستانی حکام نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بھی گرفتار کیا تھا ۔ وہ بھارتی نیوی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور پاکستان میں دہشت گردی کے سلسلہ کو منظم کرنے کے لئے ایران سے یہاں آیا تھا۔ آج کے سانحہ میں ’را‘ کے ملوث ہونے کے معاملہ پر حکومت کو اس بارے میں صرف بیان بازی اور الزام تراشی تک محدود رہنے کی بجائے ، اس کی تفصیلات اور شواہد سامنے لانے کی ضرورت ہوگی تاکہ بھارت کو اس مذموم کارروائی کے لئے جوابدہ کیا جا سکے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی صورت حال کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستانی فوج اس صوبے میں متحرک اور امن و امان قائم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ یہ شکایات سامنے آتی رہتی ہیں کہ قوم پرست رہنماؤں کو اچانک اٹھا لیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے یا انہیں جان سے مار کر لاش کسی نامعلوم جگہ پر پھینک دی جاتی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے ان لوگوں کے دلوں میں بھی نفرت پیدا ہو رہی ہے جو نہ تو بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہیں۔ فوج اور حکومت کو بلوچستان میں اپنی سیاسی اور سیکورٹی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ چند گروہوں کی گمراہی کے جواب میں ریاستی اداروں کو بھی غیر قانونی ہتھکنڈے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ اس طرح یہ تمیز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلطی کررہا ہے۔ سیاسی اختلافات اور معاملات کو سیاسی بات چیت کے ذریعے حل کرنا ضروری ہے لیکن پاکستان کے سیاستدان اس حوالے کوئی مثبت اور صحت مند پیش رفت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان طالبان، القاعدہ، فرقہ وارانہ دہشت گرد گروہوں اور مسلح قوم پرستوں کا گڑھ ہے۔ حکام کو ان میں بہت سے گروہوں کے ٹھکانوں اور کارروائیوں کے بارے میں علم بھی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں مختلف گروہ آپس میں تعاون بھی کرتے ہیں کیوں کہ ان سب کا مقصد بے چینی اور انتشار پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے دہشت گردی کے خلاف بلا تخصیص کارروائی کی پالیسی کے تحت حکومت کو ان سب گروہوں اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جن کے بارے معلومات دستیاب ہیں۔ لیکن مختلف مصلحتوں کی وجہ سے سیکورٹی فورسز اس طرف توجہ نہیں دیتیں۔ اب مصلحتوں سے کام لینے کا وقت گزر چکا ہے۔ اگر اس ملک کو بچانا ہے اور حکمرانوں کو اس ملک کے شہریوں کی زندگیاں عزیز ہیں تو مذمتی بیانات کی بجائے تمام تخریب کاروں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی تقاضوں کے لئے ، بے گناہ شہریوں کی جان لینے والوں سے در گزر قابل قبول نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments